• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • طویل دشمنی کے بعد پیدا ہوتی دوستی اور جان لیوا قاتل — غیور شاہ ترمذی

طویل دشمنی کے بعد پیدا ہوتی دوستی اور جان لیوا قاتل — غیور شاہ ترمذی

کراچی سے 450 کلومیٹر دور, سطح سمندر سے 5،688 فٹ بلند, گورکھ ہل اسٹیشن صوبہ سندھ کے شہر دادو سے 93 کلومیٹر کے فاصلہ پر شمال مغرب کی طرف کوہ کیرتھر پر واقعہ ہے- گورکھ ہل اسٹیشن نہ صرف صوبہ سندھ کا بلند ترین مقام ہے بلکہ اسے آب و ہوا کے لحاظ سے پاکستان کے مشہور ترین پہاڑی تفریح گاہ مری کا ہم پلہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔

یوں تو گورکھ ہل میں میٹھے چشمے، آبشار اور قدرتی مناظر وافر نظر آتے ہیں اور فطری خوبصورتی کے رسیا لوگ پہاڑوں کا حسن دیکھنے کے لئے اکثر وہاں جاتے ہیں لیکن اس سیاحتی مقام سے کچھ پراسرار باتیں بھی منسوب ہیں جن میں گورکھ ہل کے ویرانوں میں مقامی لوگوں کے رکھے نام “مم” جیسی پرسرار مخلوق کی جھلک بھی نہ جانے کتنے برسوں سے سیاحوں اور مقامی لوگوں کو کئی دفعہ نظر آ چکی ہے- مم نامی یہ مخلوق بن مانس سے مشابہہ اور قد کاٹھ میں انسانوں جیسی مگر ان کا جسم بالوں سے ڈھکا ہوا ہوتا ہے۔ ایسی ہی مخلوق تبت کے پہاڑوں میں یٹی (Yeti) کے نام سے اور امریکی جنگلات میں بگ فُٹ (Big Foot) کے نام سے مشہور ہے۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مخلوق انسان نما بھیڑئیے کی نسل سے ہیں جو چلتے پھرتے تو بن مانس کی طرح ہیں مگر انسانوں اور جانوروں کا شکار بھیڑئیے کی طرح ہی خون سونگھ کر اور چیر پھاڑ کر ان کا شکار کرتے ہیں- ایک داستان یہ بھی مشہور ہے کہ گورکھ ہل کا نام بھی بھیڑئیے کی وجہ سے ہی پڑا کیونکہ فارسی میں بھڑئیے کو گرک کہتے ہیں-

یہاں کسی دور میں بہت گھنے جنگل تھے جس میں اس وقت کے سخت حریف چُھٹا اور گھائنچا برادریاں رہا کرتی تھیں جن کے درمیان جنگلی حدود کی ملکیت کا تنازعہ تین (3) نسلوں سے چل رہا تھا- گھائنچا قبیلہ کے زیر قبضہ جنگل کی حدود بہت وسیع تھی اور اس میں شکار بھی بہت زیادہ تھا- دوسری طرف چُھٹا قبیلہ کے زیر ملکیت جنگل کی حدود اگرچہ چھوٹی تھی مگر وہ اس راستہ سے ملتی تھی جہاں سے شہری آبادی تک پہنچنا نسبتا” آسان تھا- گھائنچا قبیلہ کے لوگوں کو شہر تک پہنچنے کے لئے آسان راستہ اختیار کرنے کے لئے اپنے حریف چُھٹا قبیلہ کے علاقہ سے گزرنا پڑتا تھا جس کے عوض وہ بھاری معاوضہ وصول کرتے تھے- شہر پہنچنے کے لئے گھائنچا حدود کے دوسری طرف کا راستہ بہت مشکل, دشوار گزر اور بہت پرخطر تھا کیونکہ وہاں “مم” کے کئی غول گھومتے رہتے تھے جو آنا” فانا” راہ گیروں کو چیر پھاڑتے تھے-

سردار سلطان گھائنچا کی ساری زندگی اپنے حریف سردار امین چُھٹا کے قبیلہ سے نفرت کرتے ہوئے گزری تھی- بچپن میں وہ امین چُھٹا کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چایتا تھا تو اب ادھیڑ عمری میں اس کی خواہش تھی کہ کسی جان لیوا وبائی مرض میں امین چُھٹا کی موت واقع ہو جائے- دوسری طرف امین چُھٹا کے دلی جذبات بھی سلطان گھائنچا سے کم مختلف نہیں تھے- اس کی بھی یہی خواہش تھی کہ کسی طرح سلطان گھائنچا کی موت واقع ہو جائے- دونوں براہ راست لڑنے کی بجائے بددعائیں کرنے پر مجبور تھے کیونکہ کچھ عرصہ پہلے ہونے والے تمام قبائل کے ایک بڑے جرگہ کے فیصلہ کی رو سے وہ ایک دوسرے سے تصادم نہیں کر سکتے تھے وگرنہ انہیں تمام قبائل کے مشترکہ لشکر کی یلغار کا سامنا کرنا پڑتا جس کا مقابلہ کرنا ان دونوں میں سے کسی کے بس کی بات نہیں تھی-

جنگ آزادی 1857ء سے کچھ سال بعد کا قصہ ہے کہ برف باری کے دوران ایک سرد رات کو سلطان گھائنچا جنگل کے اپنے حصہ میں “مم” سے اپنے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لئے پہرہ دے رہا تھا- دفاع کے لئے اس کے پاس اپنے زمانہ کی جدید ترین بندوق ونچسٹر تھی جو اس نے ایک انگریز سے بھاری بھرکم رقم اور سونے کے عوض خریدی تھی تاکہ وہ اپنے حریف امین چُھٹا پر برتری حاصل کر سکے- امین چُھٹا کے پاس 3 / 1847 کولٹ والکر ریوالور (Colt Walker Revolver) تھا جو اس نے بھی اسی انگریز سے خریدا تھا جس سے سلطان گھائنچا نے بندوق خریدی تھی اگرچہ دونوں اس سے لاعلم تھے کہ دونوں کو اسلحہ بیچنے والا ایک ہی سپلائر ہے-

یخ بستہ رات کی ٹھنڈک اور تنہائی میں سلطان گھائنچا نے دور سے کچھ آوازیں سنیں- اپنے ساتھیوں سے دور اور تند و تیز ہواؤں کے طوفان کے باوجود بھی سلطان تیزی سے آوازوں کی طرف لپکا- نزدیک پہنچنے پر اسے ایک انسانی ہیولہ دکھائی دیا جن پر اسے امین چُھٹا کا شبہ ہوا- اس نے اپنی رفتار تیز کی اور جب وہ اپنی حدود کے نزدیک پہنچا تو اس نے دیکھا کہ امین چُھٹا وہاں واقعی ہی موجود تھا اور اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھ رہا تھا- کسی تیسرے کی غیر موجودگی میں دونوں حریف ایک دوسرے کی طرف تیزی سے بڑھے- ابھی وہ ایک دوسرے سے 6/7 فٹ دور ہی تھے کہ ایک بہت بڑے درخت کے ٹوٹنے کی تیز آواز کی طرف متوجہ ہو گئے- ابھی وہ کچھ سمجھ ہی نہیں پائے تھے کہ وہ درخت سیدھا ان پر آن گرا-

سلطان گھائنچا نے خود کو زمین پر کمر کے بل گرا ہوا پایا- اس نے ہلنے کی کوشش کی مگر اس کا دایاں بازو اور ٹانگ بہت بری طرح درخت کے نیچے دبی ہوئی تھی- یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ لمبے اور بھاری بھرکم فوجی, پہاڑی بوٹوں کی وجہ سے اس کے پاؤں ٹوٹنے سے بچ گئے تھے- البتہ دائیں بازو کے اترے ہوئے کندھے کے جوڑ اور دائیں گھٹنے کے فریکچر کی وجہ سے وہ ہلنے جلنے سے قاصر تھا-اسے یقین تھا کہ جیسے ہی اس کے ساتھی اسے ڈونڈھتے ہوئے وہاں پہنچتے وہ اسے درخت کی قید سے آزاد کروا سکتے تھے- اس کے سر پر بھی کچھ چوٹ لگی تھی جس سے خون رس کر اس کے ماتھے سے ہوتا ہوا آنکھوں پر جمع ہو رہا تھا- اس نے آنکھوں کو صاف کرکے اپنے بائیں طرف دیکھا تو صرف ایک ہاتھ کی لمبائی سے کچھ دور اسے امین چُھٹا بہت بری حالت میں درخت کے نیچے دبا ہوا ملا- اس کی دونوں ٹانگیں, بازو اور پیٹ و سینے کا زیادہ حصہ درخت کی موٹی شاخوں میں دبا ہوا تھا جبکہ اس کا سر بھی شدید زخمی تھا جس سے خون رس کر اس کا منہ رنگین کر چکا تھا- اس نے امین چُھٹا کے زیادہ زخمی ہونے پر سکون کا سانس لیا اور قہقہہ لگا کا ہنسنے لگا-

سلطان گھائنچا کے قہقہہ کو سن کر امین چُھٹا نے نفرت سے کہا, “بند کرو اپنی مکروہ ہنسی اور دعائیں دو اس طوفان کو جس نے تمہیں آج میرے ہاتھوں مرنے سے بچا لیا”- سلطان گھائنچا نے یہ سن کر اسے جواب دیا, “تو تم ابھی تک مرے نہیں ہو- اگرچہ بہت بری طرح درخت کے شکنجہ میں پہنچ ہی چکے ہو جس میں تم رفتہ رفتہ زخموں اور شدید ٹھنڈ سے مر ہی جاؤ گے- یہ قدرت کا نہایت منصفانہ مذاق ہے جس کے تم صحیح اور بجا طور پر مستحق ہو”-

اس کے بعد سلطان گھائنچا نے پھر قہقہہ لگایا اور کہا کہ, “اگرچہ میں بھی درخت کے نیچے دبا ہوا ہوں مگر میں اپنی حدود میں ہوں- جیسے ہی میرے آدمی مجھے آ کر آزاد کروائیں گے تب تم اپنے دشمن کی زمین پر ایک بےبس چوہے کی طرح دبے ہوئے ملو گے- تمہارے لئے زخموں اور ٹھنڈ سے مرنے کے ساتھ ساتھ یہی بات شرم سے مرنے کے لئے کافی ہوگی کہ تمہیں میرے آدمی اس بےبسی سے نجات دلائیں گے”-

امین چُھٹا نے کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا کہ, “کیا تمہیں یقین ہے کہ تمہارے آدمی آ کر تمہیں آزاد کروا لیں گے- میرے آدمی بھی میرے ساتھ ہی جنگل میں پہرہ دے رہے تھے- وہ یہاں جلدی پہنچیں گے اور مجھے جھٹ پٹ اس بوجھ سے آزادی دلوا دیں گے- پھر انہیں اس بات میں بھی دیر نہیں لگے گی کہ وہ اس ٹوٹے ہوئے درخت کی بڑی بڑی شاخیں اٹھا کر تمہیں ان میں زندہ دفن کر دیں- جب تمہارے آدمی یہاں پہنچیں گے تو وہ تمہیں اس ٹوٹے ہوئے درخت کے نیچے مردہ حالت میں پائیں گے- تمہاری اس دردناک موت پر میں تمہارے قبیلہ کو اظہار تعزیت بھیجنا ہرگز نہیں بھولوں گا”-

سلطان گھائنچا پھنکارا, “یہ تو بہت مفید مشورہ ہے- یہاں آنے سے پہلے میں نے اپنے آدمیوں کو دس  منٹ بعد پیچھے آنے کی تاکید کر دی تھی- ان دس منٹوں میں سے سات  منٹ تو گزر بھی چکے ہیں- جب وہ مجھے اس درخت کے نیچے سے آزادی دلوائیں گے تو تمہارا یہ مشورہ مجھے بہت اچھی طرح یاد رہے گا- جب تم ہماری زمین پر درد ناک موت سے ہمکنار ہو گے تو میرے لئے یہ بھی ضروری نہیں ہوگا کہ میں تمہارے خاندان اور قبیلہ کو تعزیت کا پیغام بھیجوں”-

امین چُھٹا پھنکارا کہ, “صحیح ہو گیا – میں, تم اور ہمارے قبیلہ والے اس جھگڑے کو موت تک لڑتے رہیں- ہمارے بیچ کوئی دخل انداز نہ ہو- موت اور عذاب تم پر نازل ہو”- سلطان گھائنچا نے بھی جوابا” کہا کہ,”تم پر سب سے پہلے عذاب اور موت نازل ہو”-

دونوں سرداروں نے اپنے سامنے اپنی ممکنہ شکست اور موت کے سائے منڈلاتے دیکھے- دونوں یہ سمجھتے تھے کہ اس کے آدمی دیر سے اس کی مدد کو پہنچیں گے جبکہ اس کے دشمن کے آدمیوں کے وہاں پہنچنے کے امکانات بھی موجود ہیں- یہ صرف ایک موہوم سی امید ہی تھی کہ کس کے آدمی پہلے وہاں پہنچ کر دوسرے کے لئے سبکی کا سامان پیدا کر دیں- لہذا کافی دیر کوششوں کے بعد دونوں نے درخت کے بھاری شکنجہ سے نکلنے کی اپنی کوششوں کو ترک کر دیا اور خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چپ سادھ لی- سلطان گھائنچا نے اپنے بائیں ہاتھ کو حرکت دی اور اپنی سائیڈ ہولسٹر میں لگے نیم گرم قہوہ سے بھری بوتل کو کھینچ لیا- اگرچہ قہوہ کی بوتل تو وہ نکالنے میں کامیاب ہو ہی گیا تھا مگر اپنے حلق میں اس کے گھونٹ ڈالنے کے لئے اسے کافی دیر تک سخت محنت اور درد کی شدت سے گزرنا پڑا-

قہوہ کے گھونٹ جسم میں اترتے ہی اسے کچھ توانائی محسوس ہوئی- یکایک اس کے منہ سے نکلا, “اگر میں بوتل تمہاری طرف پھینکوں تو کیا تم ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑ سکتے ہو- اس میں بہت ہی شاندار قہوہ ہے اور اسے پی کر کچھ توانائی ملے گی اگرچہ موت ہم میں سے کسی ایک کا مقدر تو بننے والی ہی ہے”- امین چُھٹا نے جواب دیا کہ, “نہیں, میری آنکھوں میں خون جمع ہے- میرے ہاتھ بہت بری طرح پھنسے ہوئے ہیں- مگر ان کے باوجود بھی میں اپنے دشمن کے ساتھ قہوہ پینے میں بالکل بھی دلچسپی نہیں رکھتا”-

سلطان گھائنچا کافی دیر تک خاموش رہا اور سرد, تاریک رات میں آوازیں سننے کی کوشش کرتا رہا- اپنے دشمن کو شدید بےبسی میں مبتلا دیکھ کر مگر پھر بھی اپنے لئے اس قدر نفرت محسوس کرتے ہوئے اس کے دماغ میں لمحہ لمحہ تقویت پاتا ایک خیال آہستہ آہستہ جاگزیں ہو رہا تھا- اس کے دل سے نفرت ختم ہو رہی تھی اور دشمنی کے جذبات ختم ہو رہے تھے- اس نے امین چُھٹا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ,”پڑوسی, اگر تمہارے آدمی پہلے پہنچ گئے تو جیسے تمہارا دل کرتا ہے ویسے ہی کرنا- مگر میں نے اپنا ذہن بدل لیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ میرے آدمی اگر پہلے پہنچ گئے تو میں انہیں حکم دوں گا کہ وہ میرے مہمان کی حیثیت سے پہلے تمہیں اس بوجھ سے نجات دلا کر طبی امداد دینا شروع کریں اور بعد میں مجھے اس بوجھ سے نکالیں- ہم ساری زندگی جنگل کے اس چھوٹے سے حصہ کی ملکیت کے لئے شیطانوں کی طرح لڑتے رہے ہیں جبکہ یہاں کے درخت تو تھوڑی سی تیز ہوا کا مقابلہ تک نہیں کر سکتے اور اپنے مالک کے اوپر ہی آ گرتے ہیں- اس بھاری درخت کے نیچے زخمی حالت میں لیٹے ہوئے مجھے یہ لگ رہا ہے کہ جنگل کے اس چھوٹے سے حصہ کے لئے لڑنا بہت ہی احمقانہ کام ہے جبکہ کرنے کے لئے زندگی میں بہت ہی اچھے اور کئی دوسرے کام ہیں- پڑوسی, اگر تم میری مدد کرو تو ہم دشمنی کا یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے دفن کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے اچھے دوست بھی بن سکتے ہیں”-

امین چُھٹا یہ سن کر کافی دیر تک خاموش رہا اور سلطان گھائنچا کو لگا کہ اپنے زخموں کی شدت سے شاید وہ بےہوش ہو چکا ہے- پھر وہ آہستگی سے کراہتے ہوئے بولا, “اگر ہم اکٹھے ہو کر شہر کی طرف جائیں تو سب لوگ کس قدر حیران رہ جائیں گے- اس علاقہ میں جتنے بھی لوگ زندہ ہیں انہوں نے کبھی ایک گھائنچا کو چُھٹا کے ساتھ دوستوں کی طرح اکٹھے نہیں دیکھا- اگر ایسا ہو جائے تو تین نسلوں سے جاری خون خرابہ بند ہو جائے گا- لڑائی اور جنگ کے لئے سامان خریدنے کی بجائے ہم اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے خریداری کریں گے- اگر ہمارے یہاں امن قائم ہو جائے تو کوئی تیسرا دخل اندازی کرنے کی جرأت نہیں کر سکے گا- تم اور تمہارے لوگ آسانی سے ہمارے علاقوں سے بغیر معاوضہ ادا کئے شہر جا کر اپنی خریداری کر سکیں گے اور ہمارے لوگوں کو تمہارے گھنے جنگلوں میں شکار اور لکڑی کے لئے مزید علاقہ مل سکے گا- ہماری آپسی لڑائی سے فائدہ اٹھانے والے انگریز بھی تو ہمیں کوئی ہتھیار مہنگے داموں بیچ نہیں سکیں گے- میں تمہیں اپنے یہاں جشن نوروز منانے کی دعوت دیا کروں گا اور عید کے موقع پر میں اور میرے لوگ تمہاری مہمان داری کا لطف اٹھایا کریں گے- ہاں سلطان, مجھے بھی یہی صحیح لگتا ہے کہ ہم دشمنی بھول کر نئی اور پائیدار دوستی کی بنیاد رکھیں-”

دونوں سرداروں کو یہ بول اور سن کر بہت اچھا لگا اور وہ دشمنی کی بجائے امن اور محبت کے آنے والے دنوں کے خوشیوں بھرے لمحات کے تصورات میں کھو گئے- وہ حیران تھے کہ جس خونی دشمنی کو تمام قبائل کے جرگے بھی ختم نہ کروا سکے آدھا گھنٹہ پہلے ہونے والے ایک حادثہ نے اسے کیسے بھلا دیا اور دوستی میں تبدیل کر دیا- جنگل کی ٹھنڈی زمین پر یخ بستہ ہواؤں میں درخت کے نیچے زخمی حالت میں پڑے ہوئے انہیں اس امدار کا انتظار تھا جو انہیں درخت کے بوجھ سے نکال کر دوستی کے حسین رشتہ میں کھڑا کر دیتی- دونوں اپنے طور پر خاموش دعائیں بھی کر رہے تھے کہ اس کے آدمی پہلے اس مقام تک پہنچیں تاکہ وہ دوسرے کو درخت کے نیچے سے پہلے نکلوا کر دوستی کے اس نئے رشتے میں زیادہ حصہ ڈال سکے- کچھ دیر بعد سلطان گھائنچا نے کہا کہ, “کیوں نہ ہم مدد کے لئے اپنے لوگوں کو پکاریں تاکہ وہ ہماری آواز سن کر سیدھا ہماری طرف ہی آئیں”-

امین چُھٹا نے کہا کہ “ہم دونوں کو پھر مل کر آواز دینی چاہئے تاکہ ہماری اکٹھی آواز دور تک پہنچ سکے اور اگر ہمارے ساتھی دور ہوں تو وہ فورا” اسے سن کر ہماری طرف آ سکیں”-

دونوں نے مل کر جنگل میں شکار کرنے کے دوران ساتھیوں کو متوجہ کرنے والی ہوک جیسی آواز نکالنا شروع کی مگر کافی دیر تک بھی یہ آوازیں دینے کے باوجود بھی انہیں کوئی جواب نہیں سنائی دیا-

سلطان گھائنچا نے کہا, “مجھے تو جنگل کی تیز ہوا کے علاوہ کچھ نہیں سنائی دے رہا- کہیں ہمارے ساتھی شدید ٹھنڈ کی وجہ سے اپنے گھروں میں جا کر سونے تو نہیں چلے گئے”-

امین چُھٹا نے کہا, ” ایسا نہیں ہو سکتا – ایک دفعہ پھر کوشش کرتے ہیں – ہمارے ساتھیوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور ہماری آواز سن کر اس طرف بھاگا چلا آئے گا”-

دونوں نے پوری طاقت سے پھر آواز لگائی- سلطان نے کہا کہ “میں نے بھاگتے قدموں کی آوازیں سنی ہیں- آہ, مجھے اپنا سر اونچا کر کے ان آوازوں کی سمت دیکھنا ہوگا- ارے ہاں, میں دور سے کچھ ہیولے دیکھ سکتا ہوں جو اسی طرف سے ہماری جانب بھاگتے آ رہے ہیں جس طرف سے میں یہاں آیا تھا”-

یہ سن کر دونوں میں جوش بھر گیا اور دونوں زور زور سے چلانے لگے کہ اس طرف آؤ, ہم یہاں گرے ہوئے درخت کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں-

سلطان گھائنچا نے کہا کہ, ” ہاں میں اب انہیں دیکھ سکتا ہوں”- امین چُھٹا نے پوچھا کہ وہ کتنے ہیں-

سلطان نے کہا, “وہ بہت دور سے دھول اڑاتے ہوئے آ رہے ہیں- شاید وہ 11 / 12 تک ہیں”- امین چُھٹا نے کہا کہ, ” پھر وہ تمہارے ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ میرے ساتھ تو صرف 5 ہی تھے”-

سلطان گھائنچا نے کہا کہ, “وہ بہت تیز رفتاری سے ہماری طرف ہی بھاگ رہے ہیں”-

امین چُھٹا نے پوچھا, “تم نے اتنے آدمی پہرے کے لئے رکھے ہوئے ہیں- واہ, یہ بہادر آدمی فورا” ہی ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا دیں گے- واہ, میرے دوست یہ تمہارے بہادر آدمی, واہ”-

سلطان گھائنچا نے یکایک خوفزدہ اور ہسٹریائی انداز میں ہنسنا شروع کر دیا اور کہا کہ, “نہیں یہ میرے آدمی نہیں ہیں”-

بہتے خون کی وجہ سے بند آنکھوں کی وجہ سے دیکھ نہ سکنے والے امین چُھٹا نے حیرانگی سے پوچھا, “تو پھر یہ کون ہیں”-

سلطان گھائنچا نے ہسٹریائی آواز میں جواب دیا, “مم”

Advertisements
julia rana solicitors london

پس تحریر نوٹ:-
اس مضمون کو پڑھنے والے اگر حالیہ پاک, بھارت تعلقات میں جنبش برپا کرنے والے کرتار پور بارڈر کھولنے کے واقعہ سے منسوب کرنا چاہیں تو یہ غلط نہیں ہو گا- اس کہانی میں انسانوں کو چیر پھاڑ کر شکار کرنے والے “مم” کا کردار ہمارے حقیقی و زمینی حالات میں امن دشمن طاقتیں اور سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لئے اختلافات کو اچھالنے والے سشما سوراج اور اس جیسے دوسرے کئی لوگ ادا کر رہے ہیں-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply