ابھی بات آدھی ہی تھی کہ کسی نے پاکستان میں قائم میڈیا کے حقوق کے لئے سرگرم ایک ایوارڈ یافتہ تنظیم فریڈم نیٹ ورک کا ذکر چھیڑ دیا، فریڈم نیٹ ورک (ایف این) نے میڈیا کی آزادی کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پریس آزادی بیرومیٹر 2018ء کے تحت یکم مئی 2017ء سے یکم اپریل 2018ء کی نگرانی کی رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق میڈیا کے خلاف کم از کم 157 حملوں اور خلاف ورزیوں کے واقعات چاروں صوبوں، اسلام آباد اور قبائلی علاقوں میں ریکارڈ کئے گئے۔ “یہ ایک ماہ میں اوسط خلاف ورزیوں کے تقریبا 15 واقعات ہیں۔ یعنی ہر دوسرے دن ایک حملہ۔ اسلام آباد کے بعد صحافیوں کے لئے دیگر خطرناک علاقوں میں دوسرے نمبر پر پنجاب رہا، جہاں سترہ فیصد حملے، سندھ میں سولہ فیصد، بلوچستان میں چودہ فیصد اور خیبر پختونخوا میں دس فیصد ریکارڈ کئے گئے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں سب سے کم حملے یعنی آٹھ فیصد ریکارڈ کئے گئے۔ یہاں مجموعی 157 میں سے محض تیرہ واقعات ریکارڈ ہوئے۔[5]
یہ سوچا جانا چاہیئے کہ وہ یمن میں بچوں کی شہادتیں ہوں یا کراچی میں بچوں کی سمگلنگ ہو یا اسلام آباد میں صحافیوں کا قتل، اس کے پیچھے عالمی برادری کی خاموشی کا کیا کردار ہے، لیکن درد کی یہ زنجیر یہیں نہیں ٹوٹتی بلکہ اگست 2018ء کی یہ خبر بھی پڑھ لیجئے کہ لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ارکان پارلیمنٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے آج تک لاپتہ افراد کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی۔[6] یعنی ابھی تک مسنگ پرسنز کے حوالے سے قانون سازی کا پہلو تشنہ ہے۔ کہنے والوں نے یہ بھی کہا کہ لاپتہ ہونے والوں میں سکول ٹیچر، ریڑھی بان، دکاندار، ادیب، صحافی، پروفیسر الغرض ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں، اب کس کے پاس وقت ہے کہ وہ جائے اور گنتی کرے کہ کس طبقے کے کتنے لوگ لاپتہ ہیں، اس کے لئے بھی باقاعدہ ایک ایسے قومی سطح کے ادارے کی ضرورت ہے، جو ہر طرح کے دباو سے آزاد ہو اور اگر کوئی یہ سارا ڈیٹا جمع کر بھی لے تو اسے خاطر میں کون لائے گا!؟ اور پھر اس ساری محنت کا نتیجہ کیا نکلے گا۔؟
اتنے میں ایک صاحب نے مشتاق احمد کاملانی کا قصہ چھیڑا اور بولے 1980ء میں مشتاق کاملانی کا شمار معروف کہانی نویسوں اور ادبا میں ہوتا تھا، مشتاق کاملانی کو سندھی، پنجابی، اردو اور انگلش پر عبور تھا، انہوں نے بہت سی کہانیاں لکھیں، جو حیدرآباد ریڈیو کے ساتھ ساتھ بھارت کی ریڈیو سروس “آکاش وانی” سے بھی نشر ہوئیں، انہوں نے ضیاء الحق کے دور میں “گھٹی ہوئی فضا” کے عنوان سے ایک کہانی لکھی، کہانی چھپ گئی جبکہ ان کا ناول ابھی پریس ہی میں تھا، جب انہیں اپنی کہانی کے لئے حیدرآباد میں ادبی دوستوں نے بلایا اور انہیں ایک ریڈیو انعام میں دیا۔ ابھی کاملانی صاحب حیدرآباد سے لوٹ ہی رہے رہے تھے کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ دوسرے دن اس پریس پر چھاپہ پڑا، جہاں سے ان کا نیم چھپا ہوا ناول “رولو” ضبط کیا گیا اور اس پریس کو بھی بند کروا دیا گیا….!! اس کے بعد لوگوں نے جب کاملانی کو دیکھا تو مسٹر کاملانی پاگل ہوچکے تھے۔

چائے کی میز پر مختلف باتیں ہو رہی تھیں، ان سب باتوں میں انسان کی بے بسی اور سماج کی بے حسی قدرِ مشترک تھی اور باتوں کے بیچ میں جو بات بار بار اٹھائی جا رہی تھی، وہ یہ تھی کہ دنیا کے نقشے پر مظلوم بکھرے ہوئے ہیں اور ظالم متحد ہیں، ملک کوئی سا بھی ہو، مظلوم جتنا بے بس ہوتا جاتا ہے، مقتدر ادارے اتنے ہی بے لگام اور بے حس ہوتے جاتے ہیں۔ مظلوموں کی موثر ترجمانی کے لئے کون کیا کردار ادا کرسکتا ہے!؟ اور ہماری کوششوں کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟ اتنے میں ایک صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ بھی کچھ بولئے، میں نے کہا دوستو! ہم مانیں یا نہ مانیں، یمن کا المیہ، مسنگ پرسنز، گمشدہ افراد، لاپتہ بچے اور صحافیوں پر تشدد ہمارے معاشرے کا حقیقی حصہ ہے۔ ایک محقق، کالم نگار، ادیب یا صحافی کبھی بھی اس کرب سے آنکھیں نہیں چرا سکتا، جو کرب شہید یا لاپتہ ہونے والے بچوں، قتل ہونے والے صحافیوں یا مسنگ پرسنز کے لواحقین کو لاحق ہوتا ہے۔
اگر آپ ادیب ہیں اور معاشرے کی نبض کو دیکھنے کے ماہر ہیں، اگر آپ محقق ہیں اور سماج کے اتار چڑھاو کو سمجھتے ہیں، اگر آپ قلمکار ہیں اور درد کو الفاظ میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں، اگرآپ کی بات میں دم ہے اور آپ کے نکات میں وزن ہے تو پھر کوئی آمر، کوئی ڈکٹیٹر اور کوئی دشمن آپ کی تحریر کو اشاعت سے نہیں روک سکتا اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو پھر کسی کی سفارش یا رشوت آپ کو محقق یا ادیب نہیں بنا سکتی۔ ادیب اور محقق کا قلم معاشرے کی نبض ہوتا ہے، ہمارے ارد گرد اس وقت بے بسی اور بے حسی کے درمیان لڑائی جاری ہے، ایک طرف بے بس عوام ہیں اور دوسری طرف بے حس حکمران، اگر ادیب اور محقق بے حسی سے آنکھیں چرائے اور بے بسی کو بیان کرنے سے کترائے تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا۔ بے بسی اور بے حسی کی اس لڑائی میں آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کیجئے اور نتیجہ خدا پر چھوڑ یے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں