ایک ضحاک کے کاندھوں پر
بیٹھے ہیں دو اجگر
جانے کب سے چاٹ رہے ہیں
ذہنوں کا جوہر
اس بستی میں کب اترے گا
کاوہ آہن گر
“باغی” ہیں بازار کی زینت
بیچ چکے لشکر
شاعر کے سب شبد بکاؤ
چکلے ہیں دفتر
اس بستی میں مارِ سیاہ ہیں
سارے دانشور
چپ کا ہنر ہے زوروں پر
ہے نامعلوم کا ڈر
اس بستی میں کب اترے گا
کاوہ آہن گر
بِن ہاتھوں کے جسم کروڑوں
شانوں پر ہیں سر
ان میں بھی بس ڈر
تیرا درفش، تیرا پرچم
لہرائے کیونکر
کاوہ آہن گر
قتل ضحاک نے ہونا ہے
مٹ جاہیں گے اژدر
وقت کے انگاروں پر رکھی
تیغ ہے وہ خنجر
اس بستی میں پیدا ہوگا
آج نہیں تو کل
کاوہ آہن گر

(نوٹ:کاوہ آہن گر(لوہار) ایک ایرانی دیومالائی کردار ہے، جس نے عوام پر مسلط’’ضحاک ‘‘ نامی شیطان پرست بادشاہ کے خلاف اپنی دھونکنی کے چمڑے سے تیار کیا ہوا جدوجہد کا پرچم ’’درفش کاویانی‘‘ بلند کیا تھا۔ ضحاک کو اپنے کاندھوں پر بیٹھے دو سانپوں کو کھلانے کے لیے روزانہ دو انسانوں کا مغز درکار ہوتا تھا. عوام کو ضحاک کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے ’’کاوہ ‘‘ نے اسے کاندھوں پر بیٹھے ہوئے دو سانپوں سمیت قتل کر دیا تھا.مشتاق علی شان )
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں