پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلام کا قلعہ ہے۔ اس کے حاکم اور محکوم مسلمان ہیں، اسلام کے نام پر یہ ملک حاصل کیا گیا اور اسلام کے بغیر اس ملک کی بقا کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔۔۔ اسلام ہی وہ واحد نکتہ ہے جو ہمیں ایک قوم بناتا ہے اور یہاں ہر طبقہ اسلام کے بغیر نامکمل ہے، اسلام کے بغیر یہاں صرف قومی اور لسانی عصبیتیں بچتی ہیں۔۔۔ حکومت اسلام کے نام پر چلتی ہے، فوج اسلام کے نام پر لڑتی ہے، عدلیہ اسلام کے نام پر فیصلے کرتی ہے، رہی بات عمل کی تو جیسے انفرادی زندگی میں 98 فیصد مسلمان قوم کے 90 فیصد مسلمان نماز نہیں پڑھتے، ویسے ہی اسلامی نظام ، آئین اور قانون کے ہوتے ہوئے اس پر حکومتی، عدالتی اور افواج کی سطح پر بھی عمل نہیں کیا جاتا۔
قرارداد مقاصد سیکولرازم کے راستے کی دیوار ہے، پاکستان کبھی سیکولر اسٹیٹ بن کر باقی نہیں رہ سکتا۔ مگر عوام کے ساتھ ساتھ مقتدر طبقوں کے ہاں بھی اسلام کے نفاذ کے بارے میں یہی سوال پایا جاتا ہے ‘کون سا اسلام۔۔۔؟’ اس مسئلے کی جڑ خود وہ مولوی ہیں جنہیں لگتا ہے کہ یہ ملک اسلامی نہیں ہے ۔۔۔ ان کے نزدیک یہ اسلامی تب ہی کہلائے گا جب وہ خود تخت نشین ہوں گے یا تختہ دار پر۔۔۔
اس ملک کے نظام میں بعض خرابیاں ضرور ہیں۔۔۔ جن کا ڈھنڈورا پیٹنے کی بجائے اصلاح کرنی چاہیے اور اصلاح وہی کر سکتا ہے جو اس ملک کے اسلامی ہونے پر یقین رکھے اور اس ملک سے محبت نہیں، عشق رکھے۔۔۔ ہم نظام کی خرابیوں کی سزا بطور ریاست پاکستان کو دینے کے قائل نہیں ہیں ۔ پاکستان ہمارا وطن اور ہمارا عشق ہے۔
اور یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ تصورِ وطن کو تصورِ امت کے منافی سمجھنا فکری بگاڑ اور جہالت ہے۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں