مٹھائی والا۔ ایم پی اے

ہا۔ ہائے۔یہ نگوڑ ی تو کل پی ٹی آئی والوں سے مٹھائیاں کھا رہی تھی۔ آج ن لیگ سے۔اس کم بخت ،ناٹھی کو لت لگ گئی ہے۔ست ربٹی گیند کی طرح تھاں تھاں ٹھپے کھانے کی۔ویلی۔ناٹنکی۔ چلو وہ تومٹھائی کی شوقن تھی۔ اِس ایم پی اے کو کیا ہوا۔چور اچکا چوہدری تے لنڈی رن پر دھان۔ساری خواتین کو یہی کیوں مٹھائی کھلا رہا ہے۔ارے ۔چائے والا توسنا تھا۔مٹھائی والابھی دیکھ لیا۔مجھے تو ایسے مرد’’راجہ گدھ ‘‘کےقیوم لگتے ہیں۔تمہیں یاد نہیں آپا بانو نےکہا تھا ۔ ’’محبت کی اصل حقیقت بڑی مشکل سےسمجھ آتی ہے۔ کچھ لوگ جو آپ سے اظہار محبت کرتے ہیں اتصال جسم کے خواہاں ہوتے ہی، اورکچھ آپ کی روح کے لیے تڑپتے ہیں ‘‘۔ لیکن ماں کہتی تھی کہ عورت کےپاؤں دہلیزپار کر جائیں تو انہیں ریورس گئیر نہیں لگتا۔ خصم بھی کر لوجتن بھی کرلو۔واپسی مشکل ہے۔بتا۔ سچ ہے یا جھوٹ ۔؟۔نصیبو پر ،کوسنے،من و سلوی کی طرح اتر رہے تھے۔عمرو عیارکی زنبیل سے’’صلواتوں‘‘والا فولڈرکھل چکا تھا۔
پراگندہ الفاظ کونجوں کے ڈاربن کرلائن میں کھڑے تھے۔وہ سُلگی جا رہی تھی اورمریدمیں ٹھنڈا کرنے کی ہمت نہ تھی۔رن مرید۔عام گھروں کی طرح میرے دوست شیخ مرید کا گھربھی مرغی والا تھا۔ناگواری میں نصیبو کاپارا تھرما میٹرکی طرح چڑھ جاتا ۔وہ اچھی خاصی پڑھی لکھی تھی۔ گفتگو میں وہ نظم کی طرح آزادتھی۔خیالی قصیدوں والی نظم کی طرح ۔جبکہ مریدغزل کی طرح پابند تھا ۔خیال کی گائیکی کے دوران نصیبوکےسُرکبھی پکے نہیں لگے۔ہمیشہ سانس اکھڑ جاتی۔لیکن جونہی وہ دم بھرنے کو رکتی تو مرید کی یہ طے شدہ ذمہ داری تھی کہ وہ کہہ شدہ باتوں پرتین بار’’جی‘‘ کہے۔شادی کےتین۔قبول سے لے کرطلاق کےتین حروف کےدرمیان مریدکی زندگی ہائیکو(تین سطری نظم) جیسی تھی۔ وہ اول درجے کا سامع تھا۔اور’’خانگی مشاعرے‘‘کا میزبان بھی تھا۔ اسے گمنام رن مریدوں سے نفرت تھی اوریہ اوپن سیکرٹ تھا کہ مرید کا گھر گھوڑے والا نہیں ہے۔ اُس کاعقیدہ تھا کہ کنواروں اور، رنڈوں کے علاوہ سارے رن مریدہیں۔سماج سے بے پرواہ ۔رن مرید۔نصیبو کی سانس بحال ہو چکی تھی۔بولی تمہیں یاد نہیں پطرس بخاری والاقصہ۔؟
پطرس بخاری سے کسی نےپوچھا آپ کبھی لاجواب ہوئے ہیں تو بولے:ہاں ایک بار۔میری گھڑی خراب ہو گئی تھی اور میں نے گھڑیوں کی دکان پرجا کرکہا اسے ٹھیک کردیں۔
دکاندار:ہم گھڑیاں ٹھیک نہیں کرتے۔
پطرس:تو آپ کیا کرتے ہیں۔؟
دکاندار:ہم ختنے کرتے ہیں۔
پطرس:تو پھریہ گھڑیاں کیوں ٹکائی ہیں۔؟
دکاندار:تو آپ بتادیں،کہ ہم کیالٹکائیں۔؟
سماجی دباؤ ۔ایسا خوف ہے جس میں مبتلا ’مریض‘ یہ سوچتے ہیں کہ ہائے۔ لوگ کیا کہیں گے۔اسی خوف کی وجہ سے ختنے والی دکان پر گھڑیاں لٹکائی جاتی ہیں۔لیکن بعض لوگ سماج سے ماورا ہوتے ہیں ۔یوسفی صاحب نے کہا تھا کہ عورت اور۔زمین دونوں کی کشش ۔ آدمی کو خاک میں ملا دیتی ہیں ‘‘۔ اورمنٹو صاحب نے کہا تھا ’’میرےشہر کے معززین کو میرے شہر کی طوائفوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا‘‘۔دور آمریت میں فیض صاحب کی غزل’’ گلوں میں رنگ بھر ے‘‘ہیرا منڈی میں ہٹ ہوئی تھی۔یہ سب ماورائی نشانیاں ہیں ۔جیسے آج کل شہدوالا اور مٹھائی والا۔۔سانس پھر ٹوٹ گیا۔
مرید۔تین بار جی جی۔
مٹھائی،تو صرف شادی اورپیدائش سے منسوب خوشی کا میواہوتا تھا۔اسی لئے مٹھائی کی دکانوں پر رش دیکھ کربچوں کی شرح پیدائش کااندازہ کیا جاتا تھا۔وگرنہ خوشی تو نرگس فخری کااشتہار دیکھ کربھی ہوتی ہے۔لیکن اشتہار کی مٹھائی کون کھلاتا ہے۔پچھلے دنوں پی ٹی آئی چیف عمران خان نے کہا کہ اگر ملک میں فوج آئی تو لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے۔جس پر،پرویز رشید نے کہا تھا کہ عمران خان پہلے بھی مٹھائی کے شوق میں نکلے تھے،اورچھوہارے کھا کرآگئے۔یہ سچ ہے کیونکہ جس کے پاس چھوہارا ہو ۔وہی مٹھائی ڈھونڈنے نکلتا ہے۔اسی لئے پچھلے دنوں فیصل آبادکے ن لیگی ایم پی اے شیخ اعجاز کی مٹھائی کا بھی کافی چرچہ رہا۔
15نومبر 2016 کوپنجاب میں مخصوص نشستوں پربلدیاتی الیکشن ہوئے۔میونسپل کارپوریشن فیصل آباد کی خاتون نشست پرنگہت سہوترا،نے بھی الیکشن لڑا۔انتخابی نشان آئس کریم تھا۔ انہیں شہرکے کئی ’’مخیر‘‘ ممبران اسمبلی نے پرانی اورنئی شناسائی پرووٹ ڈلوائے۔ نگہت سہوترا جیت گئیں۔نومنتخب لیڈی کونسلر کو سب سے پہلےسابق سٹی ناظم ممتازعلی چیمہ نے مٹھائی کھلائی ۔پھر پی ٹی آئی کے رہنما ظاہر اولکھ پہنچ گئے۔لیگی ایم پی اے شیخ اعجاز احمدنےبھی منہ میٹھا کرایا۔ البتہ ایم پی اے طاہر جمیل،کی مٹھائی۔میسو کی طرح بچ گئی۔شیخ اعجازکے اپنےچار امیدواروں رانا فیصل،میاں اجمل،نصرت شعیب اورسہیل سردارہار گئے تھے۔انہوں نے خواتین کو مٹھائی کھلا کرسوگ منایا۔
مالکن :رضیہ۔!۔ تم تین دن سے کام پر نہیں آئی ۔اور بتایا بھی نہیں ؟
نوکرانی : باجی میں نے فیس بک پر بتایا تھا ۔۔’’ گاؤں جا رہی ہوں۔‘‘
صاحب کو تو پتہ تھا۔۔ انہوں نے تو کمنٹ بھی کیا تھا ۔۔’’ مِس یو رضیہ‘‘
شیخ صاحب نے بھی جس کو مِس کیا اس سے رابطہ رکھا۔کم بخت کونسلرنے آئس کریم چکھی تک نہیں اورمٹھائیاں کھا کھا کر شوگر لیول پورا کرلیا۔وہ سماجی دباؤ سےماورا نکلی۔اور ۔شیخ اعجازتو تب سے ماورا تھے۔جب سے ان پر نشاط سینما کی خریداری، ستیانہ روڈ پرقیمتی گھربنانے اور پراڈوجیسی مہنگی گاڑی اچانک خریدلینے کےالزام لگے۔سٹی جنرل سیکرٹری ن لیگ ۔ شاہد بیگ کو بلدیاتی الیکشن میں ہروانے کا ہاربھی انہوں نے ہی پہنا۔ان کےپاس تو شیرکا ٹکٹ بھی تھا۔۔مریدتمہیں یاد ہے؟۔ یوسفی صاحب کاجملہ ’’جب شیر اوربکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے لگیں توسمجھ لو کہ شیرکی نیت اور بکری کی عقل میں فتور ہے‘‘۔یہاں بھی صرف فتور ہی ہے۔سیاست خدمت نہیں ٹھرک ہے،اورمخصوص سیٹوں نے ٹھرک مزید بڑھا دیا ہے۔بھلا بتاؤ تواحمد فرازنے۔
’’سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں‘‘
یہ شعر کیوں لکھا تھا۔لوگ شہداورتتر بٹیر لے کربے وجہ نہیں پھرتے۔پاؤں دیکھ کرچادربچھانے سےبہتر ہے چادر دیکھ کرپاؤں پھیلائے جائیں۔سرتاج ۔!سیاست کےسینے میں دل نہیں۔دماغ ہوتا ہے۔سچ یا جھوٹ۔؟
مرید کے وہی تین حروف۔
نصیبوکی مسدس پھر شروع تھی۔؟ موت کے کنوئیں پرجب ساری ٹکٹیں بک جائیں تو اعلان ہوتا ہے ناں۔ ؟’’ ساریاں لیڈیاں اندر آجاو‘‘۔ تو کھسرے سٹیج سےاتر کر کنوئیں میں چلےجاتے ہیں۔یہاں بھی ٹکٹیں بک چکی ہیں۔اب اعلان ہو رہے ہیں۔لیکن میڈم بوٹا نام کا ایک کھسرا موت کے کنوئیں سے جھنگ پہنچ گیا ہے۔میڈم یکم دسمبر 2016 کو پی پی 78میں ہونے والا ضمنی الیکشن لڑ رہا ہے۔میڈم بوٹا۔جیت کر’’مغلوں ‘‘کے حرم میں واپس جانا چاہتا ہے۔وہ جیت گیا تو کیا شیخ اعجاز اسےبھی مٹھائی کھلائیں گے۔تمہی بتاؤ۔شیخ مرید۔یہ انداز رہبری کیا ہے۔تمہاری تو برادری بھی ہے۔؟۔مٹھائیاں کیوں بٹ رہی ہیں۔کس بات کی خوشی ہے۔؟
ہائیکو:’’نئی پراڈو۔ کی‘‘۔

Facebook Comments

اجمل ملک
مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ بیورو چیف ایکسپریس نیوز۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply