امیر جماعت اسلامی موقع کی تلاش میں؟

طاہر یاسین طاہر
مذہبی سیاسی جماعتوں کا مستقبل اس کے سوا کیا ہے کہ انھیں چند سیٹوں کے عوض ایک دو وزارتیں’’عطیہ‘‘ کر دی جائیں۔امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے باغ جناح میں دو روزہ سندھ ورکرز کنونشن سے خطاب کے دوران میں کہا کہ اگر انھیں موقع ملا تو وہ ملک میں اسلامی شریعت نافذ کر دیں گے۔انھوں نے مزید کہا کہ ہم ایسا نظام اور معاشرہ قائم کریں گےجہاں حکمرانی صرف عوم کی ہو گی،جہاں ایک انسان دوسرے کا محتاج نہ ہوگا،ایک ایسی دنیا جس میں غربت اور جہالت نہ ہو گی،جہاں ایک خاندان اور پارٹی دوسروں کا استحصال نہ کر سکے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ قائد اعظم نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو مدینہ کی طرز پر اسلامی ریاست بنائیں گے۔
اس امر میں کلام نہیں کہ سیاست کا مقصد اقتدار کا حصول ہوا کرتا ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ ہاں اس مقصدکو پانے کے لیےسیاسی جماعتیں اپنا اپنا منشور پیش کرتی ہیں، اس منشور میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ منشور عوام کے لیے جاذب اور پر کشش ہو۔پاکستان میں دائیں بازو کی جماعتیں اپنے منشور میں اسلامی شریعت کے نفاذ کی بات کو لازمی حصہ بناتی ہیں ،جبکہ پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور اے این پی جیسی قدرے لبرل جماعتیں اس شرعی نفاذ کے نعرے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتیں بلکہ ان کا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ لوگوں کو روٹی،کپڑا مکان،روزگار اور انصاف ملے۔بادی النظر میں ہر جماعت ووٹر کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ اقتدار میں آکر یہ جماعت ووٹرز کی محرومیاں دور کرے گی اور ملک میں خوشحالی اور عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا۔ہمیں یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ مذہبی جماعتیں ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتی ہیں، جیسا کہ سراج الحق صاحب نے بھی اپنے خطاب میں کہا۔ ایسا اس لیے ہے کہ اپنی تما تر توانائیوں ،پارٹی نظم و ضبط اور انٹرا پارٹی الیکشن جیسی خوبی کے باوجود جماعت اسلامی جیسی بڑی مذہبی جماعت بھی یہ سمجھتی ہے کہ اقتدار کی دیوی ابھی کلی طور ان کی طرف مائل نہیں ہو سکی بلکہ کبھی کبھار ایک آدھ جھلک، گاہے ایم ایم اے، تو گاہے کسی اور صورت میں دکھا کر ،مذہبی جماعتوں کی بھی معشوقہ ہونے کا تاثر قائم رکھتی ہے۔مذہبی جماعتیں اپنے فطری و فکری اتحادی نون لیگ کے ذریعہ بھی اقتدار کی دیوی کی جھلک کرتی رہتی ہیں۔آمریت اس حو الے سے مذہبی جماعتوں کے لیے خدائی نعمت ہوتی ہے،کہ وفاق میں بھی انھیں ایک دو وزارتیں ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ہمیں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے طرز سیاست کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔مولانا فضل الرحمان بھی اقتدار کی راہداریوں میں اسلامی نظام کے نفاذ کا پرچم تھامے ہوئے اپنی وزارتوں پر اپنے اسلامی طرز سیاست کی چھائوں کیے رکھتے ہیں۔قریب قریب ساری مذہبی جماعتیں اس حوالے سے ایک سی ہیں۔یہ وہی جماعت اسلامی ہے جس نے تحریک نظام مصطفیٰ کے نام پر بھی عوام الناس سے دھوکہ کیا تھا اور ضیائی اسلام کے نفاذ میں اس کی ہم رکاب بنی تھی۔بھٹو حکومت کے خلاف اس وقت چلنے والی تحریک کو امریکہ کی مکمل سر پرستی حاصل تھی۔یہاں تک کہ وہ تحریک، جسے مذہبی جماعتوں نے نظام ِمصطفیٰ تحریک کا نام دے کر ہائی جیک کر لیا تھا اس تحریک کے رہنماوں نے لاہور میں 19،ایریل کو امریکن سنٹر کے سامنے سے گذرتے ہوئے جلوس کے شرکا سے ’’کارٹر زندہ باد‘‘ کے نعرے لگوائے۔اس وقت امریکن سنٹر کی چھت پر ایک امریکی آفیسر کرسٹو فر شلز اور اور سنٹر کا ایک پاکستانی ملازم اجمل خان موجود تھے۔جنھوں نے، امریکی سفیر کارٹر کے حق میں لگنے والے نعروں کا انتہائی گرم جوشی سے ہاتھ ہلا ہلا کر جواب دیا۔یہ ایسے تاریخی حقائق ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
جماعت اسلامی ہو یا کوئی بھی دوسری جماعت ،جسے عوام کی بھر پور پذیرائی نہ ہو وہ ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتی ہیں۔لفظ موقع کااگرچہ ایک معنی یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ ووٹرز کی طرف سے ووٹ دے کر مذہبی جماعتوں کو اقتدار کی دیوی کے کلی وصال تک لانا۔ ایسا مگر آنے والے کئی عشروں تک ممکن نہیں۔ مذہبی سیاسی و عسکری جماعتیں اس حقیقت سے آگاہ ہیں، چنانچہ وہ سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ عسکری جدو جہد اور نجی جہاد کے ذریعے اقتدار کی دیوی کا وصل چاہتی ہیں۔تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ موقع پرستوں کا انجام دردناک ہوا ۔خاس طور وہ موقع پرست جو مذہب کو اپنے ارادوں کی سیڑھی بنا لیتے ہیں۔عالمی سیاسی و معاشی حالات نئے سیاسی و معاشی حالات کی تبدیلی کا مظہر ہوتے ہیں۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ میں ٹرمپ کی جیت دنیا بھر کے نسل پرستوں، مذہب پرستوں اور علاقہ پرستوں کی جیت کا پیش خیمہ ہو گا تو وہ غلطی پر ہیں۔ بلکہ ٹرمپ کی جیت تو انتہا پسندی کے خلاف عوامی رویہ کو تیز تر کرے گی۔
آخری تجزیہ میں مذہبی جماعتوں کو مشرق وسطیٰ میں کوئی پذیرائی نہیں۔ ایشیا اور مشرق وسطیٰ ہی تو مذہبی جماعتوں کا’’ دارالاسیاست و جہاد ہے‘‘پاکستان میں تو آئندہ کئی عشروں تک ممکن نہیں۔مذہبی جماعتوں کو اگر اپنی سیاسی جد وجہد اور عوامی حمایت پر اعتقاد ہو تو یہ کبھی بھی اپنے عسکری ونگز ترتیب نہ دیں۔ یہ جماعتیں نجی جہاد کی کبھی بھی سر پرستی یا حمایت نہ کریں۔ ایسا کر کے مذہبی جماعتیں موقع کی تلاش میں ہی تو ہوتی ہیں کہ اگر ووٹ کے ذریعے کامرانی نہ ملی تو کلاشنکوف اور فتوے کے ذریعے سماجی دباو ڈال کر حصہ وصول کر لیں گے۔موقع پرستی کی یہ بد ترین مثال ہے۔ جہاں تک تعلق ہے اسلامی شریعت کے نفاذ کا، تو یہ ایک ایسا مشکل تر کام ہے کہ اس پر ساری مذہبی جماعتیں ہی متفق نہیں ہو سکیں گی،کیونکہ ساری مذہبی جماعتیں اسلام کی کلی نمائندگی کرنے کے بجائے اپنے اپنے مسلکی رویوں کی ضامن ہیں۔اس لیے جماعت اسلامی یا مولانا فضل الرحمان کی جمعیت اور مولانا سمیع الحق کی جمعیت کے لیے یہی سود مند رہتا ہے کہ انھیں موقع ملتا رہے۔جہاں جہاں انھیں موقع ملتا ہے یہ جماعتیں اپنے حق میں اقتدار کی راہداریوں سے کوئی وزارت،کوئی کمیٹی کسی کونسل کی چیئرمین شپ نکال ہی لیتی ہیں، اس سے زیادہ نہ ان کا ہدف ہے نہ ان کے پاس عوامی حمایت۔ابھی کچھ اور بھی لکھنا تھا کہ نواب شیفتہ یاد آگئے،
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف ِ فسادِ خلق سے نا گفتہ رہ گئے

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”امیر جماعت اسلامی موقع کی تلاش میں؟

  1. جب 99 فی صد مسلمانوں کے ملک میں اسلامی پارٹیوں کو مجوعی طور پر صرف چار فی صد نمائندگی دی جائیگی تو وہ سیکولر پارٹیوں کے رحم و کرم پر تو ہونگے۔وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں بھی پردے پر پابندی لگ جاۓگی اور اسلامی پارٹیاں اپنی کم پارلیمانی طاقت کی وجہ سے کچھ بھی نہیں کرسکیں گی مسجدوں اور مدرسوں کو بند کرنے کا بل تو آج بھی پاس ہوسکتا ہےکیونکہ پارلیمنٹ میں سیکولر پارٹیوں کی نمائندگی 96 فی صد ہے۔۔کیا آپ نے کبھی یہ سوچا بھی ہے۔یا پتہ ہی نہیں ہے۔

Leave a Reply