آج کل میڈیا پر ایک افسوسناک خبر بار بارسرد آہیں بھرنے پر مجبورکر رہی ہے۔ جسے دیکھنے کے بعد والدین اپنے بچوں کی طرف دیکھتے ہیں اور معصوم بچے اس خبر کو دیکھتے ہی سکولوں میں انہیں ملنے والی سزاوں کو یاد کرتے دل ہی دل میں یہ کہتے ہیں کہ پتہ نہیں کب ہم میٹرک کریں گے اور اس سکول سے ہماری جان چھٹے گی۔
لاڑکانہ کے کیڈیٹ کالج میں احمد نامی طالب علم کی جو حالت ہوئی اُسے دیکھنے کہ بعد ہر آنکھ اشکبار ہوئی ہوگی ۔کیونکہ اس معصوم پر جو ظلم کیا گیا ہے اس طرح تو شاید ابو غریب یا گوانتانا موبے کی قیدیوں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا ہوگا۔ جب یہ خبر میری نظر سے گزری تو میں اپنی ماضی میں کھوگیا اور چھٹی کلاس سے لیکر میٹرک تک جو تشدد، اور ذہنی ٹاچارچر مجھ سمیت میرے دوستوں نے برداشت کیا وہ بھی احمد کے واقعہ سے کم نہیں، لیکن ہم سب کی یہ خوش نصیبی کہ لیں کہ ہم میں سے کوئی انتہائی قدم اٹھانے کی ہمت نہ کر سکا ۔ہوتا کچھ یوں تھا کہ میرے گھر کے سامنے ہی سکول تھا جس میں ہم سب بہن بھائی پڑھا کرتے تھے چونکہ رٹا لگانے میں کافی کمزور تھے اس لیے ٹیچرکے عطاب کااکثر شکاررہتے۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ شروع میں اٹھارہ لڑکوں کو مار پڑ رہی تھی جو آہستہ آہستہ کم ہوتے گئے اور آخر میں مجھ اکیلے کو ہی مس تخة ِمشق بناتیں ۔۔وجہ معلوم کی تو پتہ چلا کے باقی سترہ لڑکوں نے مس ثمینہ کے پاس ہوم ٹیوشن لی ہے جس کی وجہ سے نہ وہ مار کھاتے ہیں اور پیپرز میں اچھی مارکس حاصل کرلیتے ہیں۔ مس ثمینہ کی کوشش تھی کہ میں بھی ان بزدل لڑکوں کی طرح ہھتیار ڈال دوں گا اور ان سے ٹیوشن پڑھنے کیلئے گھروالوں پر دباوڈالوں لیکن ان ہی دنوں زرداری صاحب جیل سے رہاہوئے تھے اور ان کی کہانیاں اخبارات کی زینت بنتی تھی کہ انھوں نے جیل میں اس قدر تشدد برداشت کیا لیکن کبھی سر نہیں جھکایا، ان کی کہانیوں سے مجھے اتنی تحریک ملی کہ میں نے بھی کہا کہ ہر ظلم برداشت کرلوں گا لیکں مس کے پاس ٹیوشن نہیں پڑھوں گا۔ گھر پر ایک دھمکی دیدی تھی کہ اگر اب مجھے مس نے مارا تو میں کبھی اسکول نہیں جاﺅں گا۔ اتفاق سے اُس دن مس نے حسب سابق ہماری “سروس” کی جس سے ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اورہم خوب روئے، جب گھر پہنچے تو اماں حضور سے کہا کہ ہم آپ کو اپنی “تشریف” نہیں دیکھا سکتے ہمیں مس نے اس قدر مارا ہے۔ اگلے دن جب والدہ سکول آئیں تو انہوں نے ہماری پرنسپل صاحبہ سے پختون انداز میں صرف اتنا کہا ۔۔میڈم “امارا بچہ کو دوبارہ مارا تو ام اس مس کو جان سے ماردے گا”۔ اماں حضور کی یہ دھمکی اس قدر کام آئی کے اس کے بعد بہت کم مار پڑتی پھر جب ہم ساتویں میں آئے تو مس خدیجہ اپنے سخت رویے کی وجہ سے والدین میں بہت مقبول تھیں۔ مس خدیجہ کے پاس بانس کا ڈنڈا ہوا کرتاتھا اور یہ بالکل اسی طرح ان کے ساتھ ہوتا تھا جیسے علامہ مشرقی اور ان رفقا ءکے پاس بیلچہ اور سائیں قائم علی شاھ کے پاس بھنگ۔خیروہاں ہم نے کچھ پڑھائی بھی کی اور مہینہ میں۔ ایک دفعہ ان کے بھائی ایک دن دوستانہ ماحول بناتے اور سیاسی ومذہبی باتیں کرتے جس کا مجھے بے چینی سے انتظار رہتا تھا۔
پھر جب ہم آٹھویںکلاس میں آیے توگویا ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی ہو یوں محسوس ہونے لگا جیسے چھٹی جماعت کے دن دوبارہ لوٹ آئے ہوں اوراس قیامت کا نام مس روبینہ تھا ، مس روبینہ اسٹک منگواکر “تشریف” پر ایسے ڈنڈے برساتیں جیسے سال بعد قالین کو وائپر کے ڈنڈے سے جھاڑا جاتا ہے۔ مس روبینہ لڑکیوں کو بھی نہیں بخشتی تھیں اور اسی “مقام” پر مارتی جہاں لڑکوں کو مارا جاتا۔۔اب ہمارے پاس دو آپشن تھے؛ یا تو گھر سے بھاگ جاتے یا مس روبینہ کے پاس ہو م ٹیوشن لے لیتے ۔ہم نے دوسرا آپشن اپنایا اور اتنا ہی نقصان اُٹھایا جتناگھر سے بھاگنے میں اُٹھاتے۔مس ہمیں انہی سوالات پر نشانات لگا دیتی جو پرچہ میں آنے ہوتے تھے، ہم سب دوست رٹا لگا نے میں مصروف ہوجاتے اور اچھے نمبرز لےکر گھروالوں کے سامنے سرخروٹھہرتے۔ہمیں ٹیوشن میں یہ بھی سختی سے کہا جاتا تھا کہ سکول میں کسی دوسری ٹیچر کو پتہ نا چلے کہ تم ہمارے ہاں پڑھتے ہو۔۔نہم اور دہم جماعت میں سکول انتظامیہ نے نئے اساتذہ کو بھرتی کیا ۔جب انھوں نے ہماری کلاس کو پڑھانا شروع کیا تو دو تین بچوں کے علاوہ سب بچے سزا کے انتظار میں کھڑے رہتے ۔۔حتیٰ کہ ایک دفعہ سب لڑکوں کو ڈیڑھ سو دفعہ اٹھک بیٹھک کر وائی گئی، اس سزا کے بعد کئی دن تک قضائے حاجت کیلئے بیٹھنا مشکل ہوگیا۔۔
یہ تمام تشدد برداشت کرنے کے بعد ہماراکونفیڈنس اس قدر کم ہو چکا تھا کہ ہم کسی سے بات کرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے ،کوئی اونچی آوازسے بات کرتاتو سہم سے جاتے، ہمیں اپنی منزل کا کچھ پتہ نہیں تھا ، ہماری مثال ان بھیڑبکریوںسی تھی جو گولیوں کی آوازسنتے ہی بے سمت بھاگنے لگتی ہیں۔ میٹرک میں ہماری کلاس میں 54 طلبہ وطالبات تھے جن میں سے صرف تین طلبہ ماسٹرزمکمل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور پانچ طلبہ گریجویشن مکمل کرچکے ہیں، جن میں سے ایک خوش نصیب میں بھی ہوں ۔۔میں سوچتا ہوں اگر ہمیں اچھے اساتذہ مل جاتے تو کتنا اچھا ہوتا، آج پاکستان کی ترقی میں ہم جو اپنا حصہ شامل کر رہے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہوتا۔ لیکن پیسے کی ہوس اور جہالت جب دماغ پر چڑھ جائے تو نقصان معصوم لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے ۔
آج ہر علاقے میں چھوٹے چھوٹے ڈربے نماءسکول بنے ہیں جہاں آج بھی یہ گھناؤنا کھیل کھیلاجارہا ہے ۔خدارا اس قوم کے معماروں کی تعلیم سے پہلے ان اساتذہ کی تربیت کا بندوبست کریں۔ جن کے ساتھ آپ کا بچہ دن کا بیشتر حصہ گزارتا ہے ۔میں احمد کو خوش نصیب سمجھتا ہو ں کہ ُاسے اس اذیت سے نجات مل گئی جسے وہ روز برداشت کرتا ہو گا، اب نہ اسے کچھ یاد ہے اور نہ ہی یہ پتہ لگ رہا ہے کہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے، لیکن شاید اس کی یہ قربانی ان پتھر دل اساتذہ کے دل نرم کرنے میں مددگار ثابت ہو اور اُن کے ضمیر کوزندہ کردے، احمد کی مقبولیت شاید اس وجہ سے بھی ہے کہ وہ کیڈیٹ کالج کا طالبِ علم تھا اور میڈیا کی فراوانی نے بھی اہم کردار ادا کیا، لیکن اس سے پہلے نہ جانے کتنے احمد اس طرح کی صورتِ حال کا شکار ہوچکے ہونگے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں