شخصیت کی تعمیر و ترقی۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

شخصیت کسی بھی انسان کی اُن نفسیاتی خصوصیات کا مجموعہ ہے، جو اس کے انفرادی طرزِ عمل کا تعین کرتا ہے، بالخصوص دنیا کے ساتھ تعلقات کا تعین۔ شخصیت کے تناظر میں تعمیر اور ترقی دو مختلف اصطلاحات ہی نہیں، بلکہ دو مختلف زاویے ہیں مگر تکمیلِ شخصیت میں دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ تعمیر کو افقی (horizontal) سمت میں رواں سفر تصوّر کیا جاتا ہے، یعنی کہ وقت کے ساتھ انسان اپنے علم ، فن و دیگر سماجی اور نفسیاتی پہلوؤں کی تراش خراش کرتے ہوئے تکمیلِ شخصیت کی طرف قدم بڑھاتا جاتا ہے، ایک مقرر وقت پر انسان اس افقی لکیر سے ایک قدم اوپر کی طرف اٹھاتا ہے، یہ عموی (vertical) چھلانگ ہے، اس کا نام ترقی ہے، یعنی کہ ایک خاص سطح پر افقی سفر کرتے ہوئے انسان اس قابل ہو پاتا ہے کہ ایک سیڑھی اوپر، عمود، کی طرف قدم اٹھا پائے، اب اس جگہ سے پھر افقی ، یعنی تعمیر، کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اور درکار شعوری مہارت کے حاصل ہونے پر ایک اور قدم عمودی سمت میں، یعنی کہ ترقی کی جانب اٹھاتا ہے، مختلف انسانوں میں تعمیر اور ترقی کی منازل کا وقت، بے شمار وجوہات کی بنیاد پر، مختلف واقع ہوا ہے
 تکمیلِ شخصیت کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا ہے، اس بارے محققین میں کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں، عمومی خیال یہی ہے کہ جسمانی اور ذہنی صحت کی تنزلی کے ساتھ ہی شخصیت کی تکمیل کا عمل رک جاتا ہے، اگرچہ اب اس بارے دوسرا نکتہ سامنے آیا ہے کہ چونکہ خوبصورت اور بالغ شخصیت کا جسمانی خوبصورتی یا مضبوط یاد داشت پر کلّی انحصار ثابت نہیں، بلکہ گاہے یہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ جسمانی طور پر نحیف اور کمزور یاد داشت رکھنے والے افراد بھی بہترین شخصیت کے حامل ہو سکتے ہیں، اس لیے بڑھاپا شخصیت کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ شخصیت کی تکمیل میں کردار ادا کرنے والے عوامل کے حوالے سے دو مختلف، بلکہ متضاد آراء، دیکھنے میں آئی ہیں، حالانکہ یہ دونوں آراء اپنے اندر جزوی سچائی لئے ہوئے ہیں۔ پہلی یہ کہ شخصیت بنتی نہیں، بلکہ پیدا ہوتی ہے، یعنی کہ شخصیت کی تکمیل میں بنیادی کردار اندرونی عوامل (جینیاتی و پیدائشی) کا ہے، اس نظریے کی تائید میں عموماً یہ مثال دی جاتی ہے کہ ماحول، کھاد، آب و ہوا جیسی بھی کیوں نہ ہو، کھیرے کے بیج سے کھیرا، گلاب کی قلم سے گلاب اور آم کی گٹھلی سے آم ہی پیدا ہو گا، ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ پیاز بوئیں اور ٹماٹر کی فصل اٹھائیں، اسی طرح خاندانی جینیات و خون ہی انسان کی مکمل شخصیت کا تعین کرتے ہیں، چاہے انہیں کسی بھی، اچھے یا برے، ماحول میں رکھا جائے، انسان کی ” اصلیت ” ظاہر ہو کر رہے گی۔
دنیا کی تاریخ میں خاندانی انتقالِ اقتدار، نظریۂ خانگی، اور فراعین سے لے کر برطانوی حکمرانوں تک، اپنی ہی نسل، حتی کہ سگے بہن بھائی میں شادی کے رواج کا بنیادی کارن یہی تھا کہ “شاہی اصیل خون ” کو کسی بھی قسم کی “ملاوٹ ” سے پاک رکھا جائے تاکہ خاندان کی انفرادیت اور فرد کی خصوصیاتِ حکمرانی میں کوئی کمی نہ آنے پائے، ہندو دھرم کے علاوہ باقی تمام مذاہب نے انسانوں کی اس تقسیم کو پسند نہیں کیا۔ اس نظریۂ شخصیت کے بالکل متضاد رائے، کہ شخصیت پیدا نہیں ہوتی بلکہ بنتی ہے، بے شمار سنجیدہ حلقوں میں پائی جاتی ہے، دوسرے الفاظ میں بیرونی عوامل (پرورش، تعلیم، محنت سماج، خوراک، آب وہوا وغیرہ) ہی شخصیت کی تکمیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں،، ان کے مطابق یہی بیرونی عوامل ہی انسان کی شخصیت کے سنورنے یا بگڑنے میں اہم ترین ہیں، ایسے افراد کے نظریے کی بنیاد عموماً مذہبی اخلاقیات ہیں کہ تمام انسانوں کو خالقِ کائنات نے برابر پیدا کیا، کوئی بھی اونچا یا نیچا نہیں، پیدائش کے اعتبار سے تمام انسان برابر ہیں، دورانِ پرورش کار فرما عوامل ہی انسان کی خصوصیات کا تعین کرتے ہیں، ایسے افراد کے نزدیک انسانوں کی پیدائشی تفریق پر ایمان گویا کہ عدلِ تخلیق پر انگلی اٹھانے کے مترادف ہے۔
درحقیقت یہ دونوں( اندرونی اور بیرونی ) عوامل کسی بھی انسان کی شخصیت کی تکمیل کیلئے ناگزیر ہیں، ان دو میں سے کسی ایک کا انکار بھی حقائق اور روزمرہ مشاہدات سے انکار کے مترادف ہے، جو لوگ اندرونی عوامل کو ہی حرفِ آخر سمجھتے ہیں، وہ اس سوال کا جواب نہ دہ پائیں گے کہ اگر جینیاتی طور پر ہر شے پہلے سے طے ہے تو گناہ یا برائی کی سزا، اور اچھائی کی جزا کا حقدار کسے قرار دیا جائے؟ انسان کا اس میں کیا قصور /کمال ہوا ؟، اسی طرح وہ دوست بھی مغالطے کا شکار ہیں جو مذہبی اخلاقیات کو بنیاد بناتے ہوئے انسان کی برابری کے علم بردار ہیں، یہ بات اکثر کی نگاہوں سے اوجھل ہے کہ پیدائشی طور پر انسان کی برابری کا مطلب صرف اس کے بنیادی حقوق کے حوالے سے ہے، نہ کہ شخصی خصوصیات کے تعین میں، حق کے اس زہریلے گھونٹ کو پینے کی صلاحیت کتنے افراد میں ہے کہ اکابر صحابہ کے نزدیک، حضرت بلال رضی اللہ عنہہ، اپنے تقوی اور روحانی مقام کی بدولت سیدنا بلال تو قرار پا سکتے ہیں، مگر انہی سیدنا بلال کو خلافت کی سند پر بٹھانے کی کتنے صحابہ حمایت کر پاتے؟ شاید ایک بھی نہیں، کہ سب جانتے تھے کہ وراثتی خصوصیات (اندرونی عوامل ) اتنے کمزور ہیں کہ ان کی شخصیت مذکورہ خصوصیات کی حامل نہ ہونے کی وجہ سے اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ دورِ ملوکیت کی ابتداء سے قبل بھی خلیفہ کے چناؤ میں ، خاندان اور وراثتی مزاجِ حکمرانی کو کبھی بھی نظر انداز نہ کیا گیا۔ اندرونی اور بیرونی، دونوں عوامل، کو ملا کر انسان کی شخصیت کا جو ہیولہ بنتا ہے،
اس کیلئے قرآن مجید میں ،شَکَلَ (ش_ک_ل) کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، اس شَکَلَ کو آپ اینٹ بنانے والے اس آلے سے تعبیر کر سکتے ہیں، جس میں کچی مٹی کا گارا ڈالا جاتا ہے، تاکہ یہ کچی مٹی ایک اینٹ کی شکل اختیار کرے، جسے سُکھانے کے بعد پکنے کیلئے آگ کی بھٹی میں ڈالا جاتا ہے، انسان کی شخصیت اسی “آلۂ اینٹ” سے مشابہہ ہے کہ پیدائشی طور پر انسان کچھ شخصی حدود، خاص جھکاؤ اور جسمانی و شعوری خصوصیات کا حامل ہوتا ہے، کوئی زیادہ اور کوئی کم، مگر یہ صرف ایک ہیولہ ہے، اس ہیولے کو مختلف رنگوں، خوبورتی کے پیکروں، اور تعمیر و ترقی کیلئے محنت، تعلیم و پرورش وغیرہ سے بھرنا انسان کے اختیار میں ہے، اس محدود اور نہ بدلنے والے ہیولے کے اندر رہتے ہوئے انسان اپنے تئیں جتنی محنت کر پائے گا، اپنی شخصیت کو اتنا ہی بلند بنا پائے گا، اس میں شک نہیں کہ کچھ خوش نصیب پیدائشی طور پر اتنے وسیع و بہترین شخصی ہیولے کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں کہ ایسوں پر صرف رشک کیا جا سکتا ہے، ایسے افراد سالوں کا شعوری سفر مہینوں میں طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مگر یہ بھی مشاہدہ ہے کہ کمزور ترین اندرونی عوامل کے حامل افراد نے اپنی محنت سے اپنی شخصیت کو مضبوط بناتے ہوئے وہ کارنامے سر انجام دیئے ہیں کہ یہ “پیدائشی خوش نصیب” ایسی کامیابیوں کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ انسان کو فطری طور پر دیا گیا ہیولہ، اور اس ہیولے کو پُر کرنے کیلئے دئیے گئے وسائل کی بنیاد پر ہی ہر شخص سے حساب کتاب کا سلسلہ ہوگا، واقعہ یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت اپنی شخصیت میں چھُپی استعداد کا ایک تہائی بھی عملی زندگی میں استعمال نہیں کر پاتے کہ ترجیحات کا تعیّن فیصلہ کن واقع ہوا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply