بعض قارئین سوال کرتے ہیں کہ آخر میں کسی قلمی نام سے کیوں نہیں لکھتا۔ کوئی ایسا نام جس کے صوتی تاثر سے فضا میں ادبیت کا تناسب یکایک بڑھ جائے؛ جسے سنتے ہی منہ پھٹ مؤدب اور مؤدب مبہوت ہورہیں۔ ان کے بقول سکہ بند لکھاریوں کے لیے قلمی نام ایسے ہی لازم ہے جیسے نماز کے لیے وضو۔ جس طرح وضو کرتے ہی آدمی نمازیوں کی صف بندی کا اہل ہوجاتا ہے اسی طرح قلمی نام اختیار کرتے ہی ادیبوں کی مجلس میں داخلے کی اولین شرط پوری ہوجاتی ہے۔ میرے پڑوسی شیخ عبدالباری روایت پسند طبیعت کے مالک ہیں۔ ہمارے درد مند احباب میں سردفتر ہیں۔ خود بھی قلمی نام سے لکھتے ہیں۔ میں نے یہ مسئلہ ان کے گوش گزار کیا تو سر دُھننے لگے۔ پھر ایک سرد آہ بھری اور طمانیت بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوئے کہ کیا دور یاد دلاتے ہو۔ ہمارے زمانے میں کسی شخص کا مصنف بننا ایک واقعہ ہوا کرتا تھا۔ اقوام عرب کا حال تو تم جانتے ہی ہو۔ کسی قبیلے میں کوئی شاعر ناموری کا درجہ پاتا تو آس پاس کے لوگ مبارکباد دینے آتے تھے۔ خود ہمارے اوکاڑے کی تاریخ بھی چنداں مختلف نہیں۔ لکھنے لکھانے میں نام بنانے کو کیا کیا ناک رگڑنا پڑتی تھی۔ قلمی نام بھی اساتذہ تجویز کرتے تھے اور جب کسی کو کوئی نام عطا ہوتا تو باقاعدہ جشن کا سماں ہوتا تھا۔شخص مذکور کی سیادت مندی کا اعتراف کیا جاتا اور کیا کیا چرچے نہ ہوتے۔ اب تو جس کا جی چاہتا ہے لکھنے بیٹھ جاتا ہے؛ بعض من چلے تو بیٹھنے کا تکلف بھی نہیں کرتے اور کھڑے کھڑے لکھنے لگتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں قلمی نام اساتذہ کا جاری کردہ سرٹیفیکٹ ہوتا تھا کہ یہ شخص لکھنے کے فن سے آگاہی رکھتا ہے۔علم و ادب سے شغف رکھتے گھرانوں میں کوئی لڑکا یہ رتبہ پاتا تو قرابت داروں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ زندگی بھر میں دو تقریبات سی شان و شوکت پھر کہیں نہ دیکھی اور دونوں اوکاڑے کی باتیں ہیں۔ ایک ہمارے بھتیجے شیخ فرمان علی کی رسم ختنہ کی دعوت اور ایک ہمارے محلہ دار ملا طرطوسیؔ کے لڑکے کی تقریب اسم برداری۔ واللہ، کیا مہمان اور کیسے پکوان، کیا پوچھو کیا بتاؤں۔الغرض قلمی نام ہمارے اسلاف کی روایت اور پرکھوں کی عزت داری کا نشان تھا جوآئے روز مٹتا جاتا ہے۔ اب کے لڑکے بالوں کو یہ تمیز کہاں۔ خود اپنا حال دیکھو؛ ابوبکر کے اصلی نام سے لکھتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ مجھے تمہاری ادبی و غیر ادبی سرگرمیوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔تمہارا مستقبل بھی کچھ ایسا روشن نہیں دیکھتا ہوں۔ تمہیں قلمی نام کا مشورہ اس لیے نہیں دے رہا کہ خدانخواستہ تم ترقی پاؤ بلکہ یہ احتیاط پیش نظر ہے کہ تمہاری ہذیانی بکواسیات ہمارے بزرگوں کے نام سے منسلک نہ ہوں۔ میاں صاحبزادے، لکھنے لکھانے کو یا تو کوئی اور نام رکھ لو یا اپنے موضوعات اور طرز تحریر میں اخلاقی و اصلاحی شان پیدا کرو۔اتنا کہہ کر عبدالباری خاموش ہوئے اور آرام کرسی پر نڈھال سے ہوگئے۔ میں نے سگریٹ سلگایا اور چند لمحوں بعد اجازت طلب کی جو انہوں نے بخوشی عطا کی۔
خیر تو قلمی ناموں کی بات ہورہی تھی۔ ہمارے بچپن میں کچھ ایسے حساس لڑکے بھی ہوتے تھے جو اپنے ناموں کے ساتھ کوئی ادبی لاحقہ بڑھا لیتے تھے۔ یہ لڑکے عموما عشقیہ وارداتوں کے براہ راست متاثرین ہوتے تھے۔ ان میں چند لڑکے بال بھی بڑھا لیتے تھے۔ کچھ نے حسب ذائقہ کسی ایک انگلی کا ناخن بڑھا رکھا ہوتا۔ ایسے لڑکے عموما اپنے ناموں کے ساتھ زخمی ؔ ، دکھیؔ ، پریمیؔ وغیرہ کا اضافہ بھی کرلیتے تھے۔ بدمعاشی اور پہلوانی سے شوق رکھنے والے کچھ سادہ دل حضرات اسی انداز میں اپنے ناموں کے ساتھ بھولاؔ ، بلاؔ اور جگوؔ وغیرہ لگایا کرتے۔ راقم بے راہرو کا تعلق ایک شریف گھرانے سے تھا۔ والد صاحب نہایت سخت اور مذہبی شخص تھے۔ والدہ ماجدہ بھی استانی تھیں۔اگرچہ ان رکاوٹوں کے باوجود بھی میں اوائل بچپن سے ایک رنگین مزاج لڑکا تھا لیکن کبھی ایسا نام رکھ کر بغاوت کے اعلان کی جرات نہ ہوئی۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ مجھے بال بڑھانا اور ناخن رکھنا بھی سخت ناپسند تھے۔ میں اپنے نام سے دلی طور پر مطمئن نہ تھا لیکن کوئی من پسند تحریف بھی نہ کی۔
ہمارے مشرق کا مزاج بھی نرالا ہے۔ یہاں کا لمحہ لمحہ سریان کی دھند میں لپٹا ہے اور اس پر نازاں ہے۔ اول اول ہمارے بادشاہ حضرات اپنے اصلی ناموں کو چھپایا کرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان پر جادو نہ کیا جا سکے اور دوسری یہ کہ اصلی نام سے واقفیت اور اس سے پکار کر کسی کو بلا سکنا ایک خاص طرز کی بے تکلفی کا اظہار ہے جو بادشاہ کے شایان شان نہیں۔یہ حضرات بطور احتیاط اپنے نام کے ساتھ قیصر، کسریٰ، خاقان اعظم ، امیر المومنین، ظل الہی، جلالتہ الملک وغیرہ کا اضافہ کر لیتے۔ مشرق کے ادیب ہزاروں سال سے بادشاہوں پر منحصر رہے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ صحبت کا اثر لازم ہے پس ادبا بھی اپنے ناموں میں تصرف کرنے لگے لیکن تاریخ کا اصول ہے کہ اصل بادشاہی صرف بادشاہ کو سزاوارہے۔ ادیب یہ چال چلے تو سہی لیکن جانتے تھے کہ پھسلن پر چل رہے ہیں۔ سو اپنے ساتھ ایسے نام لگانے لگے جو بادشاہ کی واضح نقالی نہ ہو۔ یہ حضرات جامی، فردوسی ، ذوق اور مومن جیسے لاحقوں پر قانع ہوگئے اور اسے تخلص قرار دیا۔ اسداللہ خاں لکھتے ہیں؛
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
بہرحال کہاں کی بات کہاں جالگی۔ مقصود نظر کوئی مباحثہ نہیں بلکہ صرف اظہار حال ہے۔ان تحفظات کے باوصف زندگی میں کم از کم دو مواقع ایسے ضرور آئے ہیں جب میں کسی قلمی نام کے چناؤ کی منزل کے دھانے تک پہنچ چکا تھا۔ یہ آج سے کچھ سال قبل کی بات ہے۔ بعض تاریخی دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دنوں میری دماغی صحت بھی کچھ ایسی قابل رشک نہ تھی۔ قیام لاہور کے واقعات ہیں۔ میں ایک دوست کے ہمراہ چہل قدمی کررہا تھا۔شام کا وقت تھا۔ اچانک میں نے اس دوست سے کہا کہ آج سے میں ابومحمد الوجودی کے نام سے لکھا کروں گا۔ تمہیں یہ نام سن کر کیا شے ذہن میں آتی ہے؟ وہ چند لمحوں خاموش رہا پھر کہنے لگا کہ مسلم اسپین کا کوئی ادھیڑ عمر اور سنکی مزاج گھڑی ساز خیال میں آتا ہے۔ قہقہہ بلند ہوا۔ میں کچھ عرصہ اپنی وہی بکواسات اس نئے نام سے جاری کرتا رہا جو پہلے بے نام رہ کر بھی اتنی ہی غیرمقبول تھیں۔ اس دور میں واقف بنے بعض بیدار مغز دوست آج بھی مجھے وجودی کہتے ہیں۔کبھی کبھی تو میں چونک جاتا ہوں کہ یہ کسے بلاتے ہیں۔ زمانے کی قسم ! آدمی خسارے میں ہے۔
دوسرا واقعہ میری یونیورسٹی کا ہے جب ایک قریبی دوست اردو سوسائٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ دوست ادب کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے سخت نالاں رہتے تھے نیز چائے پینے کے بہت شوقین تھے۔ منتخب ہوتے ہی انہوں نے ایک ادبی اجلاس کا انعقاد کیا جس میں شعبہ اردو کے کئی اساتذہ( جو نمایاں ادیب بھی ہیں) شریک ہوئے۔ میری عاقبت نااندیشی ملاحظہ فرمائیں کہ ان دنوں شاعری کیا کرتا تھا۔ ایک طویل ذاتی نظم پڑھی جسے بحر اور اوزان کے علاوہ کئی مذہبی و گھریلو مسائل کا سامنا بھی تھا۔ بطور حوصلہ افزائی معقول داد ملی۔ بعد از اجلاس ایک شفیق استاد محترم نے اپنے دفتر طلب کیا اور کہا کہ تم میں شاعری کا مادہ موجود ہے بس ذرا توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ نظم مجھے دو تاکہ ضروری اصلاح کردوں۔ آئندہ ایسا کلام مجھے دکھایا کرو۔ میں نے مسودہ ان کے حوالے کیا ۔ چند روز بعد جب دوبارہ ان کے دفتر جانا ہوا تو نظم کی اصلاح ہو چکی تھی۔ آپ نے مسودہ مجھے واپس کیا۔ آخر میں خالی صفحے پر نیلے قلم سے کافی قطع برید کی گئی تھی۔ متعدد نام لکھ کر کاٹے گئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارے مزاج اور برج کی مناسبت سے ”ارزق سماوی” کا قلمی نام تجویز کرتا ہوں جو انشااللہ تمہیں موافق آئے گا۔ میں نے ان کا دلی شکریہ ادا کیا۔ چند دن اس نئے نام پر غور کرتا رہا۔ اسی اثنا میں چند اور ضمنی واقعات بھی ایسے ہوئے کہ شاعری ہی ترک کردی۔ شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا۔

قلمی نام سے گریز کا ایک اور سبب یہ ہے کہ میں اپنے اصلی نام سے اس قدر بدنامی سمیٹ چکا ہوں کہ اب اس تکلف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ واقف حال احباب جانتے ہیں کہ میں کس قدر شرمیلی طبیعت کا مالک ہوں۔ بعض اوقات اپنے لیے کوئی قلمی نام ذہن میں آئے تو اپنے روبرو دہراتے ہوئے بھی ویسی ہی شرم آنے لگتی ہے جو دورِ اسلاف کی مشرقی خواتین کو خاوند کا نام زبان پر لاتے آتی تھی۔ ایسی کیفیت سے نباہ آسان نہیں ہے چنانچہ اس راہ نہیں چلتا۔ پھر طبیعت کا انتشار یہیں تک کہاں رکتا ہے۔ جانتا ہوں کہ ایک دور میں محمد داؤد خان اختر شیرانی، شیر محمد خان ابن انشا، اورنگزیب قتیل شفائی اور عبدالحئ ساحر لدھیانوی بن جاتے تھے اور ایسا بنتے ہی بہت ادبی ادبی معلوم ہوتے تھے۔ میرا ان مشاہیر سے کوئی موازنہ ہرگز نہیں ہے لیکن اپنے ارگرد دیکھتا ہوں تو کئی ہم عصر اپنے قلمی ناموں کے شکوہ میں لپٹے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں محمد ابوبکر صدیق کوئی بھولے بھالے اجنبی محسوس ہوتے ہیں جو گھر سے سودا سلف لانے نکلے تھے اور وقت کے بہت پابند ہیں۔ پھر یہ سوچ کر ہنسی آنے لگتی ہے۔ جی کو تسلی دیتا ہوں کہ میں پوسٹ ماڈرن عہد کا لکھاری ہوں۔ مجھے اپنے نہایت نجی احساسات کے ساتھ بھی وہ تجربات کرنے ہیں جن کا کوئی سر پیر محسوس نہ ہو اور جنہیں دوبارہ غور سے دیکھا جائے تو محسوس ہو کہ اپنی نظر کمزور ہے۔ ان احوال میں کسی نفی پسند کے لیے ابوبکر سے موزوں کیا نام ہوسکتا ہے، یقیناً کوئی نہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں