ایم اے او کے لئے ایک مسکراہٹ۔۔۔۔نجم ولی خان

ایم اے او سے مراد ہے ایم اے او کالج لاہور،امرتسر میں چھیاسی برس پہلے قائم ہونے والا تعلیمی ادارہ یعنی عمر میں پیارے وطن پاکستان سے بھی چودہ برس بڑا، انجمن اسلامیہ کے تحت قائم ہونے والے اس تعلیمی ادارے کے طالب علموںنے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ( قائم شدہ 1892 ) اوردیال سنگھ کالج ( قائم شدہ 1910 ) جیسی جدوجہد کر کے برصغیر کی تاریخ بدلنے اور مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد میں اہم کردارادا کیا حالانکہ یہ واضح تھا کہ امرتسر پاکستان کا حصہ نہیں بننے جا رہا ۔ قیام پاکستان کے بعد ایم اے او کالج کو لاہور منتقل کر دیا گیا۔ دنیا بھر میں ایسے تاریخی مقا م اور کردار کے حامل تعلیمی ادارے ریاستوں کی خصوصی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں مگر افسوس یہ نااہلی تھی یا سازش کہ ہمارے یہ تعلیمی ادارے علم، تحقیق اور ادب کے کچرا گھر بنا دئیے گئے ۔ میرٹ ،تدریس، تحقیق اور نتائج جیسے تمام حوالوں سے ۔میں کتابو ں میں پڑھی اور انٹرنیٹ سے ڈھونڈی ہوئی باتیں نہیں کر رہا بلکہ ایم اے او کالج تو میری مادر علمی رہی ہے اور مجھے یہ کہنے میں عار نہیں اس ادارے نے مجھے روایتی تعلیم بہت کم دی مگر میرے تجربے، ہمت، جرا¿ت اور فہم و فراست میں اتنا اضافہ کیا جتنا شائد صدیوں کے روایتی علم سے ہو سکتا ہو۔

یہ چند روز پرانی بات ہے جب میں برسوں اور عشروں کے بعد ایم اے او کالج کے اندر داخل ہوا اور اس کی وجہ ڈاکٹر فرحان عبادت یار بنے۔ فرحان عبادت اردو کے نامور استاد، نقاد اور محقق ڈاکٹر عبادت بریلوی کے فرزند ہیں اور ا ب خود بھی ایک ماہر تعلیم اور دانشور کے طورپر اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ میری ڈاکٹر فرحان عبادت سے محبت اور عقیدت کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ پاکستان ریلویز کے ایجوکیشن ڈپیارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل تھے اور انہوں نے اس وقت کے وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق کے تعاون سے ریلوے کے سکولوں کی تعلیم اور نتائج میں ایک انقلاب برپا کیا۔ کیا یہ دلچسپ امر نہیں کہ اس دور میں ریلوے کا کراچی کا ایک بہت بڑا سکول مسلم لیگ نون کی سب سے بڑی مخالف سیاسی جماعت کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی کی این جی او کو سو فیصد میرٹ پر صرف اس لئے دے دیا گیا کہ طلبا و طالبات کو بہترین ماحول اور معیاری تعلیم دی جا سکے۔ ڈاکٹر صاحب کے دور میں محدود وسائل کے باوجود ریلوے کے سکولوں کے نتائج کا گراف مسلسل اوپر جاتا رہا۔

بات ایم اے او کالج کی ہو رہی ہے جو اب میدان جنگ نہیں رہا بلکہ ، ان شاءاللہ، علم وادب اور تحقیق کا گہوارہ بننے جا رہا ہے۔ وہاں شعبہ ابلاغیات کے زیر اہتمام تقریب روایت شکن تھی جس میں چیئرمین پیمرا سلیم بیگ سمیت صحافت کے آسمان کے ستارے چمک رہے تھے۔وہاں صحافت کا شعبہ جناب عابد تہامی کے حوالے ہے جو بہترین تجربے، وژن اور صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ اس وقت روایتی صحافتی اداروں کو اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے، حکومت نئے پاکستان میں ایوب دورکے بدنام زمانہ پی پی او کو دوبارہ مسلط کرنے جا رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں سوال پوچھا جا رہا ہے کہ صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا معاشی مستقبل کیا ہے۔ اس صورتحال میں چیئرمین صاحب نے خوش خبری سنائی کہ وہ چھ درجن سے بھی زائد چینلز کو لائسنس جاری کرنے جا رہے ہیں۔ یہ سوال الگ ہے کہ کاروبار اور منافع سے محروم موجودہ چینلوں کا سروائیول کیسے ہو گا مگر طالب علموں کے لئے خوش خبری ہے کہ ان کے لئے روزگار کے مواقع میسر ہو سکتے ہیں اگرچہ ان میں بیشتر کوصحافت کے بجائے انٹرٹینمنٹ اور پروڈکشن میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہو گا ۔یہ کوئی نئی بات نہیں،صحافت ، سوچ اور نظریوں کی علمبردار ہوتی ہے اور اسے ہر دور میں ہی چیلنجوں کا سامنا رہتا ہے، یہ سو رنگ بدل لے، یہ مر نہیں سکتی کہ ابلاغ کے مرنے کا مطلب ریاستوں کا مرجانا ہو گا، دنیا کے تمام انسانوں کا مرجانا ہوگا۔

میں نے کہا، بات ایم اے او کالج کی ہو رہی ہے جو اب میدان جنگ نہیں رہا تو مجھے طالب علمی کا اپنا زمانہ یاد آ گیا۔ وہ بھی کیا دن تھے جب لاہور میں اسلامی جمعیت طلبا اور ایم ایس ایف کے درمیان خونی میدان لگا کرتا تھا۔ شروع میں بیان کئے گئے یہ تینوں ادارے ایم ایس ایف کے پا س ہوتے تھے جبکہ اسلامیہ کالج سول لائنز، ایف سی کالج اور سائنس کالج کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت تھی ۔ طلبا سیاست کی ثقافت قبضے اور اسلحے کے گرد گھومتی تھی۔ دیال سنگھ کالج میں ارشد امین چودھری کا قبضہ تھا تو ایم اے او کالج میں عابد چودھری کے علاوہ صفدر جٹ، الیاس اور جیدا سکھ ہوا کرتے تھے۔ تعلیمی اداروں پر قبضوں کے ثقافت کا کریڈٹ کراچی سے پشاور تک جمعیت کو جاتا ہے اور مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر یہ کلچر نہ ہوتا تو کراچی کی مہاجر کمیونٹی الطاف حسین کی دیوانی ہوکر پہلے اے پی ایم ایس او اور پھر ایم کیو ایم کی نظریاتی، سیاسی اور ذہنی اسیر نہ ہوتی۔ میرا ایم اے او کالج کا دور وہ تھا جب جمعیت والے کچھ طالب علم مارتے تھے تو جواب میںا یم ایس ایف والے بندوقین لے کر نکل پڑتے تھے۔مائیں اپنے بچوں کو امام ضامن باندھ کے تعلیمی اداروں میں بھیجتی تھیں ۔میری گواہی تاریخ کے ذاتی ریکارڈ اور تجربات پر ہے کہ سٹوڈنٹس پالیٹیکس کے اس کلچر کو خواجہ سعد رفیق نے بدلنے کی کامیاب کوشش کی جس کی مزید گواہی جناب سلیم بیگ اور ڈاکٹر فرحان عبادت سے بھی لی جا سکتی ہے۔ ایم اے او کالج کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کا میرٹ بہت گر چکا تھا اور یہاں آنے والے طلبا عام طور پر کوئلہ ہوتے تھے جنہیں ہیرا بنانے کے لئے معجزے درکارتھے جبکہ گورنمنٹ کالج میں ہیرے جاتے تھے اور اساتذہ کا کام صرف انہیں تراشنا تھا۔

میں نے نوے کی دہائی میں دو برس تک ایم اے او کالج کو بہت قریب سے دیکھا جب تک دو مرتبہ مظاہروں کے الزامات میں گرفتار نہیں ہو ا، ایف ایس سی کرتے ہوئے کیمسٹری کا پرچا ہتھکڑی لگا کر نہیں دیا، اسلام پورہ کے پولیس اسٹیشن میں پولیس کی روایتی مہمان نوازی کا مزا نہیں چکھا اور جب تک میں نے سٹوڈنٹس پالیٹیکس سے توبہ نہیں کی۔ میں اب قائل ہوں کہ مائیں اور باپ اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں سیاست سکھانے اور انقلاب لانے کے لئے نہیں بلکہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجتے ہیں تاکہ ان کے خوابوں کو پورا کر سکیں۔ ہم اگر سٹوڈنٹس یونینوں کو اتنا ہی ضروری جانتے ہیں تو ان کی بنیاد غیر سیاسی کرنا ہو گی جو اس وقت بھی ممکن نہیں ہے۔ میں خوش گمان ہوں کہ ڈاکٹر فرحان عبادت ریلوے کے سکولوں کی طرح ایم اے او کالج کو بھی بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کا آغاز انہوں نے کر دیا ہے۔ اداروں کی روایات اور کردار کو بدلنا دنوں اورمہینوں کی نہیں بلکہ برسوں اور عشروں کی جدوجہد ہے مگر فرحان عبادت نے ریلوے کو بدلتے ہوئے دیکھا ہے اور میرے بڑے بھائی مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اگر ریلوے جیسا تباہ حال ادارہ بدل سکتا ہے تو ایم اے او کالج کا بدلنا بھی ناممکن نہیں، اس کے میرٹ میں اضافہ ہوسکتا ہے ، یہاں طلبا و طالبات کی صورت آنے والا بہتر خام مال اساتذہ کرام کی محنت سے بہترین امتحانی نتائج دیتے ہوئے اپنا پورا امیج ہی تبدیل کر سکتا ہے۔میں مانتا ہوں کہ اب وہ دو ، تین عشرے پرانی صورتحال نہیں ہے مگر ابھی ڈھلوان سے لڑھکنے کا عمل رکا ہے، بلندی کا سفرطے ہونا باقی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری مادر علمی علم و ادب کا گہوارہ بنے، یہاں کی تدریس اور تحقیق کی شہرت ہو، طالب علم یہاں داخلہ میرٹ کی مجبوری نہیں بلکہ شوق کی بنیاد پر لیں اورجب اس کی سوسالہ تقریبات منائی جا رہی ہوں توبتانے والے میرے جیسے نہ ہوں جن کے پاس اپنی محدود عرصے کی مگر تلخ ترین طلبا سیاست کے تجربات کے سوا کچھ نہ ہو۔ میں نے ڈاکٹر فرحان عبادت کی اہلیت کو جانچا،شعبہ ابلاغیات کی روایت شکن تقریب بارے پڑھا، وہاں آنے والے بچوں کے ذوق ، شوق اور جذبے کو محسوس کیا تو ایک مسکراہٹ میرے چہرے پر آ گئی، یہ مسکراہٹ ایک خواہش ہے،ایک اُمید ہے، ایک پیغام ہے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply