پہلی ترجیح یہ تھی کہ اگر شادی کرنی ہے تو مغربی خاتون سے ورنہ نہیں کرنی ،مغربی خاتون سے شادی کرنے کی دو وجوہات تو بالکل واضح تھی باقی وجوہات پس پردہ تھیں ،مغربی خاتون سے شادی کی پہلی وجہ یہ تھی کہ اسے مسلمان کرکے یہاں لاکر مشرقی خاتون بنا دیں گے جس کا ثواب ہمیں ملتا رہے گا ،اور یہ سلسلہ جب تک چلتا رہے گا جب تک اس خاتون سے ہم بچے جنتے رہیں گے ،
مغربی خاتون سے شادی کی دوسری وجہ ہماری ان سرگرمیوں کو قابو کرنا جو مشرقی خاتون کے بس کی بات نہیں تھی ، رہ گئی پس پردہ باتیں وہ جب ہمارے قارئین بالغ ہو جائیں گے تو ان پس پردہ حقائق کو منظر عام پر ضرور لائیں گے ،
مغربی اور مشرقی خاتون کا واضح فرق آپ کو اس وقت نظر آتا ہے جب آپ شب عروسی میں ہوتے ہو ،ویسے تگنی کا ناچ دونوں نچواتی ہیں ،مشرقی تڑپا تڑپا کر اور مغربی سے جان بخشی کرانا پڑتی ہے ،
اک اور فرق جو بالکل واضح ہے مشرقی خاتون بہت نرم دل ہوتی ہے ادھر آپ کوکچھ ہوا وہ خو دکا رورو کر بےحال کردیتی ہے ، مغربی خاتون میں یہ بناوٹ نہیں وہ کہتی ہے مرگیا دوسرا کرلو ، مشرقی خاتون مجال ہے جوانی میں بیوہ ہو جائے گی ایک یا دو بچے گود میں ہونگے ،ساری زندگی گزارلے گی لیکن دوسری شادی نہیں کرے گی کہ لوگ کیا کہے گے ؟ خاندان کیا کہے گا ؟
اس حوالے سے میرا مذہب اسلام کیا کہتا ہے ،وہ کوئی نہیں دیکھتا لیکن خاندانی روایات کے بھینٹ جواں بیوہ کو چڑھا دیا جاتا ہے جو سراسر زیادتی ہے ،
ایسے کئی گھرانے دیکھے گئے جہاں ایسی جواں بیوہ خواتین کو دیکھا گیا جو اپنی زندگی بغیر شادی کئیے گزاررہی ہیں ،
بات کہیں اور نکل گئی ،موضوع مشرقی مغربی خواتین تھا اور ان کے فوائد بیان کیئے جارہے تھے ، مغربی خاتون سے اک فائدہ یہ ہے کہ جب آپ رات کو تھکے ماندے ڈیوٹی سے گھر کو لوٹ آؤ گے تو اک چپ سو سکھ ملیں گے ،
اس کی وجہ ساس ،بہو ،نند بھاوج کے جو روز تماشے گھروں میں ہوتے ہیں اور رات کو جب آپ ڈیوٹی سے لوٹ آتے ہو کہ ںیگم سے دو میٹھے بول ملیں گے ،لیکن افسوس کہ سوائے پھڈوں کے کچھ برآمد نہیں ہوتا ،
آپ کم از کم اس میم سے تو محفوظ رہیں گے ،
میرے دوستوں کو بڑا گلہ رہا کہ آپ اک سفید میم گھر لے آئے اور ہمیں بتایا تک نہیں ،ہمیں بتایا ہوتا ہم ائر پورٹ پر استقبال کرنے آتے ،ہم بھابھی کو خوش آمدید کہتے ،
اب میں دوستوں کو کیسے سمجھاتا کہ میں جس قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں وہاں ان خرافات اور اوٹ پٹانگ شرارتوں کو نہیں مانتے ،
ویسے جب سے مغربی میم صاحبہ گھر میں آئی تھی پورے محلے کی عورتوں کا اک جمگھٹا رہتا،اور ہر وقت اس میم صاحبہ سے کھیلتی رہتیں ،کبھی اس کے براؤن بالوں میں انگلیاں پھیرتیں ۔ تو کبھی اس کی بلی جیسی آنکھوں میں غور سے دیکھتی ،اور کبھی اس کی گوری چمڑی کا بغور معائنہ کرتیں ،
میں جب بھی رات کو گھر لوٹ آتا وہ مجھ سے انگلش میں یہی کہتی ،تمھاری عورتیں کتنی فارغ ہیں ان کے پاس سوائے باتوں کے کچھ نہیں ، اور میں اسے بانہوں میں سمیٹ کر کہتا چپ ہوجا دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں ،
ہوسکتا ہے میری یہ تحریر پڑھ کر کچھ مشرقی منچلے نوجوان قلم کمان اٹھا کر مجھ پر حملہ آور ہوجائیں ، اور اپنی مشرقی ہمشیران و دختران کا دفاع شروع کردیں ، اور مجھے منہ کی کھانا پڑے ،
لہذا مجھے یہ بتانے میں کوئی شرمندگی یا عار نہیں کہ میں بھی مشرقی خواتین کا ویسے ہی دلدادہ ہوں جیسے میرے دوسرے ساتھی ،
لہذا میرے کسی دوست کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ،
میری شادی بھی اک اصل مشرقی دیہاتی خاتون سے ہی ہونی تھی ،سب معاملات تیارتھے اور یہ سب میرے گھر والوں کی مرضی سے تھا صرف اک ہفتہ باقی تھا دلہن کوگھرلانے میں کہ اچانک میرے چھپے کرتوت میرے سسر صاحب جو میرے چچا بھی تھے پر آشکارا ہوگئے کہ میں اک (gay) ہوں ، جب ان کو اس بات کا پتہ چلا تو وہ سمجھ گئے کہ یہ نوجوان میری مشرقی دختر نیک اختر کو “اس ” طریقے سے خوش نہیں رکھ پائے گا تو انھوں نے وہیں گاڑھے تمبو اتار پھینکے۔۔
جب یہ رنگین خبر میرے گھر تک پہنچی تو میرے والد صاحب مجھ پر آگ بگولہ تھے کہ یہ تم کیا گل کھلاتے رہے ہو ؟ تمھاری وجہ سے پوری برادری میں ناک کٹ گئی ، والد صاحب غصے میں گھر سے جاتے جاتے یہ جملہ ضرور کہہ گئے کہ اب ہم تمھاری شادی کہیں بھی نہیں کرسکتے ،
والد صاحب کی یہ باتیں میرے لئیے کسی زہر سے کم نہیں تھیں ، میں اپنے چچا پر تاؤ کھائے بیٹھا تھا کہ عین موقع پر یہ راز ان پر آشکار ہوناتھا
اب میں جب بھی گھر سے باھر نکلتا گاؤں کی لڑکیاں مجھ پر جملے کستی کہ یہ تو وہ ہے ، اور میں اپنے کرتوت کی وجہ سے شرمندہ سا ہوجاتا ،
اب میں نے ٹھان لی کہ شادی کرونگا تو مغربی خاتون سے جو مجھے ہر طریقے سے سکھی رکھ سکتی ہے ، میں نے دوستوں سے سن رکھا تھا کہ مغربی خواتین مشرقی خواتین سے زیادہ تیز ہوتی ہیں ، یہ تو خیر میں نے بھی نہیں پوچھا کہ کس کام میں ؟
اب جب ہم نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ لانی ہے تو گوری میم ہی لانی ہے ، کچھ ہی عرصے میں ہم اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوئے اور آخر کار ہم اک عدد گوری کو قابو کرنے میں کامیاب ہوگئے ، لیکن یہ نہیں بتاسکتے کہ وہ ہمیں قابو کرپائے گی یا نہیں ،
خیر جب گوری میم دلہن بن کرہمارے گھر آئی تو سب حیران کہ جس لڑکے کو پورا گاؤں لڑکی دینے کو تیار نہیں تھا ، وہ اک گولڈن چھوکری اٹھا لایا مغرب سے ، جب یہ تذکرے زبان زد عام تھے تو گاؤں کے اک منچلے نے کہہ دیا اس کے شوق تو وہ گوری ہی پورے کرسکتی ہے،
اس طرح اک مغربی خاتون ہماری دلہن بن چکی تھی ، اور اس نے ہمارے تمام شوق جلد ہی پورے کر دئیے تھے ، اب ہم پر یہ راز بھی افشاء ہوچکا تھا کہ جن مغربی خواتین کے لئیے ہم جیسے منچلوں کی رالیں ٹپکتی ہیں ، یہ ان بڑے گھرانوں کی گوریاں نہیں ہوتیں ،
اک بات تو مجھ پر کھل کر واضح ہوچکی تھی مشرقی خاتون ہو یا مغربی مکر دونوں ہی کرتی ہیں ،
آج شادی کو آٹھ سال بیت چکے ہیں گوری سے چار بیٹے ہیں ہر دفعہ غالب میں ہی رہا ، اور چاروں کے چاروں کالے ہلکے سانولے ، اک بھی گوری پر نہیں گیا ، البتہ بچے میرے ہی ہیں بدگمانی کی ضرورت نہیں ہے ،
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں