ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم کی جنم بھومی وزيرستان ہے۔ پی ٹی ایم کا نقطۂ عروج نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف احتجاج سے شروع ہوا جوکہ تاحال جاری و ساری ہے۔ منظور پشتین نے جس انداز سے نقیب اللہ کا مقدمہ لڑا وہ قابل تعریف ہے۔ بعدازاں راؤ انوار آصف زرداری کے بہادر بچے ٹھہرے اور یہ قتل بھی روایتی عدالتی کاروائی کی نذر ہوگیا۔
منظور پشتین بذات خود ایک نفیس آدمی ہے اور اسکے مطالبات کو بھی کسی حد تک آپ ریاست پاکستان کے آئین کے مطابق کہہ سکتے ہیں۔ لیکن پی ٹی ایم کے دیگر کور ممبرز جن کا بیانیہ ہی ریاست مخالف ہے، وہ منظور پشتین کا استعمال کررہے ہیں۔ محسن داوڑ اور علی وزیر جنکے مدمقابل عمران خان نے محض اس لئے امیدوار نہیں کھڑے کیے تھے کہ لوگ بھی قومی دھارے میں شامل ہوں۔ آج یہی ارکان قومی اسمبلی جنہوں نے ریاست سے وفاداری کا حلف لیا ہے، ریاست اور اسکے اداروں کے خلاف ببانگ دہل زہر اگلتے ہیں۔ شائد عمران نے بہت بڑی غلطی کردی ہے۔
حالات کا بغور جائزہ لیں تو پشتون احتجاج آہستہ آہستہ خانہ جنگی میں بدلتا جارہا ہے۔ امریکی اور بھارتی لابی بھی یہی چاہتی اور امریکہ افغانستان سے اپنے انخلاء سے قبل یہ سب چاہتا ہے۔ پی ٹی ایم کے کور ممبرز ماسواۓ منظور پشتین کے ریاست مخالف بیانیے میں پیش پیش ہیں۔ دوسری طرف اے این پی نے اس بابت خاموشی سادھتے ہوۓ افراسیاب خٹک اور بشری گوہر کو جماعت سے نکال دیا ہے اور یہ لوگ اب بڑھ چڑھ کر پی ٹی ایم کے لیے کام کررہے ہیں۔ یاد رہے ماضی میں افراسیاب کا قبلہ ماسکو تھا اور اب واشنگٹن ہے۔
ادھر کابل میں افغان حکومت کے مشیر امتیاز وزیر جوکہ اے این پی کے راہنما بھی ہیں اور 2013 کا الیکشن بھی اے این پی کے ٹکٹ سے لڑ چکے ہیں، لابنگ میں مصروف ہیں۔ طاہر داوڑ کے قتل اور پھر لاش کی حوالگی کے حوالے سے امتیاز وزير اصل محرک ہیں۔ جس کی وجہ سے میت حکومت کی بجاۓ پی ٹی ایم کو حوالے کرنے کی ضد کی گئی۔

افغان حکومت اس وقت حواس باختہ ہوچکی ہے۔ امریکہ نے طالبان سے مذاکرات میں انکو شامل نہ کرکے اشرف غنی کی بے چینی مزید بڑھا دی ہے اور اب اسی بے چینی کے خاتمے کے لیے اشرف غنی اپنے ٹویٹیس سے قوم پرست طبقے کی حمایت سے انتشاف پھیلانے کی ناکام کوشش میں مصروف عمل ہیں۔ پشتون قوم اور عوام کو انکی اصل حقیقت اور معاملات کو سمجھنا ہوگا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں