ہندوستان کے ایک دوست نے پوچھا کہ حضور کیا کر رہے اِن دنوں آپ ؟ تو جواباً میں نے عرض کِیا کہ ” درِ ادراک ” کا مطالعہ کر رہاہوں ۔اُس نے مجھ سے ایک خوب صورت سوال پوچھا ، آپ نے جتنا مطالعہ کِیا اِس کتاب کا، اُس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مجھے اِس کتاب کا تعارف صرف ایک جملے میں بتائیں ۔ تو میں نے عرض کِیا حضور کیا یہ ممکن ہے کہ سمندر کو کوزے میں بند کر دیا جائے ؟ کچھ ایسا ہی کرنے کا آپ حکم فرما رہے ۔ خیر آپ کا سوال مجھے اچھا لگا سو میں جواباً یہی کہوں گا کہ “درِ ادراک آدمی کو انسان بننے کا مکمل ہنر فراہم کرتی ہے “۔ میرا یہ جملہ سن کر انہوں نے بجائے کچھ اور کہنے یا سوال کرنے کے ، کہا کہ مجھے یہ کتاب ارسال کر دیجئے ۔عرض کیا ، کتاب ای فارم میں آپ کو بھیجی جائے گی لیکن کچھ عرصہ بعد ۔
آمدم بر سرِ مطلب کہ” درِ ادراک “آدمی کو انسان بننے کا مکمل ہنر فراہم کرتی ہے۔وہ انسان جس کا تعارف میر تقی میر یوں کرواتے ہیں:
“مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں – تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں”
وہ انسان جس کے لیے الطاف حسین حالی نے فرمایا تھا: ” فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا”
اور وہ انسان جس کے لیے نثار یار فرماتے ہیں : “ہر فرشتے کو یہ حسرت ہو کہ انساں ہو جائے” ۔
اب ایک دلچسپ واقعہ سنیں ۔ راقم مصنف کے ساتھ ایک مجلس میں شریک تھا ۔ ایک طالبِ علم نے سوال کیا کہ مستقبل میں کیا بننا چاہیے ؟ یعنی کون سی فیلڈ بہتر رہے گی ؟ تو جواب میں مصنف نے بڑا ہی خوب صورت اور معنی خیز جواب دیا کہ ۔ “آپ کچھ بھی بن لینا مگر کچھ بننے سے پہلے انسان ضرور بن لینا”۔
کتاب لکھنا کوئی مشکل کام نہیں، یہ میرا نظریہ ہے ۔ مشکل کام یہ ہے کہ اُس کتاب میں بیان کردہ مضامین بہ یک وقت عوام و خواص کی ذہنی سطح کے موافق ہوں اور ہر دو کے لئے قابلِ فہم ہوں ۔ یعنی مشکل تر بات کو بھی آسان تر اسلوب میں کر دیا گیا ہو ۔ مطالعہ سے اس امر کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ ” درِ ادراک” کئی اور خوبیوں کے علاوہ اِس خوبی میں بھی اپنا نمایاں مقام رکھتی ہے ۔
“درِ ادراک” میں مصنف نے دینی ،معاشرتی ، سماجی اور اخلاقی پہلوؤں کی اہم بنیادوں کو بڑی ہی عمدگی سے بیان کیا ہے ۔ ہر ہر پہلو کو سمجھانے کی خاطر ایسی مثالیں پیش کی ہیں، جن کا براہِ راست تعلق ہمارے معاشرے سے ہوتا ہے ۔ وہ واقعات جو معاشرے میں تسلسل سے ہوتے ہیں، لیکن انسان انہیں کچھ اہمیت نہیں دیتا ۔ ان واقعات کا ہونا یا نہ ہونا معاشرے کے لوگوں کے لیے برابرہوتا ہے ۔ مصنف نے اُن واقعات سے ایسے ایسے معانی اخذ کر کے ہمارے سامنے رکھے ہیں کہ قاری حیران ہوجاتا ہے کہ یہ واقعات تو ہمارے سامنے آئے روز ہوتے رہے پر ہمارا دھیان کبھی اس طرف گیا ہی نہیں کہ اس واقعہ کو دیکھنے کا یہ انداز بھی ہو سکتا ہے ۔
“درِ ادراک” میں مضامین کی جو ترتیب رکھی گئی ہے وہ بھی قاری کے مطالعے میں ایسی دلچسپی پیدا کرتی ہے کہ اُس کا جی نہیں چاہتا کہ وہ کہیں رک جائے ۔مجھے ذاتی طور پرجو تجربہ ہوا وہ پیش کرنا میں لازمی سمجھتا ہوں ۔ جب”درِ ادراک” کا پہلا مضمون ” دماغی کنڈیشننگ کا مسئلہ ” پڑھا تو احساس ہوا کہ اس مسئلے کوہی ٹھیک سے سمجھ لیا جائے تو، میں سمجھتا ہوں،مطالعے کے حوالے سے بہت سے مسائل حل ہو جائیں۔ چیزوں کو ٹھیک سے سمجھنے(well understanding)کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی ۔
اِس کتاب کے مطالعے کے دوران بہت سے سوالات آپ کے ذہن میں اٹھتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ کہ جوں جوں آپ مطالعہ کرتے جاتے ہیں ذہن میں اٹھتے سوالات کے جوابات بھی آپ کو ملتے جاتے ہیں ۔ یوں ایسا خوب صورت سماں آپ کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ آپ پھر مطالعہ کو ترک کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔
درِ ادراک تین حصوں : دروس ، شذرات اور مقالات، پر مشتمل ہے ۔ پہلا حصہ دروس پر مشتمل ہے اس کا پسِ منظر یوں ہے کہ مصنف نے محسوس کیا کہ معاشرے کے نوجوانوں میں دینی و سماجی علم کی جستجو کی جوت جگائی جائے۔ چند نوجوان ساتھیوں ،جن میں راقم بھی موجود تھا، سے مشورہ کے بعد یہ ترتیب بنائی گئی کہ رمضان کے مہینے میں ہر روز کسی موضوع پردرس کا اہتمام کیا جائے۔یہ دروس دراصل مصنف کی اُسی محنت کا حاصل ہے ۔ میری خوش بختی ہے کہ اِن د روس کی ریکارڈنگز کو کتابی شکل میں لانے میں میرا حصہ بھی ہے۔ یقیناً آج اُس روشن کی گئی شمع سے خودہم یا اور دماغ روشنی پا رہے ہیں تو یہ بلاشبہ اک خیر کا سلسلہ ہے جو خدا کے فضل سے جاری ہی رہے گا۔ خدا اس شمع کو روشن کرنے والی شخصیت کوبھی بہترین اجر سے نوازے گا ۔
“درِ ادراک” پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر محمداکرم ورک صاحب نے بجا طور لکھا تھا کہ اِس کہ کئی جملے دریا بہ کوزہ کے مصداق ہیں جن کی حیثیت اقوالِ زریں کی سی ہے۔ مناسب ہے کہ دورانِ مطالعہ منتخب کیےگئے اقوالِ زریں میں سے چند ون لائنرز قارئین کی خدمت میں بھی پیش کر دوں:
1. “ہمارے ہاں مذہبی ظاہر پرستی کے مارے لوگوں نے مخصوص لباس اور مخصوص وضع قطع کو مسنون زندگی کے طور پر متعارف کروا کر دین پر ستم ڈھا رکھا ہے”۔
2. “گالی کے چسکے نے تو بعض گالیوں کوہمارا تکیہ کلام بنا ڈالاہے ۔ پنجاب میں بسنے والی امت کا تو گالیوں میں مقابلہ ممکن ہی نہیں”۔
3. “یہاں ہم خدا کو اس کی نشانیوں سے پہچان سکتے ہیں ، مگر اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے ۔ اسے دیکھ لینے کے بعد کوئی اس کا انکار کیسے کر سکتا ہے ؟ یہاں آزمائش یہی ہے کہ غیب میں مستور اس عظیم ہستی کی نشانیوں پر غور کر کے اسے پہچان لو” ۔
4. “انسان خدا کی دریافت کو ایک لفظ میں بیان کرنا چاہے تو اس کی موزوں ترین تعبیر’ اللہ اکبر’ کے سوا کوئی اور نہیں “۔
5. “دورِ جدید کی دین داری کا یہ بڑا المیہ ہے کہ اس میں قرآن مجید کی اصل تعلیم، یعنی ایمان و اخلاق کی دعوت ، دینی فکر اور عمل کا اصل محور و مرکز نہیں بنتی” ۔
6. “نادان سمجھے ہوئے ہیں کہ چند حروف حافظے میں اتار کر ڈگریاں وصولنے کا نام علم ہے” ۔
7. “کہہ یہ رہا ہوں کہ یہاں پڑھ لکھ کر بھی تعلیم سے محرومی دور نہیں ہو پارہی ۔ کچھ اس میں تمسخرنہیں واللہ نہیں ہے”۔
8. “خطے کا اصل المیہ کھنڈر بنی ہوئی سڑکیں نہیں، بلکہ کھنڈر بنی ہوئی شخصیتیں ہیں ، ہمیں اس المیے کا ادراک ٹھیک طرح کرنا ہو گا”۔
9. “یہاں میں اور میرا مسلک عینِ حق اور میں اور میرے مسلک کے سوا سب مکمل باطل کا نفسیاتی شاکلہ تیار ہوتا ہے”۔
10. “ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جو اپنے بچپن کے تصورِ خدا کو علم و فہم کے ذریعے سے بدلنے کی شعوری کوشش کرتے ہیں یا علم و فہم کی راہ سے اس تصور میں آنے والی تبدیلی قبول کرتے ہیں”۔
11. “قوم کے بچوں کو نااہلی کے سپرد کر دیا گیا یا ان کے ، جن کے لیے تعلیم جنسِ بازار سے زیادہ کچھ نہیں”۔
12. “تعلیم اگر روزگار کے حصول کا واحد مقصد بن جائے تو پھر معاشرہ اخلاقی انارکی کا شکار ہو جاتا ہے”۔
13. “کسی انسان کے مزاج سے نرمی رخصت ہو جائے تو سمجھیے کہ اس سے ہر بھلائی ہی رخصت ہو گئی” ۔
14. “انسان ٹینشن کی وجہ سے نظر ثانی پرآمادہ ہو جاتا ہے اور نظر ثانی کی بہ دولت اصلاح کا امکان بھی پیدا کر لیتا ہے”۔
15. “مجھے احساس ہے کہ مزاح کو نفاست کی سطح پر آنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے افراد کی ذہنی سطح موجودہ سطح سے بہتر ہو جائے ۔ اچھی سطح کا حامل مزاح ہماری موجودہ نسل کی سمجھ سے ابھی باہر ہے “۔
16. “معاملہ چند موتو ں پر دکھ کا نہیں ، معاملہ ان سماجی پیچیدگیوں کا ہے، جن کے ہوتے ہوئے مرتے دم تک جیتے رہنا نئی نسل کےلیے مشکل بلکہ نا ممکن ہوتا جا رہا ہے “۔
17. “زندہ معاشرہ وہی ہے جہاں غریب مرنے سے پہلے زندہ رہ پاتے ہیں” ۔
18. ہم جنازوں میں کوشش کرتے ہیں کہ میت کا کفن منہ سے سرکا کر منہ دیکھ لیا جائے
19. “قوم میں وہ افراد نہیں رہے جو درخت اس لیے لگانے پر آمادہ ہوں کہ ان کا پھل آئیندہ لوگ کھا لیں گے ۔یہاں اپنے لگائے گئے درختوں کا پھل خود کھانے کا ارمان لوگوں پر غالب ہے “۔
20. “ایک انسان دیانت داری سے اپنی دستیاب عقلی توانیاں کسی مسئلہ پر صرف کر دے تو یہ امکان باقی نہیں رہتا کہ وہ کسی برائی کو اچھائی سمجھ بیٹھے گا”۔
21. “زندگی کا ہر رنگ اپنے اندر ایک حسن رکھتا ہے، لازم ہےکہ ہر رنگ میں چھپے حسن کو دریافت کر لیا جائے”۔
22. “زندگی کا اہم ترین کام “آرٹ آف تھنکنگ” سیکھنا ہے ۔ یہ سیکھے بنا زندگی کا خاص لطف پانا ممکن نہیں” ۔
23. “انسانوں سے نیکی کرنے کے بعد انہیں پتھر سمجھنا لازم ہے۔ یعنی ان سے پھر اس نیکی کے صلے کی کسی درجہ میں کوئی امید دل میں پلنےنہ پائے”۔
24. “اُن کے اندر اٹھے جوش نے ان کا ہوش مکمل اڑا رکھا ہے “۔
25. “جوش ان کے دماغ پر اس درجہ خلل انداز ہوا کہ وہ جنابِ ابوبکر صدیق ؒسے ، جذباتی کیفیات سے مغلوب ہو کر ، بطورِ لغزش سرزد ہوجانے والے کسی عمل میں اور کسی دینی تقاضے پر عمل کے طور پر کیے جانے والے عمل میں فرق کے ادراک سے بھی معذور بنے بیٹھے ہیں” ۔
26. “قوم کو سمجھنا ہو گا کہ دین و رسولﷺ کی حرمت کو اصل خطرہ انہی شعور فری بد گو اہل مذہب اور ان کے حامیان سے درپیش ہے “۔
27. “جھوٹی پابندیوں کی لاکھوں رسیوں پر توانا محبت کا ایک دھاگا بھاری ہے”۔
28. “گو ناگوار ہی سہی، مگر یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں کے اہلِ مذہب کی اکثریت دین کی نہیں ، اپنے اپنے بزرگوں کے اقوال کی طالب ہے”۔
29. “یہ اہم بات سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ میں کئی ایسے مطالعہ بازوں سے واقف ہوں جو عمر بھر دوسروں کے علم کے علم کو اپنا علم سمجھنےکے دھوکے میں مبتلا رہے”۔
30. “موسیقی انسان کے لطیف احساسات کی ترجمانی کی ساتھ ساتھ انسان میں لطیف احساسات کی تشکیل و تہذیب کا کام بھی کرتی ہے”۔
مضمون کی طوالت کے خوف سے میں یہ تبصرہ یہیں روکتا ہوں۔ “درِادراک” پر مزید معروضات کسی الگ مضمون میں ہی پیش کروں گا۔ “مقالات” کے حصے میں چھڑے گئے اہم مباحث پر اپنا تبصرہ بہ طور خاص پیش کیا جائے گا۔ (ان شاء اللہ)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
19 فروری 2019)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں