مدہم نیلا نقطہ (Pale Blue Dot)

نظام شمسی میں زمین 8 سیاروں میں سے ایک ایسا سیارہ ہے جہاں زندگی ممکن ہے اور پھل پھول رہی ہے. یہ سیارے ملکی وے کہکشاں کے تقریباً 200 ارب ستاروں میں سے ایک ستارے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں. زمین کی آج تک سینکڑوں تصویریں لی گیئ لیکن ان میں سب سے دلچسپ اور نایاب تصویر یہاں سے تقریباً 6 ارب کلومیٹر دور سے لی گیئ. اس تصویر کو Voyager 1 Space Probe نے لیا. Voyager 1 خلا میں سب سے سے زیادہ دوری پر پہنچنے والا واحد space probe ہے جو کہ اب تک 20 ارب کلومیٹر کا فاصلہ طے کرچکا ہے. 1990 میں جب Voyager 1 نظام شمسی سے نکلنے لگا تھا تو کارل سیگن نے NASA سے خصوصی درخواست کی کے Voyager 1 کا کیمرا زمین کی طرف موڑا جائے تا کے دیکھا جاسکے کے زمین 6 ارب کلومیٹر دور سے کیسے لگتی ہے اور ہماری اس کائنات میں کیا حیثیت ہے. اس تصویر کو مدہم نیلا نقطہ Pale Blue dot کا نام دیا گیا. اس تصویر میں زمین ایک پکسل سے بھی چھوٹی دکھائی دیتی ہے. کارل سیگن نے اپنی کتاب Pale Blue Dot: A Vision of the Human Future in Space جس کا نام بھی انہوں نے تصویر کے نام پر رکھا میں اس تصویر کو کچھ یوں بیان کرتے ہے:

Advertisements
julia rana solicitors

" اتنی دوری سے دیکھنے پر، زمین کی کوئی اہمیت نہیں رہتی، مگر ہمارے لئیے یہ نقطہ انتہائی اہم ہے ۔ اس نقطے(زمین) کو پھر سے دیکھئے، یہ ہمارا گھر ہے، اسی پر ہم سب ہیں۔ اسی پر ہر وہ انسان ہے جس سے آپ پیار کرتے ہیں، ہر کوئی جسکو آپ جانتے ہیں، ہر کوئی جسکے بارے میں کبھی آپ نے سنا تھا، ماضی کے ہر انسان نے اسی پر اپنی زندگی گزاری۔ ہماری سب مصیبتوں اور خوشیوں کا حاصل، ہزاروں مختلف ادیان، نظریات و تصورات، معاشی نظام، ہر شکاری اور جھاڑیوں سے بیر توڑنے والا ، ہر سورما ہر بزدل، تہذیبوں کو شروع اور تباہ کرنے والے، ہر قسم کا کسان، ہر نوجوان عاشق جوڑا، ہر ماں اور باپ، مستقبل کی امید لئے ہر بچہ، موجدین اور محققین، ہر اخلاقیات کا گرو، ہر بے ایمان سیاستدان، ہر فلمی ستارہ یا عظیم رہنما، تاریخ انسانی میں بیان ہونے والے تمام مقدسین اور گناہگار، اسی مٹی کے ذرے پر ہیں جو سورج کی روشنی میں چمک رہا ہے۔
کائناتی اکھاڑے میں زمین بہت چھوٹی ہے۔ ان سب خون کی ندیوں کے بارے میں سوچیں جو اس پر رہنے والے جرنیلوں اور حکمرانوں نے وقتی عظمت اور کامیابی کے لئے اس چھوٹے سے نقظے کے حصوں میں بہائیں، اس نا ختم ہونے والے ظلم کے بارے میں سوچیں جو اس ذرے کے ایک حصے میں رہنے والوں نے معمولی نسلی فرق کے چکر میں اپنے ہی جیسوں پر کیا۔ ہماری غلط فہمیاں کتنی زیادہ ہیں، ہم ایک دوسرے کو قتل کرنے کا کتنا جنون رکھتے ہیں، ہماری نفرتیں کتنی شدید ہیں۔ ہمارا خود کو اہم سمجھنا، یہ سارے سراب کہ اس عظیم کائنات میں ہم انتہائی اہم ہیں، اس نیلے مدھم نقطے کو دیکھنے کے بعد کمزور اور جھوٹے لگتے ہیں۔ اس دوری سے دیکھنے پر ہمارا سیارہ ایک ایسا نقظہ ہے جسکو اتھاہ اندھیرے نے چاروں اطراف سے گھیرا ہوا ہے۔ اور اوپر سے ہمارا دھوکا مگر ہماری تباہی کی صورت میں مدد کہیں اور سے نہیں آئے گی اسی نیلے مدھم نقطے پر ہی ڈھونڈنی ہو گی۔ زمین زندگی کو پالنے والی واحد دنیا ہے جسے ہم ابتک جانتے ہیں۔ اسکے علاوہ کوئی اور جگہ نہیں ہے، کم از کم مستقبل قریب میں تو نہیں کہ ہماری نسل جہاں ہجرت کر سکے۔ سیر کے لئیے(دوسری دنیاؤں میں) جا سکتے ہیں مگر مستقل نہیں رہ سکتے کم از کم ابھی تو نہیں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں ، فی الوقت ہمیں زمین پر ہی رہنا ہو گا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ علم فلکیات عاجزی اور کردار کی بلندی سکھاتے ہیں۔ اپنی چھوٹی سی دنیا کو اس طویل دوری سے دیکھنے سے بہترانسانی تکبر اور خودپسندی کے سحر کو توڑنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ میرے لئے یہ دریافت ہماری ذمہ داری کی اہمیت کو باشدت باور کراتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ محبت اور ہمدردی سے پیش آئیں اور اس مدھم نیلے نقطے کی قدر کریں، یہی ہمارے لئے ہمارا واحد گھر ہے۔"; (ترجمہ:غالب کمال )

Facebook Comments

کاشف محمود
میں ایک آرٹسٹ ہوں . علم و ادب ، سائنس و فلسفہ میں دلچسپی رکھتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply