توآج شام اندھیرے اُجالے کے کِسی لُکن میٹی لمحے میں استنبول سے رُخصت ہوجانا ہے۔دنیا کی حسین ترین مسجدوں والا یہ شہر جس کے چپے چپے پر ماضی کی عظمتوں اور تہذیبوں کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔
میں ایک عجیب سی گومگو کیفیت میں سوالوں کی سان پر چڑھی کھڑی ہوں جنہوں نے مجھ سے بار بار پوچھا ہے کہ استنبول سے میراکوئی ناطہ ہے یا نہیں۔اس کے حُسن و خوبصورتی کے رنگوں ،اسکی تاریخ ،اس کی تہذیب پر کہیں میرے لئیے بھی فخر کی کوئی گنجائش ہے یا نہیں۔
اب آپ سے کیا چھپاؤں۔آنکھوں میں اندر کے درد کی تھوڑی سی رڑک بھی تنگ کررہی ہے۔یہ بھی سمجھ نہیں آرہا ہے کہ جذبات کا اظہار کیونکر ہو ۔دراصل میرے ملک کے ترقی پسند دوست لکھاری اور کالم نگار کچھ عرصے سے مجھ جیسے جاہل اور گنوار لوگوں کو یہ باور کروانے میں اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں کہ خاطر جمع رکھو۔ ’’ یہ ہم تھے ‘‘ کہنا چھوڑ دو۔
ماضی کا شاندار اسلامی ورثہ تمہارا نہیں عربوں کا تھا،کہیں ترکوں کا تھا،کہیں خراسانیوں اور کہیں وسط ایشیا کے مسلمانوں کا تھا۔بس خیال رہے کہ تم ہندی اور اب پاکستانی مسلمانوں کا ہرگز نہیں۔
اب آپ سے کیا پردہ؟محسوس تو کچھ یوں ہونے لگا تھا جیسے مجھے دن دہاڑے لوٹ لیا گیا ہے۔ظالموں نے میرا سب کچھ چھین کر کوڑے کرکٹ کے ڈھیرپر کِسی نوزائیدہ ناجائز بچے کی طرح پھینک دیا ہے۔
سچ تو یہی ہے میں تو اتنا جانتی ہوں کہ جب سے شعوری ہوش سنبھالا اور کتابوں سے دوستی ہوئی تو جبل الطارق پر کھڑا ،اپنی کشتیوں کوجلاتا ،اپنی واپسی کے راستے بند کرتا،اپنے ساتھیوں کے اندر شجاعت و دلیری کی رُوح پھونکتا اس دلیر اور دلبر سے طارق بن زیاد سے میرا ایک رشتہ استوار ہوا تھا۔محبت کا رشتہ، عقیدت کا رشتہ،فخر اور ناز کا رشتہ۔کچھ ایسا ہی تعلق اُس نوخیز دلکش اور من موہنے سے محمد بن قاسم سے محسوس ہوتا تھا۔
سکو ل کے زمانے سے ہی درسی کتابوں نے جابر بن حیان اور سترھویں صدی تک یورپ کی درسگاہوں میں پڑھایا جانے والا وہ ابن الہیثم، طب کی دنیا کا وہ بو علی سینا،وہ البیرونی،اسحاق الکندی ،ذکریا الرازی کتنے لوگ میرے ہیرو بن گئے تھے۔ذہن نے بلوغت پکڑی۔درسی کتابوں سائنس،تاریخ اور جغرافیہ سے ذرا نکلی تو ڈھیروں ڈھیر اور لوگوں سے ملاقات ہونے لگی تھی جو شاعر ،ادیب،فلاسفر،موسیقار تھے۔ جنہوں نے اپنے اپنے زمانوں میں اپنے اپنے میدانوں میں بڑا نام پیدا کیا۔ انسانی فکر اور سوچ کو متاثر کیا اور اُسے جلا بخشی۔
فرزندان زمین میں بھی ڈھیروں ڈھیر نام ہیں ۔دراصل شعور کی وسعتوں نے رنگ ،نسل، زبان،تہذیب و ثقافت اور وطنیت کے رشتے کو بھی اتنا ہی اہم گردانا جتنا مذہبی تعلق کو اور اِن حوالوں سے مجھے اُن کے ساتھ بھی محبت کی ڈوری میں باندھ دیا ہے۔تاہم اس وقت میرا مسئلہ برصغیر کی قدیم ترین وراثت یا اُس کی شخصیات سے اپنے رشتے ناطے کے حوالے سے نہیں بلکہ مسلمان خارجیوں(میرے مطابق) سے تعلق کی بحث کا ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا نکاح کے چار بولوں کی چھتر چھاؤں تلے دھان متی کا کنبہ بن جاتا ہے۔کلمے کے چار بولوں کا بھی کچھ ایسا ہی کردار ہے۔
اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ اگر میں اُن سب کے ساتھ ناطے کی ایک ڈور میں بندھی ہوئی تھی۔مجھے اُن پر فخرتھا ،غرور تھا اوررشتے کے اس ریشمی احساس میں ان میٹھے سے جذبات میں ایسی کڑوی سوچ کا تو کہیں کوسوں دور تک کوئی وجود ہی نہیں تھا کہ وہ عرب تھے ،ترک تھے،تاتاری یا چنگیزی تھے ا ور میں جنوب مشرقی ایشیا کے ایک پس ماندہ ملک کی مسلمان عجمی ہوں ۔ پہلے ہندی مسلمان اب پاکستانی مسلمان ۔ایک مفلوک الحال ملک کی شہری۔
تو کیا میں پاگل تھی۔دمشق میں صلاح الدین ایوبی کے مقبرے پر روتی تھی۔اُسے کہتی تھی صلاح الدین تم سورہے ہو۔تم نے کب تک سوتے رہنا ہے؟مسلم دُنیا کتنی زبوں حالی کا شکار ہے۔تمہیں کچھ خبر بھی ہے ۔صلاح الدین تمہاری نیند کتنی لمبی ہوگئی ہے؟ تم اس وقت بھی سو رہے تھے جب وہ ہوچھا فرانسیسی جنرل ہنری گورد فرانس کو مال غنیمت کے طور پر ملنے والے ملک شام میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوا تھا اُس نے جوتا تمہارے مقبرے پر مارتے ہوئے کہا تھا۔
’’صلاح الدین ہم واپس آگئے ہیں۔ہم نے ہلالی پرچم سرنگوں کردیا ہے۔صلیب ایک بار پھر سر بلند ہے۔‘‘
اس وقت تک میں نے صلاح الدین کو کرد نہیں سمجھا تھا۔وہ تو میرا تھا ۔میرا اپنا۔حمص میں خالد بن ولید کے روضہ مبارک پر فاتحہ پڑھتے ہوئے بھی میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔خالد بن ولید سے کون سا کم گہرا تعلق تھا۔وہ عرب تھا۔سوچ یا گمان کے کسی حصّے میں بھی اُس کے عرب ہونے کا کوئی احساس تک نہیں تھا۔
سری لنکا کے ساحلوں پر پھرتے ہوئے مجھے اُن عرب تاجروں پر فخر محسوس ہوا تھا جن کی ناپ تول کے پیمانے صحیح اور ایمانداری ایسی بے مثل تھی کہ مقامی لوگوں نے بے اختیار اُس دین کو گلے لگایا جس کے وہ تاجر پیروکار تھے۔وہ سب عرب تاجر میرے اپنے تھے۔
کیا یہ میری غلطی تھی کہ میں نے خود کو اُس ڈور سے جڑا ہوا سمجھا۔پر اسمیں اُن لوگوں کا بھی تو قصور تھا جنہوں نے مجھے اسکا احساس دیا۔اب میں کیسے اُس مصری ٹیکسی ڈرائیور کو بھول جاؤں جس نے مجھے صرف اسی تخصیص ،اسی پہچان پر عزت و احترام دیا۔
تو ذرا سنیے یہ قصّہ بھی۔ ہم لوگ اسکندریہ سے واپس قاہرہ آرہے تھے۔اسٹیشن جانے کیلئے کسی ٹیکسی کی تلاش میں کھڑے تھے۔ایک ٹیکسی قریب آکر رکی۔استفسارہوا کہاں جانا ہے؟بتایا گیا ۔دس مصری پونڈ کرایہ ہوگا۔بڑے کاروباری انداز میں کہا گیا۔ دفعتاًاُس نے پوچھا ۔انڈین۔نہیں میں نے فوراً کہا۔پاکستانی ۔’’مسلمان ہیں‘‘ ’’جی ہاں‘‘ میرا جواب تھا۔الحمداللہ ۔پُرمسرت آواز میں کہا گیا۔
’’ کھڑی کیوں ہو۔دروازہ کھولو اور بیٹھو۔ہاں کرایہ میں صرف پانچ مصری پاونڈ لوں گا۔‘‘
اب بھلا میری آنکھیں نہ بھیگتیں ۔میرا کیا رشتہ تھا۔یہی رشتہ جو کہنے کو اگر مظبوط اور طاقتور ہے تو بودا بھی ہے۔
ضیاالحق پنجابی تھا۔میرا وطنی تھامگر میری اُس سے شدید نفرت تب سے ہے جب اُس نے فلسطینیوں پر ٹینک توپیں چلائیں۔فلسطینی کازکو نقصان پہنچایا۔
بغداد میں امام ابو حنیفہ کے مزار اقدس پر بیٹھے ڈاکٹر قاسی سے باتیں کرتے ہوئے جب وہ ضیاالحق کے ساتھ ساتھ صدام ،سعودی حکمرانوں ،اردن کے شاہ عبداللہ کو لعن طعن کرتے تھے۔وہ مجھے کیوں اپنے اپنے لگے تھے۔وہ تو عرب تھے۔میرے سامنے بیٹھ کر انہوں نے اپنے دل کے پھپھولے کیوں پھوڑے؟ انہوں نے عربیوں پر لعن طعن کیوں کی۔اُن سے تو انکی نسلی قرابت داری تھی۔
اگر میں یہ سوال اٹھاؤں کہ ہندوستان اور پاکستان کے بائیں بازو کے دانشوروں، ترقی پسندوں اور دنیا بھر کے کامریڈوں کا کعبہ و قبلہ ماسکوکیوں تھا؟کارل مارکس اُنکا پیغمبر اور لینن اُنکا راہبر کِس لئیے تھے؟لینن روسی اور کارل مارکس جرمن یہودی تھا۔کہیں کوئی تہذیبی اور ثقافتی مماثلت ہی نہیں تھی۔
اب ایسے میں کہیں یادوں سے رالف رسل(Ralph Russell) کی آٹو بائیو گرافی سے نکل کر سامنے آگئی ہے۔اُسے پڑھتے ہوئے کئی بار احساسات عجیب سے ہوئے تھے۔اپنی سوانح عمری کے دوسرے حصّے Losses, Gainsجو 1945 سے 1958 تک کے دور کا احاطہ کئیے ہوئے ہے۔ایک جگہ وہ برطانیہ کی کیمونسٹ پارٹی کے بارے اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اِس بین الاقوامی قسم کی فوج جس میں دنیا کی ہر قوم اور مُلک کے مرد ،عورتیں ،رنگ ، نسل،زبان ،قومیت اور سٹیٹس سے بے نیاز ایک عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کے حصول کیلئے کام کررہی ہے کو دیکھ کر مجھے اپنے اندر ایک بے پایاں مسرت اور توانائی محسوس ہوتی ہے۔
رسل اپنے کیمونسٹ ہونے کا اظہار ایک تفاخر سے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اور پارٹی کا ہر ممبر خود کو دنیا کے پارٹی ورکرز کے ساتھ نظریاتی تعلق اور رشتے کی ایک مضبوط ڈور میں بندھا محسوس کرتے ہیں۔ہندوستان میں اُنکے فوجی تجربات کا ذکر بھی بڑا متاثر کن ہے کہ آسام میں اپنی تعیناتی کے دوران انکی خفیہ سرگرمیوں اور جدوجہد کا اولین ہدف برطانوی مفادات نہیں اپنی کیمونسٹ پارٹی کی ترجیحات تھیں۔اُنکی دلی ہمدردیاں اور محبتیں اُن Sepoy (نچلے درجے کے فوجی) کے ساتھ تھیں جنہیں وہ انگریز ہونے کے باوجود برٹش گورنمنٹ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اورآزادی حاصل کرنے کیلئے اُکساتے تھے۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب سوویت ٹوٹا ۔پاکستان میں بائیں بازو کے لوگ بے حد افسردہ و ملول تھے۔ایک دوسرے کے گلے لگ کر زار زار روئے ۔ایک دوسرے کو پُر سے دئیے۔کیوں؟ یقیناًاس لئیے کہ یہ اس نظریاتی ہم آہنگی کی موت تھی۔یہ اُن خوابوں،اُن امیدوں کا جنازہ تھاجو سابق سوویت یونین کی صورت وہ دیکھتے تھے۔انہیں فخر تھا کہ اِس کیمونسٹ ریاست کی چھلانگیں مارتی ترقی نے سرمایہ دارانہ نظام پر دہشت طاری کررکھی ہے۔اِس دنیا کاتو دن کا چین اور راتوں کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں۔اور اب وہ کامیاب ہوگئے تھے۔کامریڈوں کی دنیا لٹ گئی تھی اور سرمایہ دار دنیا خوشی سے بغلیں بجارہی تھیں۔
اب میں خود سے پوچھتی ہوں تو واسطہ ہوانا۔واسطہ تو گٹے گوڈوں میں چھوڑ روح تک میں بسا ہوا ہے۔مجھے یاد ہے 1952میں میرے بڑے ماموں حج کیلئے مکہ گئے۔کرنسی بدلوانی تھی۔انہوں نے منی چینجر سے بات کی۔ ریٹ طے ہوا اور وہ اپنے ہوٹل ڈالر لینے آئے۔جب دوبارہ اُس کے پاس گئے وہ پہلے کے بتائے ہوئے ریٹ سے منکر ہوگیا۔میرے ماموں بڑے دبنگ انسان تھے۔بولے ابھی پانچ منٹ پہلے تو بات ہوئی تھی۔تم اہل مکہ ہو ہی خبیث لوگ۔ تم نے میرے نبی کو جن اذیتوں سے دوچار کیا ہمارے لئیے تو یہی تمہیں جاننے اور سمجھنے کیلئے کافی ہے۔اُس بہت پڑھے لکھے شخص نے اس نہج پر سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ عجمی مسلمان ہے اور اُسکا نبی عربی تھا۔وہ تو اس مسلک کا پیروکار تھا جو اُس کے نبی نے بتایا تھا کہ عربی کو عجمی پر اورعجمی کو عربی پر کوئی فوقیت نہیں ہاں اگر فضیلت ہے اور فوقیت ہے تو وہ صرف تقوی کو۔
نبیؐ کی اِس بات پر کِس نے کان دھرے۔بیسویں صدی میں عرب قومیت کے شوشے نے وہ طوفان اٹھایا کہ ایک عظیم مسلمان سلطنت مغرب کی ریشہ دوانیوں اور اپنوں کی مفاد پرستیوں کے ہاتھوں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی۔
تو میں ترقی پسندوں کے جواب میں کہنا چاہوں گی۔ارے بھئی میرا بڑا گہرا ناطہ ہے۔ سمر قند میں میں امیر تیمور کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد میں نے اُس سے شکوہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
قدرت نے تمہیں کتنی شجاعت دی تھی۔ایک ٹانگ کی بھج دے کر اُس نے تمہارے دونوں ہاتھوں کو کمال بخش دیا تھا کہ تمہارے ہاتھ بجلی کی سی تیزی سے تلوار چلانے کے ماہر تھے۔تم حافظ قرآن تھے اور خود کو مجاہد اسلام کہتے تھے۔پر تمہاری تلوار نے جتنی جنگیں لڑیں اُن میں بہت سی مسلمانوں کے خلاف تھیں۔فتح کے بعد ہزاروں کیا لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا۔آخر تم انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنا کر دنیا پر اپنی دہشت کیوں اور کِس لئیے بٹھانا چاہتے تھے تم نے عثمانی سلطان بایزید اول جویلدرم (برق) کے نام سے جانا جاتا تھا۔
اور جو تمہاری طرح ہی دلیر اور بہادر تھا جس کی فتوحات کا دائرہ مشرقی یورپ تک پھیل رہا تھا۔تم کتنے خود غرض نکلے۔ذرا سی انا کی ذلّت تم سے برداشت نہ ہوئی اور اسی طرح وہ بایزید جس کی پے در پے کامیابیوں نے اُسے بڑا متکّبر بنادیا تھا۔جس کی بصیرت کی آنکھ اُس طوفان کو نہ دیکھ سکی جو تیمور کی صورت اس کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔نتیجہ وہی تھا۔ایک دوسرے کا بیج ماردیا گیا۔
اب سوال یہ ہے کہ مجھے کیا زندہ نہیں رہنا۔میرے پاس اور کونسا جذباتی سہارہ ہے۔جسے تم لوگ چھین لینا چاہتے ہو۔تم نے وہ کہانی نہیں سُنی۔برصغیر کی تحریک آزادی کے دوران ایک احتجاج کے نتیجے میں مال روڈ پر صفائی کرتے دو خاکروبوں کے درمیان گفتگو کا محور کچھ یوں تھا۔
ایک نے دوسرے سے پوچھا تھا۔
آخر یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ ہر روز جلسے جلوس اورہڑتالیں۔
دوسرے نے جواب دیا ۔ یہ (یعنی مسلمان اور ہندو)ہم سے آزادی مانگتے ہیں۔
لاہور کے خاکروب مذہبی عقیدے کی بنا پر حکمران پارٹی کاخو د کو حصّہ سمجھتے تھے۔ جو کِسی بھی لحاظ سے رنگ ،نسل، تہذیب و ثقافت کے حوالوں سے مقامی لوگوں کے ساتھ میچ نہیں کرتا تھا۔مگر درمیان میں عقیدے کی ڈور تھی جو انہیں اُنکا حصّہ سمجھنے پر مجبور کررہی تھی۔ تو اب یہی مرکزی مسئلہ ہے ۔
ہاں لیکن ایک سوال بھی ذہن میں اٹھتا تھا،پریشان کرتا تھا آخر کیا بات ہے؟اب فکر و آگہی کے چشمے کیوں نہیں پھوٹ رہے ہیں؟سوچوں پر جمود کیوں طاری ہے؟ یوں اِن کے جوابات بھی مل جاتے تھے کہ قومیں جب زوال پذیر ہوجائیں تب علم و تحقیق سے دوری پست کرداری اوربے عملی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ اس خیال کی صداقت بھی عملی طور پر سامنے آئی۔
1969میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنے قیام کے دوران ایک بار ڈھاکہ کلب میں اپنی واقف بنگالی فیملی کے ساتھ ڈنر پر صاحب خانہ کی ایک اطالوی کے ساتھ گفتگو کے دوران جب اچانک اُس نے اپنی بیوی جو میری کلاس فیلو تھی کی طرف رُخ کرتے ہوئے بنگالی میں کہا۔
’’کمبخت بڑھکیں کتنی مار رہا ہے؟سارے زمانے کی چوراچکی قوم ہے ۔
کوئی چھ سال بعد اس سے ملتے جلتے ہی الفاظ میں نے اپنے کزن سے سنے جو تربیلا ڈیم پر اطالوی اور دیگر یورپی قوموں کے ساتھ کام کررہا تھا۔ کچھ مزید سالوں بعد ا یسے ہی خیالات کا اظہار لاہور کے ایک بڑے بزنس مین سے سُننے میں ملے۔
جب میں روس گئی۔ ماسکو میں پندرھویں صدی کی کریملن کی عمارتوں کا حسن ان پر کندہ کاری،اِن پر بکھرے آرٹ کے موتی دیکھے۔معلوم ہوا تھا کہ یہ اطالوی معماروں اور فنکاروں کے کارنامے ہیں جنہوں نے روسی کلچر کو سمجھا اورروسیوں کے ساتھ مل کر شاہکار تخلیق کیے کہ اس وقت اطالوی قوم اپنے عروج پر تھی۔
پس تو جان لیا کہ ہم زوال کے اسی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
مجھے وہ مصری کبھی نہیں بھولتا جس کی ٹیکسی میں میں قاہرہ الجدید میں کِسی سے ملنے جارہی تھی۔مجھے محسوس ہوا تھا۔ڈرائیور ڈرائیوروں کی صف میں بظاہر تو شمار ہوتا تھا مگر صاحبِ علم تھا۔صاحبِ نظر تھا۔حالات حاضرہ پر گرفت تھی۔پاکستان مصر کے سیاسی حالات اور فلسطین جیسے سنگین مسئلے پر میرے دلی دُکھ اور اظہارپر اُسنے کہا تھا۔
’’دراصل یہ وقت کے phases ہیں۔خدا دنوں کو قوموں کے درمیان پھیرتا ہے ۔مصر کا ابتدائی ماضی یہودیوں کیلئے اذیت ناک تھا۔آج اُنکا زمانہ ہے۔ہمارے
طورطریقے اور اطوار بھی پسندیدہ نہیں۔علم مومن کی میراث ہے۔ غور و فکر اور تحقیق قرآن کا بنیادی سبق ہے۔
ہم نے اپنے نبی کی اس حدیث سے منہ موڑ لیا ہے۔علم و تحقیق کے دروازے خود پر بند کرلئیے ہیں۔افسوس ہمارے لیڈر بھی اچھے اور مخلص نہیں۔دس بارہ صدیوں تک مسلمانوں نے عروج دیکھا۔ اب اُنکا زوال ہے ۔ وہ جنہوں نے علم اور تحقیق کو اپنایایہ اُنکا زمانہ ہے۔ پوری اسلامی دنیا اپنے اپنے مفادات کی گُھمن گھیریوں میں اُلجھی ، اقتدار کی پجاری بنی فرقوں اور گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اگر تاریخ کے چکر کو سمجھ لیا جائے تو واقعی اُن کی باتوں میں کتنی صداقت تھی؟
اب رہابیچارہ ایک عام ساآدمی جسے پوجنے کو کچھ چاہیے،جسے اپنے کیتھارسس کیلئے کِسی کے کندھے چاہئیں۔خدا عالی مرتبت، عالی قدر،عظیم و بالاتر ہستی اُس کا جذباتی سہارہ۔ اُس کے بھیجے گئے کِسی رسول،کِسی پیغمبر،اسکی وساطت سے آنے والی کتاب۔اب وہ اُسے پڑھے یا نہ پڑھے ،عمل کرے یا نہ کرے پر کہیں ایک جذباتی سے سہارے اور تعلق کی ڈور تو لٹک رہی ہے نا۔
یوں یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ طاقت نے اقتدار کے بت کو بلندی پر چڑھا دیا تو چیزوں کو ناپنے ماپنے کے پیمانے بھی ہماری اپنی ہی خواہشوں کے وضع کردہ ہوگئے۔جیسے مرضی اور جس مرضی کٹھالی میں ڈال کر جو چاہو صورت دے دو۔
یہ اُلٹ پلٹ ،یہ اکھاڑ پچھاڑ تو اپنے وقت مقررہ پر ہونی ہے۔جب اوپر والا چاہے گاکہ اب کِس مٹی کو اسنے اوپر لانا ہے۔کِس مٹی کو اُسنے فضیلت بخشنی ہے۔اور کِس نے پاتال کی گہرائیوں میں گُھستے چلے جانا ہے۔
ازراہ مہربانی تم مجھ سے میرا یہ جذباتی سہارہ ،میرا یہ اعزازمت چھینو۔مجھے وابستہ رہنے دو اُن سے۔آخر کو میرے پاس بھی تو کچھ ہونا چاہیے۔
مانگے تانگے کا سہی۔کشکول خالی تو نہیں اتنی تو دل کو تسلی رہے۔
توسلطان محمد فاتح میرا ہیرو ہے کہ اُس نے میرے نبی کی بشارت کو سچا کیا اورسلیمان ذی شا ن پر مجھے ناز ہے کہ اُس کے گھوڑے وی آنا پہنچے۔اتاتُرک سے مجھے عشق ہے۔
تو اے استنبول میں تم سے وداع ہوتی ہوں۔تم جو سب میرے اپنے ہو۔تمہاری مسجدیں آباد اور شاد رہیں۔تمہارے لوگ، تمہارے کھیت کھلیان ہرے بھرے رہیں۔تمہارے آنگن سیاحوں سے ایسے ہی بھرے پُرے رہیں۔(امین)اور ہاں میرے ملک کی بھی خیر مانگ لینا۔جیسے تم دہشت گردی کے طوفان سے نکل کر ترقی کی شاہراہ پر چڑھ گئے ہو۔ایسا ہی ہمارا مقّدرہوجائے۔(امین)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں