ابر کرم تھا کہ صبح ہی سے ٹوٹ کر برستا رہا پھر شاید آسمانوں کے رب نے جہلم والوں کی فریاد سن لی کہ”ذرا تھم کے برس”۔۔۔۔
بارش تھمتے ہی سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوا ،بھیگے راستوں پہ گامزن ہم ضلع کونسل حال پہنچے جہاں افاج انٹرنیشنل ادبی فورم نے سیمینار کا انعقاد کر رکھا تھا، سیمینار کیا تھا علم دوستو، ادب پروروں کا اجتماع جس میں شریک ہو کر آگہی کے کتنے ہی چراغ قلب و نظر کی روشنی کا سامان کر گئے، کتاب لاریب کی تلاوت نے سماعتوں میں رس گھولا تو نئیر صدیقی نے عقیدت بھرا نذرانہ آقائے دو جہاں کے حضور پیش کر کے سماں باندھ دیا ،بانکے لہجے کے مالک پروفیسر اشفاق شاہین نے جاندار حوالوں کے ساتھ ادب اور ادیب کے کردار پر مختصر مگر جامع روشنی ڈالی ،باوقار شخصیت کے مالک پروفیسر ارشد شاہین نے فروغ ادب کی راہ میں حائل ادیبوں کے باہمی اختلافات اور منفی رویوں پر اظہار افسوس کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ جب تلک ہم آپس میں دست و گریباں رہیں گے کس طرح عالمی منظر نامے کا ادراک ہو پائے گا؟
برصغیر کی خوبصورت آواز جناب قمر رضا شہزاد نے اس سیمینار کے انعقاد کو ادبی جمود توڑنے کے ضمن میں بارش کا پہلا قطرہ قرار دیا ،جونہی مہمان خاص سابق ڈپٹی کمشنر جہلم جناب اقبال احسن ہم کلام ہوئے تو رنگ محفل دیدنی تھا ایک ادب پرور اخلاق عالیہ سے متصف انسان دوست سرکاری افسر جب محو کلام تھا تو رنگ محفل دیدنی تھا سوچ کی گرہیں کھلتی چلی گئیں ادب اور ادیب کے کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آج کے عالمی منظر میں تعمیری ادب کسی بھی معاشرے کی بقا کیلئے ضروری ہے لیکن اس پہلو پر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ادیب اپنے قلم کو گروی نہ رکھ دے، عہد ماضی کی روایت تھی کہ شاہان وقت قصیدہ گوئی سے خوش ہوتے تو خلعت فاخرہ اور جاگیریں عطا کر کے قرض چکاتے، آج بھی کتنے ہی ہل قلم ایسے ہیں جو بظاہر علم وادب کے بڑے نام ہیں لیکن تنخواہ دار ملازموں جیسا کردار ادا کرتے ہیں اور ذاتی مفاد سمیٹتے ہیں جو تاریخ بادشاہ کے محل میں بیٹھ کر رقم کی جاتی ہے اس کے حرف کی صداقت پر کون بھروسہ کرے گا ۔

افاج نے یہ سیمینار منعقد کر کے ایک اچھی روایت ڈالی ہے اور یہ اتنا اہم موضوع ہے کہ اس پر ایک نشست ناکافی ہے اس پر تو باقاعدہ ایک تحریک بپا کی جا سکتی ہے منتظمین سے گزارش ہے کہ اس سلسلے کو جاری رکھیں ریسرچ پیپرز اور مقالہ جات کی اشاعت کا اہتمام کریں ایک ایک لفظ اقبال احسن کی علمیت ذوق اور ادب سے لگاو کا مظہر تھا۔
سراپا محبت پیکر عجز و انکسار ڈاکٹر قمر صدیقی نے منجھے انداز میں سیمینار کی میزبانی کا حق ادا کر دکھایا
سامعین جہلم کی سخن شناسی قابل داد کہ وارفتگی کے ساتھ ہمہ تن گوش رہے۔
باہر تو بارش تھم چکی تھی مگر ضلع کونسل کے ہال میں علم و ادب کی برسات رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی وقت گزرنے کا احساس ہی نہ رہا ،تشنگی مٹ کے ہی نہ دے رہی تھی۔
بلا شبہ عرصے بعد جینوئن لوگوں کے ساتھ بتائی ہوئی یہ شام ہمیشہ یادوں کے گلشن کو مہکائے رکھے گی۔
ویل ڈن ٹیم افاج
شکریہ اے خوش خصالان جہلم وارثان علم وادب !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں