مائے نی میں کِنوں آکھاں۔ قسط 3

نہیں نہیں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بہت جلد بازی کی بہت تیزی اور سرعت سے کام لیا دو چار برس کہہ کر میں سولہ سال آگے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ان سولہ سالوں کو یوں نہیں سمیٹنا چاہیے تھا ۔۔۔۔۔۔۔اگر یوں ہی میں آگے چلا گیا تو بہت کچھ رہ جائے گا جو بتانے والا ہے جنھیں بتائے بغیر میری کہانی ادھوری رہ جائے گی۔بہت سے واقعات بہت سے کردار رہ جائیں گے مجھے واپس پیچھے جانا ہو گا۔۔۔۔۔جہاں سے میری کہانی شروع ہوئی مجھے وہیں واپس جانا ہو گا۔۔

میرا باپ جس سے میری ماں کا پہلے نکاح ہوا تھا ایک نکما شخص تھا اور میری نانی نے شاید تین بچیوں کو خود پر بوجھ سمجھا، نانا تو پہلے ہی فوت ہو چکے تھے اس لیے بچیوں کے فرائض سے سبکدوش ہونا اور جلد از جلد سبکدوش ہونا نانی نے مناسب خیال کیا، اسی لیے تو ایک بے روز گار شخص یعنی میرے باپ کے ساتھ میری ماں کا نکاح کر دیا اور پھر میری ماں رخصتی پر اسرار کرنے لگی۔۔۔۔۔میرے باپ کے گھر رہنے کو اتنی جگہ نہیں تھی کہ ایک شادی شدہ جوڑے کو الگ رکھ سکتے نہ ہی اتنے پیسے تھے کہ الگ گھر کا انتظام ہو سکتا باپ تو تھا ہی نکما اور بیروزگار یہی عذر میرے ددھیال والے نانی کے سامنے رکھتے آخرکار نانی نے انھیں پیسے دیے اور انھیں ایک اور کمرہ بنانے میں پوری پوری مالی مدد کی تب جا کر میری ماں کی رخصتی عمل میں آئی ۔۔۔رخصتی کے بعد بھی میرا باپ کوئی کام نہیں کرتا تھا بیکار گھر میں پڑا رہتا جبکہ میری ماں انتہائی غیرت مند خاتون تھیں میرے باپ میں کچھ اور بھی اخلاقی عیب تھے جو میری غیرت مند ماں کی برداشت سے باہر تھے اور یہی باتیں میرے باپ اور ماں میں  اختلافات اور پھر خُلع کا باعث بنے ۔

ماموں بغلولی جنھیں میں نے بھی ماموں کہہ کر پکارنا شروع کیا تھا لیکن بعد میں انھیں ” ابا ” کہنے لگا اپنی دوسری بیوی اور دوسری بیوی سے جنی ایک بیٹی کے ساتھ میری نانی کے گھر رہتا تھا نانی کا گھر دو رہائشی کمروں پر مشتمل تھا ۔۔ایک کمرے میں ابا یعنی ماموں بغلولی اور ان کی دوسری بیوی اور بیٹی رہتے تھے جبکہ ایک کمرے میں میری نانی میری ماں دو خالہ اور میں ۔۔۔۔ ماموں بغلولی کی پہلی شادی سے ایک بیٹا تاج الدین اور چار یا پانچ بیٹیاں تھیں وہ بیٹیاں تو سب شادی شدہ تھیں جبکہ تاج الدین اپنے سات بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ ماچس فیکٹری میں ایک کمرے کے گھر میں رہتا تھا۔۔۔۔

تاج الدین کو بھی جوانی میں عملیات کا شوق چڑھا اس نے ایک ملنگ ٹائپ نو سرباز شخص کو اپنا مرشد بنا لیا وہ ملنگ کچھ سفلی علوم بھی جانتا تھا ۔۔۔ تاج الدین ہر وقت اس کے پیچھے پیچھے گھومتا رہتا جو بھی وہ کہتا بغیر سوچے سمجھے اس پر عمل کرتا ۔اس نے تاج الدین کو کچھ وظائف وغیرہ بھی پڑھنے کو کہا تھا جو تاج الدین ہر وقت پڑھتا رہتا ۔۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ اس شخص کا تاج الدین کے گھر بھی آنا جانا شروع ہو گیا، اس مکروہ شخص نے تاج الدین کی بیوی پر نظر رکھ لی اور اسے اپنے جال  میں پھنسانے کے لیے کوئی سفلی عمل کیا جس سے تاج الدین کی بیوی جنھیں میں دادی کہتا تھا کو اس شخص کی قربت اور صحبت کے لیے خیال تنگ کرنے لگے ، یہ بہت غیرتمند اور باکردار خاتون تھیں وہ ان خیالات کو جھٹکتیں اور خود  کو ایسی کسی پیش قدمی سے باز رکھتیں جس سے ان کی طبیعت بگڑنے لگتی اور انھیں متلی اور چکر آتے سر بوجھل ہو جاتا اور عجیب سی سستی اور کاہلی آ جاتی ۔۔۔۔

آخر کار انھوں نے اس بات کا ذکر ماموں بغلولی سے کیا ۔۔۔۔۔ ماموں بغلولی نے تاج الدین کو بلا کر خوب ڈانٹ پلائی کہ تیرا باپ خود بہت پہنچی ہوئی ہستی ہے اور تم ان پاکھنڈیوں کے پیچھے پڑے ہو اور انھوں نے راج الدین کی بیوی کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص نے تمھاری بیوی پر سفلی علم کیا ہوا ہے اور وہ ایک شیطانی علوم رکھنے والا شخص ہے پھر ماموں بغلولی نے کوئی پڑھائی وغیرہ کی ۔ ماموں کا کہنا تھا کہ میری اس سے روحانی طور پر جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں وہ شخص مارا گیا ۔۔ اور دوسرے دن وہ شخص واقعی اپنے آستانے میں مردہ حالت میں پایا گیا اس کے مریدوں نے اسے ملیر قبرستان میں دفن کر دیا ۔

کچھ دن بعد ماموں بغلولی نے تاج الدین کو کہا کہ میں نے اس کے سارے عمل کا توڑ کیا ہے لیکن اس گھر سے اب تک سفلی اثرات ختم نہیں ہوئے یقیناً اس گھر میں اس کی دی ہوئی کوئی چیز ہے اور تاج الدین سے پوچھا کہ تمھارے پاس اس کا دیا ہوا کوئی تعویز یا کوئی چیز ہے لیکن تاج الدین نے کہا کہ اس گھر میں یا اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے ماموں بغلولی یہ بات ماننے کو تیار نہ ہوئے اور انھوں نے تاج الدین کو پھر سوچنے کو کہا ۔۔۔۔

آخر تاج الدین کو یاد آ گیا کہ اس کے مرشد نے ایک بار اسے کپڑوں کا ایک جوڑا تحفے میں دیا تھا جو اس نے بہت سنبھال کر بکسے میں رکھا ہوا تھا ۔۔ ماموں بغلولی نے کہا کہ فوراً اسے لے کر آؤ جب تاج الدین کپڑوں کا وہ جوڑا لے کر آیا تو ماموں بغلولی سونگھا اور کہا۔ہاں دیکھا ماں میں نہ کہتا تھا وہ ابھی مرا نہیں لیکن اب مرے گا ۔۔۔رات کا وقت تھا ماموں نے کچھ پڑھا اور کپڑوں پر پھونک کر کپڑوں کو آگ لگا دی کپڑے جل رہے تھے اور ماموں کہہ رہے تھے کہ اب وہ قبر میں جل رہا ہو گا بیشک جا کر دیکھ لینا ۔۔۔۔۔ صبح تاج الدین نے جا کر دیکھا تو قبر پر تازہ جلے ہوئے کوئلے پڑے ہیں ۔۔۔۔قبر میں سے اٹھتے شعلے بہت سے لوگوں نے دیکھے تھے اور 80کی دہائی میں یہ خبر غالباً اخبار میں بھی آئی تھی کہ ملیر کے قبرستان میں قبر سے شعلے نکلے ہیں کم از کم پورے کراچی میں تو یہ خبر بہت مشہور ہوئی تھی اور لوگوں میں خوفِ ہراس پھیل گیا تھا اور یہ بات بہت عرصہ تک موضوع گفتگو بنی رہی ۔

اس کے بعد دادی کی  طبیعت بالکل ٹھیک ہو گئی ۔۔۔۔۔۔تاج الدین کا سب سے بڑا بیٹا بختو تھا پھر اس کے بعد ایک بیٹی شمو اور پھر یکے بعد دیگرے چھ بیٹے یہ ایک کھولی میں رہتے تھے اور ایک کمرے میں صف بنا کر اس طرح سوتے تھے کہ کروٹ بدلنے کی بھی گنجائش نہیں تھی ، تاج الدین سٹیل مل میں کرین آپریٹر تھا یہی ملازمت اس کا ذریعہء معاش تھا جبکہ بختو قائد آباد ریل کی پٹڑیوں پر سارا دن مارا مارا پھرتا یا کبھی کسی فروٹ کا وہیں پٹڑیوں پر ٹھیلا لگا لیتا۔اسی( 80) کی دہائی میں جب قائد آباد کے نزدیک دو ٹرینیں آپس میں ٹکرائیں تو نہ جانے کتنے ہی لوگ زخمی ہوئے ہوں گے اور کتنوں ہی کے گھر صفِ ماتم بچھ گئی ہو گی لیکن اس واقعے کا آگے چل کر بختو کی زندگی بنانے میں بہت اہم کردار ہے۔

اس واقعے کی وجہ سے حکومت نے قائد آباد پل کی تعمیر کروائی۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ پاکستان میں پلوں کے نیچے ٹھیلے کھوکھے بن جاتے ہیں تو اس پل کے نیچے بھی بہت سے ٹھیلے کھوکھے بن گئے۔وہاں ایک نیک بخت حافظ صاحب نے عطر کا سٹال بنا لیا ۔۔۔۔۔حافظ صاحب انتہائی نیک اور ہمدرد انسان تھے ۔۔۔۔وہیں ان کی ملاقات بختو کے ساتھ ہوئی اور جب انھیں بختو کے حالات معلوم ہوئے تو انھوں نے بختو کو اپنے ساتھ کام پر رکھ لیا،جب بختو کو عطر کے کام کی سمجھ بوجھ لگ گئی تو انھوں نے بختو کو وہیں الگ سے عطر کا ایک چھوٹا سا سٹال بنا دیا ، یہی سٹال بختو کا ذریعہ آمدن تھا جسے میں نے “دکان” کہا تھا ۔۔

ماں جو مجھے بہت پیار کرتی تھی جس نے مرچوں والے واقعے سے پہلے صرف دو بار مجھے مارا تھا۔پہلی بار اس وقت جب میری عمر ساڑھے تین سال تھی اور میں باہر گلی کے چھوٹے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ماں کے چیخنے چلانے کی آوز باہر گلی تک آ رہی تھی وہ ماموں بغلولی سے کسی بات پر جھگڑ رہی تھی شاید وہ خالہ کو بس میں بھیک مانگنے کے لیے ساتھ لے گیا تھا اور یہی بات جھگڑے کا باعث بنی پھر اچانک سے گھر کا دروازہ کھلا اور ماں نے غصے میں مجھے بلایا اور میرے گھر میں داخل ہوتے ہی پانی والے پائپ سے میری خوب ” دھلائی ” کی میں نہیں جانتا کہ انھوں نے ماموں بغلولی کا غصہ مجھ پر نکالا تھا یا کوئی اور وجہ تھی اور دوسری   بار تب جب اس نے مجھے سکول داخل کروانا تھا اس وقت پانچ سال کے بچوں کو سکول داخل کیا جاتا تھا اور میں چار سال کا تھا ماں مجھے ایک لڑکی کے پاس پڑھنے بھیجتی تھی ماں خود بھی پانچ چھ جماعتیں پڑھی ہوئی تھی نہ جانے اس دن اس کے دل میں کیا  آئی  کہ مجھے خود پڑھانے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔الف انار بے بکری ۔۔۔۔۔ اور جب مجھ سے یہ سبق دہرایا نہ جاتا تو وہ چھری سے میرے ہاتھوں بجانب دھار ٹھکورتی جن سے میری نازک انگلیوں پر چھوٹے چھوٹے کٹ لگ گئے تھے اور ان سے ہلکا ہلکا خون رسنے لگا ۔۔۔۔ الف انار بے بکری ۔۔۔۔۔ الف پڑھنا کوئی اتنا آسان کام نہیں ہے لوگ کہتے ہیں کہ الف حرف نہیں ہے یہ اللہ کی وحدت اور تکبر کا نشان ہے بالکل سیدھا صراطِ مستقیم کی طرح سیدھا الف پڑھتے پڑھتے لوگوں کو برسوں لگ جاتے ہیں اللہ کی وحدت یکتائی اور تکبر کی علامت جو ہر بچہ سب سے پہلے پڑھتا ہے کچھ سمجھ آ جاتا ہے اور کچھ کو سمجھنے میں برسوں لگ جاتے ہیں لیکن حرفوں اور لفظوں کے سبھی بھید الف پڑھنے کے بعد ہی کھلتے ہیں

اتنے عظیم لفظ کو پڑھنے میں تھوڑی سی مار تو کوئی بڑی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔اور یوں ماں نے مجھے چار سال کی عمر میں سکول داخل کرا دیا ۔۔۔۔۔۔ ماں نے نہ صرف مجھے سکول داخل کرایا بلکہ شام میں ٹیوشن پہ بھی بھیجنے لگی اور پھر ٹیوشن کے بعد باجی سے قرآن شریف ناظرہ کے لیے بھیجتیں،قرآن شریف شروع کرانے سے پہلے ماں نے ایک چھوٹی سی تقریب کرائی میرے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اور محلے میں مٹھائی بانٹی، ماں اکثر اولیاء اللہ کے واقعات سناتی رہتی تھی رات کو مجھے گلے لگا کر ساتھ سلاتی اور اولیاء کے واقعات سناتی رہتی ۔، میں نہیں جانتا تھا کہ اللہ کے ولی بابے فقیر درویش صوفی کیا ہوتے ہیں لیکن ماں سے ا ن کے واقعات سن سن کر مجھے یہ ادراک ہو چکا تھا کہ یہ کچھ خاص لوگ ہوتے ہیں جو لیتے نہیں دیتے ہیں جنھیں خود سے زیادہ دوسروں کی فکر ہوتی ہے جو لوگوں کہ بھلائی میں مصروف رہتے ہیں اور اللہ ان کی ضرور سنتا ہے ۔۔۔۔۔۔

یہی واقعات ماں سے سن کر میں گلی محلے میں بچوں سناتا رہتا تھا۔انہی میں ایک بچہ خالہ بشیراں کا بھی تھا، خالہ بشیراں جس کا حدود اربع تین عورتوں سے کسی بھی صورت کم نہ تھا اور چلتی تھی تو پیٹ ایسے چھلکتا تھا جیسے ٹریکٹر کی ٹیوب میں پانی بھر کر اچھالنے سے ٹیوب چھلکتی ہے اور اس کا ہاتھ ہتھوڑے سے کم نہ تھا ،گہرا سانولا رنگ چپٹا ناک پھٹی پھٹی سی آنکھیں ،اگر رات کے اندھیرے میں کسی بہادر مرد کے سامنے بھی آ جائے تو اس کی بھی چیخیں نکل جائیں،خالہ بشیراں کو اولیاء اللہ سے کوئی خاص دشمنی تھی ۔۔۔۔۔جب خالہ بشیراں کا بیٹا اسے مجھ سے سنے ہوئے اللہ والوں کے واقعات کا تذکرہ کرتا تو یہ بپھرے ہوئے بیل کی طرح گلی میں ٹکراتی پھرتی اور جہاں کہیں بھی میں ہوتا مجھے ڈھونڈ نکال کر پٹائی کرتی ۔۔۔۔۔۔ چھ سال کی عمر میں میں ناظرہ مکمل کر لیا ماں اس دن بھی بہت خوش تھی ساتھ ہی میری خالہ کی نسبت طے ہوئی تھی۔ماں نے دونوں خوشیاں   جمع  کر کے پھر ایک تقریب رکھ لی میرے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے اور محلے میں مٹھائی تقسیم کی ۔

ماں نے میری ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ روزانہ ایک پارہ ختم کر کے نانی ماں کو ایصالِ ثواب کرنا ہے لہذا میں ماں کے حکم کی تعمیل میں روزانہ کم از کم ایک پارہ پڑھتا ۔ ایک دن میں باجی کے ہاں تلاوت کر رہا تھا کہ خالہ بشیراں غصے میں اندر داخل ہوئی  اور آتے  ہی غصے سے بولی اوئے فیصل قرآن پڑھ رہا ہے چل فلاں پارہ اور فلاں آیت نکال میں نے وہ آیت نکالی تو بولی. اس کا ترجمہ پڑھ میں نے ا س کا ترجمہ پڑھا اور کسی کی سفارش قبول نہیں کرتا، اتنا پڑھنا تھا کہ وہ مجھے جھاڑنے لگی کہ دیکھو تم اولیاء اولیاء کرتے رہتے ہو جبکہ یہ میں نہیں کہہ رہی اللہ کہہ رہا قرآن میں لکھا ہے اب تم قرآن کی نہیں مانتے اللہ کی نہیں مانتے پھر اس کا سانس پھولنے لگا میں نے کہا خالہ پورا ترجمہ تو سن لے اللہ کسی کی سفارش قبول نہیں کرتا بجز ان کے جنھیں وہ چاہتا ہے ۔

خالہ یہ سنتے ہی مزید غصے سے پاگل ہو گئی  اور نتھنے پھلاتی زور زور سے پاؤں پٹختی چلی گئی۔ایک اور واقعہ جو انہی دنوں کا ہے مجھے کبھی نہیں بھولتا ۔۔۔۔۔ہمارے  گھر کی چنائی مٹی گارے سے ہوئی تھی ۔ماں نے کچھ پیسے جمع کیے تو گھر کو پلستر وغیرہ کرنے کا خیال آیا ہمارا یہ گھر داؤد کالونی میں تھا ۔گھر کی ازسرِ نو سیمنٹ سے چنائی کرنے کے لیے کچھ دن درکار تھے اور ہمیں متبادل ٹھکانہ چاہیے تھا ۔محلے ایک نہایت شریف مفتی صاحب رہتے تھے یہ ثواب کمانے کی انھوں نے ٹھانی اور ہمیں اپنے گھر سے ایک کمرہ رہنے کے لیے دے دیا ہم سب ماموں بغلولی اور ان کی بیوہ بیٹی سمیت وہاں شفٹ ہو گئے ۔۔ایک رات جب سوئے ہوئے تھے میری آنکھ کھل گئی ۔کمرے میں روشنی تھی او ایک دل دہلا دینے والا منظر میرا منتظر تھا جسے دیکھ کر انسان کا پِتہ پانی ہو جائے بڑے بڑے جگرے والوں کی لنگوٹ گیلی ہو جائے اور تھوڑ دِلے تو سفرِ آخرت پر روانہ ہو جائیں اک قیامت تھی جو میری منتظر تھی ۔۔سامنے دیوار پر ماموں بغلولی کا سر الگ ٹانگیں الگ ہاتھ الگ دل الگ اور جسم کے مختلف اعضاء لٹک یا چپک رہے تھے میں بہت حیران ہوا لیکن یہ عجیب منظر دیکھنے کی مجھ میں تاب بھی نہ تھی  میں پھر آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا اور آخر کار نیند نے مجھے آ لیا صبح جب آنکھ کھلی تو ماموں بغلولی ٹھیک صحیح سالم موجود تھے ۔۔۔۔۔آج تک اس بات کا ذکر میں نے کسی سے نہیں کیا ۔۔۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ خواب ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ میں نے اپنے پورے ہوش و حواس میں جاگتی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

راجہ محمد احسان
ہم ساده لوح زنده دل جذباتی سے انسان ہیں پیار کرتے ہیں آدمیت اور خدا کی خدائی سے،چھیڑتے ہیں نہ چھوڑتے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply