محبت کُھرک ہے،سے اقتباس۔۔۔۔سلیم مرزا

جب میں تقریباًًً مرنے والا ہو گیا تو ڈاکٹر کی چھابے والے پہ نظر پڑی
بنکاک شہر میں اسے دیکھ کر میں حیران کم خوش زیادہ ہوا ۔
آپ اگر میری عمر کے ہیں تو آپ نے بھی اسے بچپن میں دیکھا ہوگا ،ہوسکتا ہے آپ نے کچھ اور بھی دیکھا ہو ۔
ایک لمبے بانس کے دونوں طرف دو چھابے سے بندھے ہوتے ہیں جنہیں کندھے پہ لٹکائے، گچک ۔میٹھے چنے اور مرونڈا وغیرہ بیچتے تھے
اب بچوں کیلئے زیادہ ورائٹی ہے ۔اور بڑوں کیلئے وہی ایک جیسے بچے ۔ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔
پہلے صرف گھر میں پیدا ہوتے تھے، اب ہرہسپتال میں ۔
بقول ڈاکٹر جو ہسپتال میں پیدا ہوگا، وہ خاک صحتمند ہوگا؟
اسے تو اپنی جنم بھومی سے ہی محبت ہوگی ۔
میں لپک کر اس چھابے کے پاس پہنچا ۔دیکھ کر مایوسی ہوئی ۔اس کے چھابوں میں ریت تھی، اور ریت کے اوپر انڈے،
انڈوں کے اوپر سے مرغیاں اٹھ کر شاید دھندہ کرنے گئی ہونگی ۔
محبت ان کے ہاں انڈسٹری کا درجہ رکھتی ہے ۔
بنکاک میں ککڑی کے قد جتنی لڑکیاں تو میں نے خود دیکھیں ۔
“ان کے انڈے نہ ہوں ”
میں نے شیطانی خیال کو جھٹکا،
“عورت ممالیہ ہوتی ہے ”
میرے واپس مڑنے سے بیشتر ہی ڈاکٹر نے اس سے معلوم کر لیا، کہ وہ بوائل انڈے تھے ۔
اور وجہ تولید عین فطری تھی، یعنی مرغی کے تھے،
بھوک بہت احمق ہوتی ہے ۔ کسی کے بھی چھابے میں ہاتھ مار سکتی ہے ۔کچھوے کے بھی ہوسکتے تھے
اگلے چھابے والے ،ایک بھات کے دو تھے، اور پچھلے چھابے والے دو بھات کا ایک ۔
دس بھات کے پانچ انڈے خرید تو لئے ۔مگر تین کون لے گا؟
“جو جلدی پہلا کھائے گا۔”
میں نے تیزی سے چھیلا ۔ابھی آدھا ہی چھلا کہ احساس، ہوگیا ۔
انڈہ گندہ تھا ۔بیچ میں کسی حیات کی نوید تھی ۔
میں نے مرغی کا مس کیرج کر دیا ۔۔۔۔؟
یہی حال حکیم کے چھلے ہوئے انڈے کا بھی تھا ۔
ادھر سے بھی ابارشن کی نوید تھی ۔
“یہ تو گندے ہیں ۔”
ةم دونوں نے انڈے ایک ساتھ چھابے والے کو معائنے کے لیے  پیش کئے ۔
اس نے اطمینان سے انہیں اپنی بنٹے جیسی آنکھوں سے دیکھا اور کہا کہ بہترین ہیں کھا جاؤ۔
چار پانچ منٹ کی بحث کے دوران میں نے راہ چلتے ایک معزز تھائی کو روکا  تو اس نے خوش ہوکر البم نکال لیا،
میں نے اسے پیار سے بتایا کہ بھائی محبت تک اس  وقت پہنچیں گے جب چلنے پھرنے کے قابل ہوں گے
بس یہ احسان کرو اور اس چھابے والے کو بتاؤ، پردیسیوں کو مت لوٹے ۔ہم تو خود لٹنے آئے ہیں ۔
اس چھوٹے قد والے نے انڈہ  میرے ہاتھ سے لیکر معائنہ کیا،
“یہ تو بہترین ہے ”
“تم کھا سکتے ہو یہ؟ “ڈاکٹر تقریبا ًًً چلا کر بولا
اس سے پہلے میں کچھ کہتا وہ مزے سے گندہ انڈہ  کھا کر چلتا بنا۔
اب بحث میں شدت آگئی ۔اتنے میں ایک پیاری سی لڑکی انڈے خریدنے آگئی ۔
ڈاکٹر نے فوراًً اسے انڈہ دکھا کر متنبہ کیا ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ شاید انگلش کم سمجھتی تھی ۔
اس نے شکریہ ادا کیا، اور ابارشن والا انڈہ وہ کھا گئی ۔
تیرہ منٹ کی بحث کے بعد پتہ چلا زندہ انڈہ مہنگا ہے، اور مردار سستا ۔۔
ہم نےزندگی کے بنا سادہ انڈے خریدے، کیونکہ وہ باقی پیسے دینے سے مکر گیاتھا، اور ایک فٹ پاتھ پہ بیٹھ کر  انڈے ہاتھ میں پکڑ کر سوچنے لگے ۔
“انڈوں کا کیا ہوگا “؟
(محبت کھرک ہے، سے اقتباس)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply