اسے پچھلے دنوں چوہدری نیاز سے ملاقات یاد آگئی چوہدری نیاز نے بھی اس علاقے کی محرومیوں کا کھل کر ذکر کیا اور اس پسماندگی کا ذمہ دار ملک افضل کو ٹھہرایا تھا۔
موسم آج بے حد خوشگوار تھا وہ اپنے گھر سے باہر نکلا تو اسے ایک طرف سے اختر اور جیدا آتے نظر آئے وہ دونوں اس کے بچپن کے ساتھی تھے پاس پہنچتے ہی اختر بولا
کیسے ہو تیمور ہم دونوں نہر کی طرف جا رہے تھے سوچا تمہیں بھی پوچھ لیں ۔چلو گے.؟
ہاں ضرور یار میں بھی بور ہی ہورہا تھا اچھا ہوا تم ادھر آ گئے۔۔،وہ نہر والے راستے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بولا۔
ایک بات تو بتاو تیمور اپنی تعلیم تو تم نے مکمل کر لی اب آگے کیا ارادہ ہے واپس شہر جاو گے یا اپنی زمینیں سنبھالنی ہیں۔۔جیدا اسکے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا۔
فی الحال تو بابا کا حکم ہے کہ آرام کرو کچھ عرصے بعد دیکھیں گے کیا کرنا ہے ویسے آج موسم بہت اچھا ہے لگتا ہے بارش ضرور ہو گی۔۔اس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
ہاں بہت دنوں سے گرمی بہت تیز ہے بارش ہو تو اچھا ہی ہے گرمی تھوڑی کم ہو جائے گی۔۔جیدا بولا۔
نہر کے پاس پہنچ کر ایک صاف جگہ دیکھ کر وہ تینوں بیٹھ گئے۔
گلابو ۔۔۔شجاعت بشیر عباسی/قسط1
دور بہت سے بچے آپس میں گلی ڈنڈا کھیل رہے تھے ان کے شور شرابے کی آواز ان کے کانوں تک بھی پہنچ رہی تھی۔
الیکشن بھی آنے والے ہیں ضرور اس بار بھی اپنے ملک صاحب ہی جیتیں گے۔۔اختر پانی پر کنکریاں پھینکتے ہوئے بولا
ہاں اور نہیں تو کیا اپنے ملک صاحب کے مقابلے میں اور کون جیت سکتا ہے چوہدری نیاز میں اتنا دم نہیں کہ وہ ملک صاحب کو ہرا سکے اسے تو اپنے گاوں والے بھی ووٹ نہیں دیتے۔۔جیدا اختر کی تائید کرتے ہوئے بولا۔
لیکن یار یہاں تو کوئی بہتری نہیں دکھائی دی ملک صاحب کے ہر بار جیتنے کے باوجود بھی ۔۔تیمور دونوں کی طرف سوالیہ انداز سے دیکھتے ہوئے بولا۔
کیسی بات کر رہے ہو یار اپنے ملک صاحب سب کا خیال رکھتے ہیں میری شادی میں بھی مجھے پورے بیس ہزار دیے تھے سینکڑوں لوگ ان کی زمینوں پر کام کرتے ہیں ان سب کا خیال رکھتے ہیں ملک صاحب سب کے د کھ درد میں شامل رہتے ہیں جیدا عقیدت سے بولا۔۔
اچھا چھوڑو ان باتوں کو بادل بہت گہرے ہو رہے ہیں لگتا ہے بارش جلد ہی شروع ہونے والی ہے چلو واپس چلتے ہیں گھر۔۔تیمور اٹھتے ہوئے بولا
وہ دونوں بھی اسکے ساتھ ہی اٹھ گئے
ہوا کافی تیز ہو رہی تھی موسم کافی عرصہ خشک رہا تھا اس لیے گردوغبار بھی اٹھنے لگا تھا وہ ابھی کچھ ہی دور گئے تھے کہ اچانک تیز موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔
تیمور تم کچھ دیر ماسٹر لطیف کے گھر ہی رک جاو بارش کم ہو جائے تو گھر چلے جانا ہم نے ڈیرے کی طرف جانا ہے دوڑ کے پہنچ جائیں گے۔۔جیدے نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اونچی آواز میں کہا۔
ماسٹر لطیف کا گھر سامنے ہی تھا اس نے ایک لمحے کے لیے سوچا پھر قدم ماسٹر لطیف کے گھر کی طرف بڑھا دیے۔
اس نے دستک دی جب تک دروازہ کھلتا تب تک وہ بری طرح سے بھیگ چکا تھا بارش بہت تیز ہو رہی تھی۔
دروازہ کھلنے کی آواز سن کر اس نے سامنے دیکھا جہاں ادھ کھلے دروازے سے چھتری تھامے ایک چاند چہرہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ جیسے اپنی نظریں ہٹانا ہی بھول گیا عجیب منظر تھا چھتری سے گرتی پانی کی دھاروں کے پیچھے حسین چہرے نے اسے جیسے مبہوت کر دیا ہو۔اسے اس کے یاقوتی ہونٹ ہلتے نظر آئے شاید وہ کچھ کہہ رہی تھی لیکن تیمور ٹکٹی باندھے اسے دیکھے جا رہا تھا۔
کون ہے بیٹا۔۔اسے اس پری چہرے کے عقب سے آواز سنائی دی تو وہ چونک کر واپس اپنے حواس میں آ گیا۔
ماسٹر صاحب میں تیمور ہوں نہر سے واپسی پر بارش تیز ہو گئی تو اس طرف آگیا۔وہ اونچی آواز میں بولا
جلدی سے اندر آ جائیں وہ بولی اور اسے راستہ دیتی ہوئی ایک طرف ہو گئی تو نظریں جھکائے شرمندہ سا ہو کر وہ اندر داخل ہو گیا۔
ماسٹر صاحب برآمدے میں کھڑے تھے بولے
آو بیٹا جلدی سے اندر آ جاو اور اسے ساتھ لے کر گھر کے اندر آ گئے
تیمور بری طرح سے بھیگ چکا تھا اسکی حالت دیکھتے ہوئے انہوں نے آواز لگائی
گلابو بیٹا الماری سے میرے کپڑے نکال کر لاو۔
اچھا بابا ابھی لائی
وہ کپڑے اور تولیہ چھوڑ کر واپس مڑی تو ماسٹر صاحب بھی تیمور کو کپڑے بدلنے کی ہدایت کرتے ہوئے باہر چل دیے۔
تیمور نے جلدی سے کپڑے بدلے اور تولیے سے بال خشک کر کے کمرے میں بچھی رنگین چارپائی پر بیٹھ گیا۔
کپڑے کچھ تنگ تھے اور قدرے چھوٹے بھی لیکن اس وقت یہ بھی غنیمت تھے۔
گلابو ۔۔۔اس کے ذہن میں نام گونجا تو اسے یکدم بچپن یاد آگیا جب بھی وہ اور اس کے دوست نہر کنارے جایا کرتے وہ موٹی سی بچی اسے اکثر صحن میں کھیلتی نظر آیا کرتی تھی۔
پھر اسے ایک اور منظر یاد آیا جب ماسٹر صاحب کی گھر والی کی فوتگی پر اپنی ماں کے ساتھ جب وہ یہاں آیا تھا۔روتی چیختی چھوٹی سی گلابو کی آہ و بکا نے سب کو بہت رلایا تھا۔
کچھ دیر بعد ماسٹر صاحب واپس لوٹ آئے اور اس کے پاس بیٹھ گئے
کیسے ہو بیٹا۔۔وہ بولے
ٹھیک ہوں ماسٹر جی آپ سنائیں۔۔وہ ماسٹر صاحب کی طرف دیکھتے ہوا بولا۔
جی رہے ہیں بیٹا یہی کافی ہے ۔صالح کیسا ہے ؟
بابا بھی ٹھیک ہیں ماسٹر جی۔۔اس نے جیسے ہی جواب دیا دروازہ کھلا گلابو چائے بسکٹ ٹرے میں لیے اندر داخل ہوئی اور اس کے سامنے ٹیبل پر برتن سجانے لگی۔
تیمور نظریں بچا کر اسے دیکھتا رہا وہ واقعی بے انتہا خوبصورت تھی اسکے دل کی حالت بری ہو رہی تھی اس نے بے چین ہو کر اپنا رخ ماسٹر صاحب کی طرف پھیر لیا
ماسٹر صاحب نے اسے چائے لینے کا بولا تو اس نے شکریہ کہتے ہوئے چائے اٹھائی اور آرام آرام سے چائے پینے لگا۔ جب وہ دشمن جاں کمرے سے چلی گئی تو ماسٹر صاحب گویا ہوئے۔
بیٹا بارش ابھی تک نہیں رکی تم تھوڑی دیر آرام کرو میں نماز، پڑھ کر آتا ہوں۔۔یہ کہتے ہوئے ماسٹر صاحب چھڑی کا سہارہ لیتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایکبار پھر اسے آرام کی تاکید کرتے ہوئے کمرے سے باہر چل دیے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں