بنیادی طور پر سلوک و احسان کو جانے والے تین راستے ہیں۔
ایک راستہ معروف ہے ، اس میں زیادہ پیچیدگیاں ، اور خطرات بھی نہیں ہیں ، اس لیے روز اول سے یہ زیادہ مستعمل ہے۔ اس راستے پر چلنے والے صاحبانِ دل “اہلِ حال” کہلاتے ہیں۔ اپنے طریق اور اپنے احوال و کرامات سے عوام میں یہی زیادہ مشہور ہیں۔ جیسے لاہور میں حضرت علی ہجویری (گنج بخش) ، اجمیر میں حضرت معین الدین چشتی اجمیری ، پاکپتن میں حضرت فریدالدین مسعود (گنج شکر) رحمۃ اللہ علیہم اجمعین اور دیگر بے شمار اولیائے کرام ہیں۔
دوسرا راستہ بظاہر تو آسان سا ہے ، لیکن اس میں پیچیدگیاں اور خطرات بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے عام سالکین کو اس راستے پہ چلنے کی ترغیب نہیں دی جاتی۔ اس راستے پر چلنے والے صاحبانِ دل کا طریق اور احوال “اہلِ حال”سے یکسر مختلف ہونے اور کرامات والی شو شا کی نایابی کے باعث عوام کی اکثریت انہیں صوفی سمجھنے سے ہچکچاتی ہے۔ یہ “اہلِ معقول” کا راستہ ہے۔ معقولی صوفیا میں شیخ الرئیس بو علی سینا ، علامہ فارابی ، اور میرزا غالب رحمۃ اللہ علیہم اجمعین اور بہت سی شخصیات شامل ہیں۔
تیسرا راستہ سب سے مشکل ، سب سے سخت اور مذکورہ بالا دونوں راستوں سے زیادہ خطرات سے پُر ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ آگ کا دریا ہے ، جس پر پل بھی کوئی نہیں ہے ، اور اس میں سے تیر کر پار جانا پڑتا ہے۔ یہ “اہلِ جذب” کا راستہ ہے۔ ان کا طریق ، ان کے احوال مذکورہ بالا دونوں راستوں کے سالکین ومحسنین سے یکسرمختلف ہیں۔ اس راستے پہ صرف خطروں کے کھلاڑی اور جانباز ہی چلنا پسند کرتے ہیں۔ عوام میں یہ جوگی ، مجذوب اور قلندر کہلاتے ہیں۔ حضرت حسین بن منصور حلاج ، حضرت عثمان مروندی (لعل شہباز قلندر) ، حضرت جلال الدین بخاری (سرخپوش) ، حضرت عماد الدین (چنن پیر) رحمۃ اللہ علہیم اجمعین اور دیگر بہت سے مجاذیب و قلندر اس راہ کے شہسوار ہیں۔
راقم الحروف کو دوسروں سے سنی مجہول خبروں اور کتابوں میں لکھی بے معنیٰ باتوں سے زیادہ اپنے اساتذہ سے ملی رہنمائی اور اپنے ذاتی مشاہدے پر زیادہ یقین ہے۔ بے شک برصغیر پاک و ہند کے باشندوں میں خوش عقیدگی کا لیول ضرورت سے زیادہ ہے۔ اور اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر بہت سے ڈھونگی اور مداری صفت شعبدہ باز ، پیر و صوفی بنے پھرتے ہیں۔ اور بہت سے نوسر باز کہیں نہ کہیں مزار کی صورت دکان سجا کے بیٹھے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کالی بھیڑوں کی وجہ سے تمام حقیقی اولیاءاللہ کی عظمت کا بھی انکار کردیا جائے۔ اگر کوئی حقیقی ولی اللہ اور فراڈ میں فرق نہیں سمجھ پاتا تو اسے اپنی کم علمی کی فکر کرنی چاہیے نہ کہ وہ قرآن و سنت پہ مبنی سلوک و احسان (تصوف) کا منکر ہو رہے۔ اس باب میں خاک نشین جوگی کا مشاہدہ قارئین کی نذر ہے۔
حقیقی اولیائے کرام اپنی طرف نہیں اللہ کی طرف دعوت دیتے تھے ، دیتے ہیں۔ اس نشانی کا مشاہدہ ہرحقیقی ولی اللہ کے مزار پر کیا جاسکتا ہے۔ حضرت علی ہجویری کے مزار سے متصل مسجد ہے۔ گولڑہ شریف میں مزار کے ساتھ مسجد موجود ہے۔ اُچ شریف میں حضرت جلال الدین بخاری (سرخپوش) کا مزار و مسجد متصل ہیں۔ قادر بخش شریف (کمالیہ ) میں ، موہڑہ شریف (مری) میں ، خانقاہ شریف(بہاولپور) میں، حضرت شیخ احمد کبیر (دھنوٹ) میں غرض کہ جہاں جہاں بھی ہمیں کسی فیض رساں ولی اللہ کے مزار پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ، ہم نے وہاں مزار کے ساتھ مسجد بھی پائی۔ اور عین یہی نشانی ہمیں بہاولپور و یزمان جیسے شہروں سے دور ، صحرا میں آرام فرما حضرت چنن پیر کے مزار پر بھی دکھائی دی۔
دنیا کو دیکھیں ، دنیا دار اس پہ لپک لپک آتے ہیں۔ رونقوں کی تلاش میں سب شہروں کی طرف بھاگتے ہیں ، مل جل کر شہر آباد کرتے ہیں ، اور ایک دوسرے کیلئے رونق کا احساس بنتے ہیں ، پھر بھی اندر سے خالی کھنڈر پھرتے ہیں۔ اللہ والوں کی ادا نرالی ہے۔ وہ جہاں موجود ہوں ، دنیا والے ہی نہیں دنیا بھی ان کی طرف لپک لپک پڑتی ہے۔ وہ کہیں بھی جا کر بیٹھ جائیں ، رونقیں اسی طرف چل پڑتی ہیں۔
چنن پیر کو ہی دیکھ لیں۔ بہاولپور سے 64 کلومیٹر اور یزمان سے تقریباً تیس کلومیٹر دور صحرا کے بیچوں بیچ ڈیرہ ڈال لیا تو رونقیں یہیں چلی آئیں۔ ہم دربار پہ پہنچے تو رات کے دس بج رہے تھے۔ لیکن روہی میں انسانوں سے آباد یہ آخری گاؤں ، اور گاؤں سے ہٹ کر ریت کے ایک ٹیلے پہ واقع اس دربار پہ بہاولپور ، لاہور جیسے شہروں سے زیادہ رونق تھی۔ رات کا دوسرا پہر تھا لیکن چہل پہل کا یہ عالم تھا کہ گویا دن کا دوسرا پہر ہو۔ لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ جمع ہیں۔ رنگ و نور کا ایک سیلاب ہے جو ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ صحرا کی اس ریت میں کوئی تو قوتِ کشش ہے ، جو یہ اتنے سارے لوگ دور دور سے کھنچے چلے آئے ہیں۔
مزار کے احاطے میں ایک طرف ڈھول بج رہا تھا اورجھمر کا پِڑ سجا ہوا تھا۔ کامران اسلم نے کہا:۔ “دیکھیے یہ روہی کا رنگ ہے۔” اورہمیں باور آیا کہ ہمارے طرزِ تعمیر میں ہی نہیں ، ہماری ثقافت و زبان میں ہی نہیں ہماری ہر ادا میں سرائیکیت ہے۔ ایک پُرکار سادگی ہے۔ دیکھنے میں سادہ سے دو تین سٹیپ پرمشتمل جھمر کو رقص کا سہلِ الممتنع کہا جائے تو چنداں مبالغہ نہ ہوگا۔ قریب سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ چند بے فکرے بازو اور پاؤں ہلاتے ہوئے دائرے میں سرکتے جا رہے ہیں۔ دور سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کنول کا کوئی جادوئی پھول ہے ، جس کی پتیاں بار بار کھل رہی ہیں اور بند ہو رہی ہیں اور وہ گول گول گھوم بھی رہا ہے۔ اس جھمر کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں شامل ہونے کا کوئی خاص مقام یا وقت نہیں ہے۔ جاری جھمر میں آکر کوئی بھی کہیں سے بھی شامل ہوتا جائے ، جھمر کی حرکیات اسے اپنے اندر سمو لیتی ہیں۔
ہمارے سامنے زندہ دلانِ روہی ایک دائرے کی صورت جھمرکھیل رہے تھے۔ گھنٹہ بھر جاری رہنے والی اس جھمر میں لوگ شامل ہوتے گئے ، اور غیرمحسوس طور پر دائرہ وسیع ہوتا گیا ، جھمر کی حرکیات اورجھومریوں کے نظم میں ذرا بھی فرق نہ آیا۔ جوتھکتے گئے وہ بھی غیر محسوس انداز میں نکلتے گئے۔ ہم خاصی دیر سحرزدہ سے کھڑے یہ جھمر دیکھتے رہے۔ پھر کامران اسلم کے توجہ دلانے پر آگے بڑھے اور مسجد کے صحن سے گزر کر مزار کی طرف چلے آئے۔
چنن پیر
سرائیکی وسیب اور بالخصوص روہی کی پہچان چنن پیر درگاہ میں بھی وہی سرائیکیت جھلکتی ہے۔ یہاں عمومی مزارات کی طرح مخصوص طرز کی تربت نہیں ہے ، نہ ہی اس پر کوئی عمارت یا گنبد تعمیر شدہ ہے۔ ریت کا ایک چھوٹا سا ٹبہ ہے ، جسے پختہ اینٹوں سے بنا ایک دائرہ محیط کیے ہوئے ہے۔ یہی چنن پیر کی آخری آرام گاہ ہے۔
گزشتہ پانچ سو سال کے دوران اہلِ روہی یہاں روایتی قسم کا گنبد دار مزار یا پختہ عمارت تعمیر کرنے کا شوق پورا کرتے چلے آ رہے تھے ، اور ہر بار تعمیر ہو چکنے کے اگلے ہی دن پراسرار طور پر عمارت خود بخود گر کر ان کے شوق کا منہ چڑاتی چلی آئی ہے۔ پانچ سو سال کی مسلسل ناکام کوششوں کے بعد اہلِ روہی نے مجذوب کی مان لی ، اور یہاں کوئی روایتی قسم کی عمارت تعمیر کرنے سے باز آ گئے۔ مزید ایک سو سال تک یہاں کچی اینٹوں سے بنی ایک مسجد اور ریت کا ٹیلہ بغیر گنبد اور بغیر چھت کے کھلے آسمان کے نیچے مرجع خلائق رہا۔ کچھ عرصہ پہلے جب مسجد کو از سرِ نو کنکریٹ اور سنگِ مرمر سے تعمیر کیا گیا تو مزار سے کچھ فاصلہ رکھ کر اس کے گردا گرد پختہ ستون استوار کرکے ان پہ فائبر کا بنا ایک سبز رنگ کا گنبد ایستادہ کردیا گیا۔
چنن پیر کے بارے روہیلوں کے پاس سینہ در سینہ چلی آئی روایات ہیں ، جو تھوڑے بہت اختلاف کے علاوہ ایک جیسی ہیں۔ چنن پیر کے سوانح اور تذکرے بدقسمتی سے ان لوگوں نے لکھ ڈالے ہیں ، جنہیں روہی ، روہیلوں ، اور سرائیکی وسیب و ثقافت سے کوئی علاقہ نہیں تھا۔
اولیائے کرام کے نصاب میں ایک سبجیکٹ “سیرو فی الارض”ہے۔ اور قلندروں کا امتیازی نشان ہی یہی ہے۔ بخارا سے حضرت جلال الدین بخاری (سرخپوش) اس سبجیکٹ کی تعلیم پانے نکلے اور اس سیرفی الارض کے دوران وہ اس علاقے سے بھی گزرے۔ یہ علاقہ اس زمانے میں ریاست جیسلمیر کی حدود میں تھا۔ ان دنوں جیسلمیر پر راجہ سدھارن کی حکومت تھی۔ حضرت سرخ پوش نے کسی سے دریافت کیا ، یہاں مسلمان بھی رہتے ہیں۔ جواب ملا یہاں سب ہندو ہیں۔ فرمایا :۔ عنقریب اس علاقے کا پہلا مسلمان پیدا ہوگا۔ قلندر کی یہ بات کسی نے درخوراعتناء نہ جانی۔ کچھ عرصہ بعد ریاست کی رانی کا ایک لڑکا پیدا ہوا ، جس کی خوبصورتی کی وجہ سے اس کے اصل نام کی بجائے اس کی عرفیت زیادہ مشہور ہو گئی۔ چنن دراصل سرائیکی لفظ چانن (نور / چاندنی) کی ایک بگڑی صورت ہے۔ جو کثرتِ استعمال سے چنن رہ گیا۔ جیسلمیر کا شہزادہ بڑا ہوا ، تو قدرتی طور پر وہ ایک اجنبی زبان (عربی) میں کچھ الفاظ ادا کرنے لگا۔ ہوتے ہوتے یہ بات مشہور ہو گئی کہ راجہ کا وارث دھرم کا باغی ہے۔ اور اس پہ شیطانی آتماؤں کا سایہ ہے۔ ریاست کے امراء میں جب بے چینی کے آثار نمودار ہوئے ، اور راجہ کو محسوس ہوا کہ میرے خلاف سازش و بغاوت ہونے کو ہے ، تو اس نے اولاد سے زیادہ حکومت بچانے کو ترجیح دی۔ اور شہزادے کے قتل کا حکم جاری کردیا۔ شہزادے کی ماں آڑے آئی ، اور بحث و ترلے اس فیصلے پر منتج ہوئے کہ اولاد کا خون سر پہ لینے کی بجائے ، راجہ اسے ریاست کے دور دراز مقام پر پھنکوا دے۔ اگر زندگی ہوئی تو بچ جائے گا ، ورنہ صحرا کی سختی اسے مار ڈالے گی۔ ننھے شہزادے کو روہی میں اس مقام پر پھینک دیا گیا۔ جسے اللہ رکھے ، اسے کون چکھے۔ جو خدا صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کو 12 چشمے ، من و سلویٰ اور بادل کا سایہ بھیج کر بچاتا رہا ، اس نے صحرائے روہی میں بھی اپنے ایک بندے کی جان بچائی۔ ایک بار کسی گڈریے نے صحرائی ہرنی کا ایک انسانی بچے کو دودھ پلانے کا منظر دیکھا تو وہ اسے کوئی اوتارسمجھ کر گھر لے گیا ، اور ثواب سمجھ کر پرورش کی۔
شعورسنبھالنے پر روح کی کشش اور دل کا خلا چنن کو اُچ شریف لے گیا۔ جہاں حضرت جلال الدین بخاری کے پوتے حضرت جلال الدین (جہانیاں جہانگشت) کے زیر سایہ ان کی دینی و روحانی تربیت ہوئی۔ بعد ازاں مرشد کی اجازت سے یہاں لوٹ آئے ، اور اپنی مبلغانہ مساعی سے آس پاس کے سینکڑوں لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ وفات ہوئی تو ان کی تاکید کے مطابق انہیں اسی ٹیلے پر دفن کیا گیا۔ جہاں گزشتہ چھ سو سال سے کوئی عمارت تعمیر کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی۔
سینہ بہ سینہ چلی آتی روایات کے اس خلاصے کے علاوہ ، بڑے بڑے شہروں میں پیدا ہو کر بڑی یونیورسٹیوں کی لائبریریوں میں کتابوں سے رٹے مار کر ماہرِ آثاریات بن جانے والوں کے بھی کچھ اندازے مارکیٹ میں موجود ہیں۔ انصاف کا تقاضا ہے وہ بھی بیان کر دیے جائیں۔ تاکہ جس کو جو روایت موافق آئے ، وہ اسی پہ ہی پکا ہو جائے۔
ماہرینِ آثاریات کا ایک اندازہ یہ ہے کہ ہندوؤں کے ہاں چاند کو ہمیشہ سے دیوتا کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس علاقے کی زبان چونکہ سرائیکی ہے ، لہذا یہاں کے سرائیکی بولنے والے ہندو باشندے اسے چنن دیوتا کہتے تھے اور ہر سال موسم بہار میں اس کا تہوار مناتے تھے۔ اسلام آنے کے بعد اس ٹیلے میں ایک بزرگ کو فرض کرلیا گیا ، اور چنن دیوتا سے چنن پیر ہو گیا۔
دوسرا اندازہ بھی کچھ اسی قسم کا دورازکار ہے۔ چونکہ دریائے ہاکڑہ خشک ہونے اور اس کے معاون دریاؤں کے سندھ میں جا گرنے سے پہلے یہ علاقہ سرسبز و شاداب تھا۔ یہاں کے باشندے دھرتی دیوی کی پوجا کیلئے ایک ٹیلے پر تہوار مناتے تھے۔ لہذا اسلام کی آمد کے بعد اس تہوار کو اسلامائز کرلیا گیا۔
لیکن ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ ثقافتیں اور تہوار ایسے نام نہاد ماہرین کے اندازوں کی محتاج نہیں ہوتے۔ کیونکہ اگر سائنس اور ایوی ایشن (ہوا بازی) کے اصولوں کو مدنظر رکھا جائے ، تو شہد کی مکھیاں اڑ ہی نہیں سکتیں ، کیونکہ ان کے پر ان کے جسم کی نسبت چھوٹے اور جسم پروں کی نسبت زیادہ بھاری ہیں۔ لیکن پھر بھی شہد کی مکھیاں سائنس اور ایوی ایشن کے تمام اصولوں کا منہ چڑاتے ہوئے کروڑہا سال سے اڑ رہی ہیں۔
اگر چنن پیر تربت کی ساخت روایتی طرز کے مطابق نہ ہونے کے سبب ماہرین نے یہ اندازے گھڑ لیے ہیں ، کہ یہاں چنن دیوتا اور دھرتی دیوی کے تہوار منائے جاتے تھے۔ تو اسی طرح کا ایک مزار دہلی میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے۔ اس پر بھی ماہرین کو کچھ اندازے وغیرہ لگانے چاہییں۔
٭٭عرس و میلہ٭٭
ہر سال موسم ِسرما کے اختتام اور موسم گرما کے آغاز کے درمیانی مختصرعرصہِ موسمِ بہار میں یہاں چنن پیر کا عرس و میلہ منعقد ہوتا ہے۔ یہ عرس بھی پاکستان بھر میں اپنی نوعیت کا اکلوتا عرس ہے۔ جو مسلسل سات جمعراتوں تک جاری رہتا ہے۔ اس کا آغاز ماہِ چیت (فروری کی آخری جمعرات ) سے ہوتا ہے ، اور پھر سات ہفتے تک جاری رہتا ہے۔ ان سات میں سے پانچویں ہفتے کی جمعرات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس دن بہاولپور میں ضلعی سطح پرسرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ میلے کے ان سات ہفتوں میں ساری روہی اور اس کے رنگ چنن پیر میں سمٹ آتے ہیں۔ یہ سرائیکی وسیب میں امن و سلامتی کی علامت اور انسانیت و بھائی چارے کا مرکز ہے۔ یہاں صرف مسلمان ہی نہیں ہندو ، اور عیسائی مذہب کے پیروکاربھی یکساں عقیدت سے حاضر ہوتے ہیں۔
چنن پیر میلہ روہی کی ثقافتی روح ہے۔ سال بھر سے بھوک پیاس اور دھوپ کا سیک جھیلتے روہیلے ان سات ہفتوں میں گویا اگلے سال کیلئے پھر چارج ہوجاتے ہیں۔ شہروں میں رہنے والے ، جنہوں نے اس صحرا میں ایک دن بھی نہیں گزارا وہ انٹر نیٹ پہ بلاگز پڑھ کر اور دو چار کتابوں سے ماخوذ علم کی بناپر نہ تو روہیلہ ثقافت میں چنن پیر کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں ، نہ ہی روہیلوں کی زندگی میں اس میلے سے پیدا ہونے والی خوشیوں اور اس کے مثبت اثرات کو محسوس کر سکتے ہیں۔ اس سولہ ہزار مربع کلومیٹر پھیلے صحرا میں جہاں نہ کوئی سٹیڈیم ، نہ کوئی پارک ، نہ کوئی تھیڑ ، نہ کوئی سینما موجود ہے ، چنن پیر کا میلہ روہی والوں کی اکلوتی خوشی ہے۔روہی اور روہیلوں سے ان کی یہ اکلوتی خوشی نہ چھینی جائے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں