یونیورسٹی میں حاضری بہت کم تھی۔ زیادہ تر طالبعلموں نے میک اپ لیکچر کی بجائے اپنے تھیسس مکمل کرنے کا پروگرام بنایا تھا شائد۔ ہم سات افراد پروفیسر کے انتظار میں اپنے اپنے موبائل پر مصروف تھے کہ ہمیں پتہ ہی نہ چلا کب پروفیسر گبسنؔ پچھلے دروازے سے داخل ہوئے اور ہمارے پاس سے گزرتے ہوئے اب وہ روسٹرم کے قریب کھڑے ہمیں گھور رہے تھے۔
“لگتا ہے آپ لوگوں کو پڑھائی کے علاوہ کوئی کام نہیں؟ پروفیسر نے اپنے مذاق پر خود ہی قہقہہ لگایا۔ تین چینی لڑکیوں نے اپنے اپنے ٹیبلٹ سے نظریں اٹھا کر پروفیسر کو گھورنا شروع کر دیا۔ وہ سب سے اگلی قطار میں بیٹھی تھیں۔مجھ سے اگلی قطار میں ایک کالا شائد اپنی گرل فرینڈ کو ساتھ لایا تھا کہ وہ گوری ہماری کلاس کی نہیں لگ رہی تھی۔ اور میں جو سب سے پچھلی قطار میں بیٹھا تھا۔ میرے ساتھ یونان کی رودوپیؔ بیٹھی ہوئی تھی۔ اب ہم ساتوں پروفیسر کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔ انگلینڈ کے شہر لیسٹر کی یونیورسٹی میں یہ اس سمسٹر کا آخری لیکچر تھا۔ پروفیسر گبسن ابلاغیات کی اس کلاس کو تہذیبی انفرادیت اور ہم آہنگی پڑھایا کرتے تھے۔
“آج چونکہ تعداد کم ہے اسلیے میں لیکچر کی بجائے سوالات سے شروع کروں گا”، پروفیسر نے ہم سب کی طرف باری باری دیکھا، اور وہ تینوں چینی لڑکیاں پیچھے مڑ کر مجھے گھورنے لگ گئیں۔ یہ بحرحال حقیقت تھی کہ میں سوال پوچھنے میں بدنام تھا۔ ہر لیکچر کے آخر میں میرا ہاتھ ہمیشہ ہوامیں ہوتا تھا، سوال پوچھنے کے لیے۔
“پروفیسر گبسن!”، میں نے کھنکار کر اپنا گلا صاف کیا ، “آپ نے پچھلے لیکچر میں کہا تھا کہ سوچ بھی ایک لباس کی طرح ہوتی ہے، اس بات کی اگر تھوڑی تفصیل دے دیں تو ۔ ۔ ۔ “
پروفیسر نے پروجیکٹر کا بٹن دبا کر آف کردیا کہ آج اسکا کوئی کام نہیں تھا، اور مڑ کر میری طرف دیکھ کر مسکرایا۔ “مسٹر محمود! آپ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ مجھے یہ ضرور کہنے دیں کہ پاکستان کے لوگ بہت ہشیار اور زہین ہوتے ہیں۔ اسلیے میں یہ چاہوں گا کہ اس بات کی تفصیل ہم سب ملکر تلاش کریں۔”، اس نے باقی سب کی طرف دیکھ کر فقرہ مکمل کیا۔
“سر ! سوچ ہمارا لباس ہوتی ہے، اسکا مطلب تو یہ ہو سکتا ہےکہ ہم جو سوچتے ہیں وہ ہماری پہچان ہوتا ہے۔ اسلیے یہ بھی ایک طرح کا آؤٹ فٹ ہی ہوا نا؟”، ایک چینی لڑکی نے کہا تو پروفیسر نے تحسین سے اسکی طرف دیکھا، “آپ ٹھیک سمت سوچ رہی ہیں، لیکن تھوڑا اور۔ ۔ ۔
کالا افریقی جو شائد کینیا کا رہنے والا تھا، یکلخت بول اٹھا، “پروفیسر! میں جانتا ہوں، میں جانتا ہوں۔ اسکا مطلب ہے کہ ہم سوچ کو ڈیزائینر سوٹ کی طرح شو مارنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔” ہم سب کی ہنسی کی آوازیں لیکچر ہال کی اونچی چھت تلے گونجنے لگیں۔
مگر پروفیسر کی چمکدار آنکھیں اس کالے لڑکے پر گڑ گئیں، جو اپنی گرل فرینڈ کو ایک متاثر کن مسکراہٹ دے رہا تھا۔”تم نے بالکل ٹھیک کہا جیریؔڈ! بلکہ تم نے کچھ ایسا کہاہے جومیں اپنے اگلے لیکچر میں استعمال کر سکتا ہوں۔ ہم سب جیریڈ کی آنکھوں کی حیرانی واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔ اسکو اپنے عامیانہ جملے کی اتنی پذیرائی کی توقع نہیں تھی۔
“کیا فضول سوال پھینکا ہے تم نے پروفیسر کی طرف، اب پورا گھنٹہ بوریت کو سمیٹو،” رودوپی ؔ نے دبے لہجے میں مجھے ڈانٹتے ہوئے بظاہر اپنی فائل کو درست کیا۔”پروفیسر!،” میں نے کنکھیوں سے رودوؔپی کو دیکھتے ہوئے بات بڑھائی، “میرا خیال ہے آپ یہ کہنا چاہتے تھے کہ ہماری سوچیں بھی ایک طرح کا لباس ہوتی ہیں جو ہماری شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں اور ہماری انفرادیت اور شناخت کا باعث ہوتی ہیں،” بات ختم کر کے میں نے رودوؔپی کو “اب بھگتو” والی لک دی، حالانکہ مجھے اچھی طرح علم تھا کہ اب کلاس سے ہاسٹل تک مجھے رستہ بھر یونانی زبان میں کوسنے سننا پڑیں گے۔
اب پروفیسر کی آنکھیں مجھ پر جم سی گئیں، ” تم پاکستان میں کونسا لباس پہنتے ہو؟”
“جج جی ! شلوار قمیض،” میں نے گڑبڑا کر جواب دیا۔ اس اچانک سوال کے لیے تیار نہیں تھا۔ “میرا مطلب ہے کہ ایک ڈھیلی ڈھالی پتلون نما چیز اور لمبے دامن والی شرٹ قسم کا لباس۔”
“اور تم؟” پروفیسر نے چینی لڑکیوں کی ٹرائیکا سے پوچھا۔ انہوں نے اپنے لباس کی تفصیل دے دی۔ “اور جیریڈ تم؟” پروفیسر نے پوچھا۔ “ہم ایک لمبا کرتا جو زمین کو چھو رہا ہوتا ہے، کھلے گلے والا،” جیرؔیڈ نے تفصیل بیان کی۔
“اچھا!،” پروفیسر آگے بڑھ کر لیکچر ہال کی ایک کونے والی سیٹ پر بیٹھ گیا، ” اچھا اب آپ سب یہ بتاؤکہ یہ لباس آپ کیوں پہنتے ہو؟”
“ہم کہاں پہنتے ہیں، ہم تو جینز پہنتے ہیں اب، وہ تو ہمارے ملک کے لوگ پہنتے ہیں،” کالے جیریڈ نے لاپرواہی سے کہا۔
“ہاں تو ایسا ہی سہی،” پروفیسر نے دہرایا، “تو کیوں پہنتے ہیں وہ لوگ؟”
“سر! سادہ سی بات ہے،” چینی لڑکیوں میں سے ایک نے ناک سکیڑ کر کہا، “وہ ان کا پہناوا ہے، صدیوں سے انکا یہی لباس ہے۔”
“بالکل ٹھیک،” پروفیسر کو جیسے اپنی بات کا جواب مل گیا۔”اور اب میں آپ سب سے ایک سوال، ۔ ۔ ۔ آخری سوال پوچھتا ہوں، اور وہ یہ کہ کیا کوئی شخص آپ کے سامنے اپنے علاقائی لباس میں بیٹھا ہو تو آپ کو اس نفرت محسوس ہوگی؟”
“بہت عجیب بات ہے،” کالے جیریڈ کی گرل فرینڈ پہلی دفعہ شریک گفتگو ہوئی، “بھلا اس میں نفرت کی کیا بات ہے؟ یہ اس کا لباس ہے۔ ہم سے تھوڑا مختلف ہے، اور بس ۔ ۔ ۔ ہم بھی تو اپنے اپنے علاقائی لباس پہنتے ہی ہیں۔”
پروفیسر نے پسندیدگی سے سر ہلایا اور پھر سوالیہ نظروں سے رودوؔپی کی طرف دیکھا، شائد اس سے بھی جواب چاہ رہے تھے۔
“جی نہیں پروفیسر! اس میں نفرت کی کیا بات ہے، ” رودوؔپی کے لہجے میں ہلکی سی ہنسی تھی، “یہ میرے کلاس فیلو محمودہیں، جو ہاسٹل میں میرے ہمسائے ہیں، آئے روز ان سے ملنے والے پاکستانی اپنے آبائی لباسوں میں کامن روم میں اودھم مچا رہے ہوتے ہیں، مجھے تو کبھی برا نہیں لگا۔ رودوپیؔ نے بات ختم کر کے میری جانب ایسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو “اب لوپنگا مجھ سے”۔
پروفیسر گبسن اب خاموشی سے ہم سب کو دیکھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے اپنی جیکٹ اتار کر کونے میں پڑے ہینگر پر لٹکائی اور ہمارے جانب مڑے۔
“بالکل ایسے ہی۔ ۔ ۔ بالکل ایسے ہی، جیسے ہم اپنا پہلا لباس پہنتے ہیں، بغیر سوچے سمجھے۔ ہمارے والدین ہمیں پہنا دیتے ہیں اور ہم اس کو اپنا لیتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی، ہم اپنی بنیادی سوچ بھی اپنے ماحول سے لیتے ہیں۔ جیسے لباس ہماری شخصیت کا ایک خاص تاثر بناتا ہے، ایسے ہی ہماری بنیادی سوچ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ہم کس انسانی گروہ اور جغرافیے سے تعلق رکھتے ہیں،” پروفیسر سانس لینے کو رکے۔
“اور پھر جیسا کہ آپ نے کہا (پروفیسر نے جیریڈکی طرف اشارہ کیا) کہ ہم اپنے لباس میں کچھ عالمی پہناوے بھی شامل کر لیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہم اپنی بنیادی سوچ کے ساتھ عالمی سوچ بھی شامل کر لیتے ہیں۔ مگر صرف وہ لوگ جو تعلیم یا مشاہدے سے اس عالمی سوچ تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ تو انکی سوچ کا پہناوا مختلف ہو جاتا ہے۔”
“تو میرے دوستو! یہاں تک تو میں صرف یہ بتا نا چاہتا تھا کہ آپ کی سوچ آپکی شخصیت کا ایک ایسا پہناوا ہے، جس کا بیشتر حصہ آپ کے ماحول اور جغرافیے نے پہلے سے طے کردیا ہوا ہے۔ البتہ بعد میں آپ نے اپنے اپنے زوق کے مطابق کچھ اضافہ یا قطع و برید کرلی ہے۔
” پروفیسر نے بات مکمل کر کے اپنی جیکٹ کو دوبارہ پہننا شروع کر دیا۔ ہم نے بھی اختتامی اشارہ سمجھ کر اپنی اپنی فائیلز کو پکڑ کر اٹھنے کی تیاری شروع کر دی۔ بات مکمل ہوچکی تھی۔
اس سے پہلے کہ ہم اپنی سیٹوں سے اٹھتے ، پروفیسر نے بڑے ہی سادہ انداز میں ہم سب کو مخاطب کیا، “تو میرے پیارے دوستو! آج ہم انسان اتنی ترقی کر چکے ہیں کہ مختلف تہذیبوں کے لباسوں کے بارے میں اچھی طرح سمجھتے ہیں اور نہ انکو دیکھ کر خوفزدہ ہوتے ہیں اور نہ ہی بلاوجہ نفرت کا شکار ہوتے ہیں۔”
پروفیسر چلتے چلتے دروازے کے قریب پہنچے، رکے اور بولے، “مگر میرے عزیز طالبعلمو! دنیا مکمل ترقی اس دن کرے گی جب ہم مختلف سوچ کے لباسوں کو بھی اسی طرح سمجھ کر قبول کر لیں گے، اور نہ مختلف سوچ سے خوفزدہ ہونگے اور نہ ہی نفرت کا شکار۔ ہم صرف یہ سمجھ لیں گے کہ یہ مختلف سوچ ایک مختلف تہذیب اور جغرافیے کی پیداوار ہے، اور بس۔ خدا حافظ،” پروفیسر یہ کہہ کر سامنے والے دروازے سے باہر نکل گئے۔

(محمود فیاض: لاہور میں مقیم ، نوجوانوں کے لیے زندگی ، محبت اور خوشی پر لکھتے ہیں۔ اب مکالمہ پر بھی لکھیں گے۔ایڈیٹر)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں