کراچی پہلی بار آئے تو موسم تو جانا پہچانا لگا کہ بالکل دارالاسلام تنزانیہ کے موسم جیسا دھوپ میں پسینہ اور چھاؤ میں مٹھاس کا احساس اس لئے ہوٹل کے کمرے میں ٹکنا مشکل لگ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایمبولینس کا شور اور ٹی وی پر نیوز کے ہمارے ہوٹل کے بالکل پاس میں ہونیوالے دو قتل نے تھوڑا محتاط کردیا لیکن پھر بھی جتنا موقع ملا گھومنے کا اس میں کافی کچھ نیا تھا اور یقیناً خوشگوار بھی تھا ۔
ایک ساتھ اتنے ریسٹورنٹ اور سب کے باہر زمین پر بیٹھے لوگوں نے سب سے پہلے متوجہ کیا ۔پتہ چلا کہ یہ زمین پر بیٹھے لوگ مزدور یا غریب لوگ ہیں جو یوں بیٹھ جاتے ہیں اور جو صاحب رحم لوگ کھانا یا ناشتہ کرنے آتے ہیں وہ اپنے ساتھ کسی ایک دو یا جتنی ان کی حیثیت ہو اتنے باہر بیٹھے لوگوں کو بھی ناشتہ کروا دیتے ہیں، بہت اچھا لگا یہ کام بس جو غرباء کو ناشتہ دیا جاتا ہے وہ باہر زمین پر ہی دے دیا جاتا ہے ،میں نے اندر لے جا کر ٹیبل پر بیٹھا کے کراو دیا ایک دو کو اور یہ نشہ پہلی بار کرنے کی سعادت حاصل کی ۔
دوسری بات جس نے فوراً توجہ حاصل کی وہ تھا تقریباً تمام موٹر سائیکل کا کپڑے پہنے ہونا تو اب اس کی وجوہات سب نے مختلف بتائی، دھوپ سے بچاؤ، چور کو دھوکا وغیرہ لیکن بہرحال یہ بھی ایک اچھا طریقہ لگا بائیک کی حفاظت کا ۔
ساحل کیونکہ افریقہ کے دیکھ چکا ہوں تو بہت سے بھی زیادہ دکھ ہوا کراچی کے ساحل پر گندگی دیکھ کر افریقہ میں ساحلوں کو صاف ستھرا رکھ کے اور تفریحی مقامات پارکس ریزورٹ بنا کے ہزاروں لوگ باعزت روزگار کما رہے ہیں اور زر مبادلہ بھی ۔ گندگی بدبو اور تھکن سے تنگ آکر ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور بہت اچھا بھی لگا کہ اتنی ساری کرسیاں پڑی ہیں لوگوں کے بیٹھنے کے لئے لیکن تھوڑی دیر بعد ایک پٹھان بچہ چالیس روپے کا طالب ہوا کرسی پر بیٹھنے کے عوض تو معاملہ یہ بھی سمجھ آگیا ۔

کراچی میں دو جگہوں پر ہی زیادہ رش ہوتا ہے ایک پکوان سینٹر اور دوسرا ہسپتالوں یا کلینکس دونوں جگہوں پر ٹوکن لے کے باری آتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے معاون مددگار ہیں پکوان سینٹر آپ کو کلینک جانے پر مجبور کرتا ہے اور کلینک آپ کو دوبارہ پکوان سینٹر جانے کے قابل ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں