(ایڈیٹرز نوٹ: صاحب مضمون نے تحریر کے ساتھ پیغام دیا کہ وہ خود جمیعت کے کارکن ہیں اور موجودہ صورتحال پہ آزردہ۔ “مکالمہ” اس تحریر کو اس امید پہ چھاپ رہا ہے کہ جے یو آئی کے ترجمان یا ہمدرد دوست اس کا جواب دے کر مثبت مکالمے کی روایت کا آغاز کریں گے)
جمعیت علماء اسلام میں یہ دونام دومختلف فکری دھاروں کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ 2003 میں جب پرویزمشرف کے ساتھ ڈیل کے نتیجے میں جے یوآئی ایم ایم اے کاحصہ بن کرسترھویں آئینی ترمیم کی صورت میں ایل ایف اوکوباقاعدہ آئینی جوازدینے کیلئے قومی اسمبلی اورسینیٹ میں اس ترمیم کے حق میں ووٹ دینے جارہی تھی تویہ مولاناشیرانی ہی تھے جنہوں نے ایم این اے کی حیثیت سے سترھویں ترمیم کے حق میں ووٹ دینے سے انکارکیاتھا۔ پارٹی قیادت کے سامنے اس موقع پران کاموقف یہ تھاکہ ایل ایف اوآئین کی گردن پرچھری پھیرنے کے مترادف ہے اوریہ کہ انہیں پرویزمشرف کی جانب سے اس وعدے کے ایفا کرنے کی امیدرکھنے کاکوئی جوازنظرنہیں آرہا لہذاس موقع پرانہیں (مولاناشیرانی کو) ایوان سے غیرحاضررہنے کی اجازت دیجائے۔ بصورت دیگرایوان میں اپنی موجودگی کی صورت میں وہ نہ صرف یہ کہ ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے بلکہ کھلم کھلااس کی مخالفت میں تقریربھی کریں گے جس کے بعدایم ایم اے کے امیر قاضی حسین احمدمرحوم اورجنرل سیکرٹری مولانافضل الرحمن کو انہیں مجبورا غیرحاضررہنے کی باقاعدە اجازت دینا پڑی۔
جمعیت علماءاسلام کے اندرونی حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ پارٹی معاملات اور پالیسیز میں جن بیشتر مواقع پرمولاناشیرانی کو تحفظات رہے ہیں انہوں نے ان کے اظہارمیں کبھی کسی مصلحت اورچشم پوشی سے کام نہیں لیا جبکہ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جے یوآئی کے موجودہ رەنماؤں میں سے مولاناشیرانی عمر اور تجربے کے لحاظ سے پارٹی کے واحد قدآور رہنما ہیں جنہیں مولانافضل الرحمن مدظلہ کے طرزسیاست سے کئی حوالوں سے اختلاف رہاہے ان میں سے سب سے اہم معاملہ پارٹی پردن بدن بڑھنے والی موروثی سیاست کی چھاپ اورمولانا فضل الرحمن کا روزافزوں بڑھتا خاندانی اثرورسوخ بھی ہے۔
اس وقت مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولاناعطاالرحمن جے یوآئی کے پی کے میں صوبائی جنرل سیکرٹری شپ کا الیکشن ہار جانے کے بعد پارٹی نائب امیر اور قومی اسمبلی کا الیکشن ہار جانے کے بعد سینیٹ کے ممبر ہیں۔ اسی طرح مولاناکے دوسرے بھائی مولوی لطف الرحمن صوبائی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن اور ڈی آئی خان کے ضلعی امیرہیں۔ مولاناکے تیسرے بھائی عبیدالرحمن جو کہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہارچکے ہیں اس وقت ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر ہیں۔ واضح رہے کہ اس عہدے کیلئے ان سے الیکشن لڑانے کامقصد انہیں ضلعی چئیرمین بنوانا تھا مولانافضل الرحمن کے بڑے صاحبزادے اسعدمحمود قومی اسمبلی کیلئے الیکشن لڑنے اور ناکام ہونے کے بعداس وقت جے یوآئی کے پی کے میں صوبائی مجلس شوری کے رکن ہیں جبکہ مولانافضل الرحمن کی سالی شاہدہ اخترعلی جو مختلف منفعت بخش عہدوں پر فائز رہ چکی ہیں، اب قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر جے یوآئی کے ٹکٹ پر ایم این اے بن چکی ہیں۔
مولاناشیرانی کے اختلاف کادوسرا اہم نکتہ جے یوآئی کے دستور میں مولانافضل الرحمن کی ایما پر ہونے والی من مانی ترامیم ہیں جن کے ذریعےجے یو آئی کے دستور کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں آخری مرتبہ ترامیم چندماہ پہلے جے یوآئی کی مرکزی مجلس عمومی میں پیش کردی گئی تھیں۔ ان ترمیمات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کیلئے امیدواروں کے تعین کااختیار صوبوں سے لیکرمولانافضل الرحمن کے حوالے کرنا تھا جبکہ انٹراپارٹی الیکشن کا دورانیہ بھی تین سال کی بجائے پانچ سال کردینے کی بات کی گئی تھی۔ اگرچہ مرکزی مجلس عمومی نے اول الذکر ترمیم کو بہ یک آواز مسترد کر دیا لیکن اس کے باوجود مولانافضل الرحمن نے اس فیصلے کو واضح انداز میں تسلیم کرنے کے بجائے اگرمگر سے کام لینا شروع کردیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آیندہ جنرل الیکشن میں امیدواروں کے تعین کااختیار وہ بہرصورت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔
ان امور پر مولانافضل الرحمن کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت اگرکسی شخصیت میں ہوسکتی ہے تو وہ مولاناشیرانی ہی ہیں اسی لئے دستور میں کی جانیوالی آخری ترامیم کیلئے مولاناشیرانی کو بلوچستان کی صوبائی امارت سے دھاندلی کے ذریعے ہٹانے کا انتظار کیا جاتا رہا اور جیسے ہی یہ مقصد حاصل ہوا اس کے بعد منعقد ہونے والے پہلے ہی اجلاس میں ترامیم پیش کردی گئیں۔ مولاناشیرانی کو صوبائی امارت سے ہٹانے کیلئے اس سے پہلے مولانافضل الرحمن نے بذات خود بلوچستان کے مولانا عبدالواسع، مولاناامیرزمان وغیرہ کو ٹاسک دینے کی کوشش کی تھی تاہم ان کی طرف سے انکار سامنے آنے کے بعد جے یوآئی کی صفوں میں ایک بدنام زمانہ وکیل کا سہارا لیا گیا تاہم اس کے باوجود اختلاف کا رنگ اتنا گہرا نہ ہوتا اگر11 اگست 2014 کو پشاور میں ہونے والا واقعہ پیش نہ آتا۔
اس دن جب جے یوآئی کے مرکزی انتخابات کاانعقاد ہو رہا تھا تو جے یوآئی کے بعض حلقوں نے دستور کے تقاضوں کے مطابق مرکزی امیر کے عہدے کیلئے مولانافضل الرحمن کے مقابلے میں مولاناشیرانی کا نام پیش کرنے کی کوشش کی جس پر مولانا فضل الرحمن سیخ پا ہو گئے اورکارکنوں کے اس واضح دستوری حق کے استعمال کی راہ میں روڑے اٹکانے لگے۔ انہوں نے اس دن اجلاس کو اس وقت تک التوا کا شکار کئے رکھاجب تک انہیں واضح یقین دہانی نہیں کرائی گئی کہ حسب معمول اس مرتبہ بھی ان کے مقابلے میں کوئی نام پیش نہیں کیا جائے گا اگر11 اگست والے اجلاس کے دن کارکن لچک نہ دکھاتے تومولانافضل الرحمن کے رویئے سے جے یوآئی اسی دن دو مزید دھڑوں میں تقسیم ہوجاتی۔ اس وقت مولاناشیرانی نے اپنے پانچ مطالبات جماعت کے سامنے رکھے ہیں جن میں سرفہرست جے یوآئی کے دستور کو مولانامفتی محمود اور دوسرے اکابرین کے دور کی اصل صورت میں بحالی اورصوبائی جماعتوں سے من مانے طریقوں سے غصب کئے گئے اختیارات کی بحالی ہے۔ جبکہ الیکشن کمیشن میں چپکے سے جے یوآئی کے نام کے ساتھ اضافہ کیا گیا فضل الرحمن گروپ کا لاحقہ ختم کرنا بھی ان مطالبات کا حصہ ہے جس کے ذریعے جے یوآئی ایک جماعت کی بجائے ایک خاندانی لمیٹڈ کمپنی کے طور پر رجسٹرڈکی گئی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں