اوڑی حملہ : امن کی آشا پہ ایک اور وار۔۔۔۔۔ عامر حسینی

دریائے جہلم کے کنارے پاکستانی کشمیری علاقے کے پڑوس میں ضلع بارمولا کی تحصیل اوڑی ہے۔ اس میں بھارتی فوج کے ایک عارضی پڑاؤ پہ بھاری اسلحے سے حملے کے نتیجے میں 17 بھاری فوجی ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوگئے-یہ کیمپ بھارتی قبضے میں موجود جموں و کشمیر میں ڈیوٹی دیکر واپس آنے والے فوجیوں کی آرام گاہ پہ مشتمل ایک کیمپ ہے ، جہاں بھارتی فوجی خیموں میں آرام کرتے ہیں-اور بھارتی حکام کا موقف ہے کہ اس حملے میں زیادہ تر فوجی کیمپوں میں آگ بھڑکنے سے مرے ہیں-

اس حملے کی خبریں جیسے ہی عام ہوئیں تو بھارتی اور پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پہ اپنے اپنے انداز میں دونوں اطراف کے عقابوں نے شور مچانا شروع کردیا- لیکن شاید ہندوستان کے ایک موقر اخبار ” ٹائمز آف انڈیا ” نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پہ ٹھیک ہی لکھا ہے کہ اس ” حملے ” نے ہندوستان کے اندر ” فاختائی آوازوں کو خاموش کردیا اور عقابی آوازیں اور تیز ہوگئیں ہیں –کشمیر میں جاری مودی سرکار کی ظالمانہ کاروائیوں کے خلاف جو آوازیں خود ہندوستان کے اندر سے اٹھ رہی تھیں ، اب ان کے دب جانے کا قوی امکان ہے-خود کانگریس جیسی سیکولر پارٹی کے من موہن سنگھ کی حکومت میں وزیر دفاع رہنے والے جیتندر سنگھ نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے مودی سرکار کو کہا ۔ “پاکستان کو سخت پیغام دینے کی ضرورت ہے-ہم نے ماضی میں پاکستان پہ اعتماد کرکے بلنڈر مارے ہیں”-ہندوستانی ہوم منسٹر فار سٹیٹ، ہنس راج اہیت نے اس حملے کو پاکستان کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا ، ” مناسب وقت پہ پاکستان کو سخت جواب دیا جائے گا “-ایسے ہی بیانات کیرالہ کے چیف منسٹر اور دیگر ہندوستانی سیاسی اسٹبلشمنٹ کی طرف سے آئے ہیں-اور ایک بھی آواز ایسی نہیں ہے جس نے ” عقابی ” لہجہ نہ اپنایا ہو-

ہندوستانی اخبار ” دی ایشین ایج ” نے اس حملے کی خبر اپنی ویب سائٹ پہ پوسٹ کرکے ، آخر میں اپنے پڑھنے والوں کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ اوڑی میں نالہ سلام آباد ایسا نالہ ہے جس کے زریعے سے اکثر “درانداز ” جموں و کشمیر میں داخل ہوتے ہیں اور دو سال پہلے بھی یہیں سے “دہشت گرد ” آئے تھے اور انہوں نے اسی کیمپ کو نشانہ بنایا تھا-اور اب بھی یہیں سے “دراندازوں ” کی آمد کا قوی امکان ہے-

اگر آپ ٹوئٹر پہ جاکر

#UriAttack

ٹرینڈ لکھ کر رزلٹ دیکھیں تو آپ کو ” عقابی طوفان ” کا اندازہ ہوگا-ہندوستانی فنکاروں ( بوبی دیول کا ٹوئٹ ہے “ہندوستان ہمیشہ دفاعی موڈ میں رہا ہے-ہندوستان کو پاکستان اور اس کے زیر قبضہ کشمیری علاقوں میں موجود کیمپوں کو تباہ کرنے کا اقدام کرنا ہوگا-)سے لیکر تجزیہ کاروں تک سب کے ہاں ایک عقابی ردعمل ہے-انوشل سیکسینہ کہتی ہیں کہ ” سیاسی ریڈیکل اسلام والوں کے ساتھ ” امن کی آشا” نہیں چلائی جاسکتی –پراکسی جنگیں ” کھلی جنگ ” کی بجائے زیادہ بدتر ہیں اور اسی لئے پاکستانی جرنیل ” پراکسی وار ” لڑ رہے ہیں اور ” کھلی جنگ ” سے کتراتے ہیں-ہندوستان کو کھلی جنگ کا سوچنا چاہئیے-جبکہ ہندوستانی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ہندوستان کے سابق چیف آف آرمی سٹاف نے این ڈی نیوز ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کو بھی اپنے فدایان تیار کرکے پاکستان بھیجنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان پراکسی وارز سے باز آئے-

ویسے وہاں ایسے ٹوئٹ اور فیس بک پیغامات بھی اپ لوڈ کئے گئے جن میں ہندوستانی لبرل (اس میں لیفٹ بھی شامل ہے) پہ شدید تنقید کی گئی کہ ” ہمارے جوان شہید ہورہے ہیں اور زخمی ہیں اور لبرل نے اپنے ہونٹ سی لئے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں بول رہے “۔

ادھر پاکستانی عقاب اور دائیں بازو کے جغادری صحافی ، اینکر ، تجزیہ نگار اور پاکستانی جرنیلوں کی تزویراتی گہرائی کو سو سو سلامی پیش کرنے والے بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے ہیں- اینکر حوالدار احمد قریشی اور انصار عباسی کے ٹوئٹس کمال کے ہیں – انہوں نے کہا کہ یہ حملہ خود بھارتی حکومت نے پلان کیا ہے تاکہ کشمیر پہ عالمی توجہ کو ہٹایا جاسکے- جبکہ پاکستان ڈیفنس کے نام سے چلنے والے ایک ٹوئٹ اکاؤنٹ سے بھی اسی طرح کا ٹوئٹ کیا گیا ہے-

ایک پاکستانی صحافی دوست نے “اوڑی حملے ” پہ اپنا فیس بک سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد ” 17″ کو انتہائی کم قرار دیا اور انہوں نے اسے مودی کو انتہائی کم ” سلامی ” سے تعبیر کیا-

Advertisements
julia rana solicitors london

جماعت دعوہ ، جیش محمد ، سپاہ صحابہ ، جماعت اسلامی سمیت ” جہادی پراکسی ” کے حامی کیمپ سے اس حملے کو کہیں تو مجاہدین کی کاروائی بتا کر سراہا جارہا ہے تو کہیں اسے بھارت کی سازش قرار دیا جارہا ہے- لیکن سید طلعت حسین کا ٹوئٹ قابل غور ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حملے کے بعد ہندوستان میں مودی سرکار کے مذہبی جنونیت اور ہندوتوا پہ مشتمل اقدامات اور کشمیر میں ہونے والی ہلاکتوں پہ اندر سے ہونے والی تنقید میں کمی آئے گی اور مودی سرکار کو مزید تقویت ملے گی۔ اور یہ بات قدرے درست بھی ہے-لیکن اس کے ساتھ ساتھ سید طلعت حسین یہ لکھنا بھول گئے کہ ہندوستان کے اندر اگر عقابی جنون بڑھتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر بھی عقابی طاقتیں طاقتور ہوں گی اور لبرل و لیفٹ طاقتوں کی جانب سے فاختائی روش کو مزید چیلنجز کا سامنا ہوگا- اس کا ایک اور بھی اثر ہوگا کہ پاکستان کی سیاسی و ملٹری اسٹبلشمنٹ پہ ملک کے اندر خاص طور پہ بلوچستان اور کراچی میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی اور جبر پہ ہو رہی تنقید اور دباؤ سے نکلنے کا موقعہ ملے گا-لبرل آوازیں مزید دباؤ میں آئیں گی –

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply