بسم اللہ الرحمن الرحیم
موضوع کے عنوان پر مجھ جیسے کم علم کے لئے کچھ لکھنا شاید سمندر میں ایک کوزہ پانی ڈالنے کے مترادف ہو۔ مگر اِس پر نہ لکھنا شاید ایک خیانت ہوگی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ وطنِ عزیز مملکتِ پاکستان میں شِدت پسندی کی ایک لہر بہت سالوں سے چل آرہی ہے اور اِس شدت پسندی میں جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے وہ ہمارا نوجوان طبقہ ہے۔ شدت پسندی کا رجحان ہمیں کیوں ملا؟ کہاں سے ملا؟ اور اِس رجحان میں ہم نے کیا پایا اور کیا کھو دیا؟ اِن سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ تاہم کچھ مخصوص باتوں پر اور مخصوص محرکات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
سب سے پہلے وطن عزیز میں دہشت گردی کی جو فضاء بن چکی تھی وہ نوجوان نسل کی نشونما میں پیوست ہوکر رہ گئی۔ اور اِس خطرناک ترین ماحول میں نوجوان ذہن نے وہ تمام نظریئے قبول کرلئے جو اُس کے سامنے آئے اور جن کو اُس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ، سنا ، اور سمجھا۔
ہمارے تعلیمی ادارے اِس حد تک اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے کہ وہ نوجوان ذہن کے خیالات کو اُس انداز سے سنوارے کہ وہ موجودہ ماحول کو ایک مدبرانہ انداز سے دیکھنے کے قابل ہوسکے اور اِس ماحول میں چھپی شدت پسندی کو جان لیں۔ اس کا نقصان ہمیں اِس حال میں اٹھانا پڑ رہا ہے کہ آج کا نوجوان حد سے زیادہ انتہا پسندی کا شکار ہو چکا ہے۔
ہمارے آج کے نوجوان میں زندگی کے ہر ایک شعبے کی انتہاء پسندی رچ بس گئی ہے۔ خواہ اُس کا تعلق دینی ہو یا دنیاوی، معاشی ہو یا معاشرتی، ماحولیاتی ہو یا رسم و رواج، غرض ہر ایک جذبے میں ہماری نوجوان نسل اِس حد تک انتہاء پسند ہو گئی کہ جس کے آگے وہ کچھ دیکھنے کا قابل ہی نہیں۔ مسائل کو علمی معیار سے پرکھنا ، سمجھنا اور اُن کا حل پیش کرنا چھوٹ گیا۔
مذہبی احکامات اور اُس میں لچک کو جاننا اور اُن احکامات کو حقیقی معنوں میں عین قرآن و سنت کی رو سے جانچ کر دلائل کے ساتھ سمجھ پانا ہمارے لئے مشکل ترین شے بن گئی۔ جس کی وجہ سے ہم سُنی سنائی باتوں پر اور کسی ایسے شخص کی پیش کردہ احکامات کو سچ جاننا جس کا قرآن و سنت سے ثابت ہونا دیکھائی نہیں دیتا ہو اُن احکامات پر پورے اعتماد کے ساتھ عمل پیرا ہو رہے ہیں۔
مخصوص شدت پسندانہ سوچ رکھنے والے لوگ ہماری اِس نواجوان نسل کی ذہن سازی میں اِس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ اب نہ ہی اُن کو کسی حکومتی مذمت کا خوف ہے اور نہ ہی وہ روزِ قیامت اللہ تعالی کے دربار میں سزا سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اُن کو اگر کسی چیز میں دلچسپی ہے تو وہ یہی کہ اُن کے بنائے گئے ” شدت پسند انسانی بم ” ہمیشہ اُن کی ایک صدا پر ہر وقت لبیک کہے خواہ اُس لبیک کی صدا ملک کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی طوفان کیوں نہ کھڑا کر دے۔
اِن ” شدت پسندانہ انسانی بموں ” میں جو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے ہیں وہ ” بغیر تحقیق کے اور بغیر دلائل و ثبوتوں کے کسی پر بھی کفر و الحاد کے فتوے لگانے والی سوچ کے “انسانی بم ہیں “۔
ذرا سوچیں۔
کیا کوئی ایسا شخص یا ایسا نوجوان جس کی علمی تحقیق انتہائی ناقص اور تجربہ زندگی کے کچھ سالوں کا ہو وہ کسی پر کفر اور الحاد کا فتوی لگانے کا حقدار ہوسکتا ہے؟
کیا ایک ایسا نوجوان جس کی علمی پرواز انتہائی محدود ہو اور اُس نے ابھی تک زندگی کی وہ حقیقت ہی نہ جانی ہو جس میں اللہ تعالی اپنی ذات کو واحد اور لاشریک فرماتا ہو کیا وہ کسی کے ایمان کا پیمانہ بن سکتا ہے؟
کبھی نہیں۔
بلکہ ایسے لوگ ہی معاشرے کے لئے وہ بدنما داغ ہیں جِن کی وجہ سے ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر ضرب لگائی جاتی ہے اور غیر مسلم ہمیں شدت پسند اور دہشت گرد کہتے رہتے ہیں۔
ہمارے ایسے ہی کچھ بھائی بندے موجودہ دور کے مشہور سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر اپنی اسی جہالت کی وجہ سے دین اسلام کا غلط پرچار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جِن کی وجہ سے وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کبھی پروان چڑھنی تھی وہ بھی معدُوم ہو کر رہ جاتی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسانی ذہن میں اشکالات و شبہات کا جنم لینا عین ممکن بات ہے۔ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہوگا جو اپنے عقیدے کے بارے میں سوچتا نہ ہو۔ وہی لوگ تو کامیاب ہیں جو اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے اِن سوالات کے جواب علمی دلائل اور ثبوتوں سے پیش کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا ایسے ہزاروں لوگوں کی آمجگاہ بن چکا ہے جس میں ہر طرز کا انسان سوچنے پر مجبور ہے۔ وہ اپنی پیدائش سے لے کر اپنی موت تک ہر ایک زاویے پر اعتراض کرتا چلا آرہا ہے۔ وہ اپنی دینی قیود کو بھی ظاہر کرتا ہے اور اُس پر سوالات بھی اٹھاتا ہے۔
کیوں؟ کس لئے وہ ایسا کرتا ہے؟
یہی وہ سوالات ہیں جن کے جواب میں کچھ لوگ علمی اور تحقیقی مواد پیش کرنے کی بجائے شدت پسند اور انتہاء پسندی سے کام لینا اپنا دینی فریضہ سمجھ لیتے ہیں۔ اور جب وہ اِن اشکالات و سوالات کے جواب اپنی محدود عقل و شعور میں موجود نہیں پاتے تب سوال کرنے والے پر الحاد و کفر کا الزام لگانے میں دیر نہیں کرتے۔
آخر کیوں؟
کیا ہمارا علم اتنا کامل ہے؟ کہ ہم کسی بھی سوال کرنے والے پر بغیر دلیل و تحقیق کے کفر کا فتوی دے سکیں؟
کیا ہمارا ضمیر اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ کسی بھی ذی روح کو اُس اذیت تک پہنچا دیں جہاں پر وہ دینی احکامات کو ماننے سے صریحاً انکاری ہی ہو جائے؟
یہی وہ لوگ ہوتے ہیں ہمارے آس پاس جن کی وجہ سے انگلی سب پر اٹھتی ہے۔ اسلام مذہب ہے امن و امان کا۔ اِس مذہب میں کوئی تشدد یا جبر نہیں۔ اِس مذہب میں کہیں یہ بات نہیں کہ بغیر تحقیق کے کسی کو بھی کفر کا تاج پہنایا جاسکتا ہے۔ آج جو لوگ دوسروں کو اپنی علمی کمتری کی بدولت دین سے مُنکر ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں وہ ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ تو لیں۔ وہ خود کتنے اسلام پسند ہیں؟ اور کیا اُن کے دن رات کے شب و روز عین اسلامی ہیں؟ کیا اُن کی اپنی زندگی اِس قابل ہے کہ وہ اللہ تعالی کے بارگاہ میں شرمسار نہیں ہوں گے؟
دینی نقطہ نگاہ سے کسی کے سوال کا کسی دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بننا اور اُس کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا تب ممکن ہے جب اُس کے پاس اُس سوال کے توڑ کی صورت میں دلائل کی کمی اور علمی لحاظ سے کمتری موجود ہو۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ جس سوال کا جواب آپ کے پاس نہ ہو تو آپ سوال کرنے والے پر کفر کا فتوی لگانے میں دیر نہ لگاؤ۔ ہوسکتا ہے کوئی صاحبِ علم و دانش عین شرعی اور قرآن و سنت کی روشنی میں اُس سوال کا ایسا جواب پیش کردے جس کو دیکھ کر سوال کرنے والے کا ایمان اور مضبوط ہو جائے۔
جس طرح ایک جاہل اور ایک عالم برابر نہیں ہو سکتے عین اُسی طرح کسی کے سوال کا غلط مطلب نکال کر اُس پر اپنی کم علمی سے وار کرنا بھی آپ کو دینی لحاظ سے عین حقیقی مسلمان ثابت نہیں کردیتا۔
مضمون لکھنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ ہم اپنے آپ کا محاسبہ کریں اور اپنے دین و مذہب کا باشعور انداز سے مطالعہ کرکے اِس کی حقیقی روح کو سمجھیں اور اِس بات کے پابند بنیں کہ اسلام میں بغیر تحقیق کے کسی پر شک و شبہ کی بالکل گنجائش نہیں۔ نہ ہی اسلام ہمیں اِس کا حکم دیتا ہے کہ کسی کے سوالات و اشکالات کے بدلے میں واضح اور مستند دلائل و ثبوت کے بجائے اس پر اپنی کم علمی کی آڑ میں کفر و الحاد کا لیبل لگائیں۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا
ترجمہ:
اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا۔
(سورۂ احزاب: ۵۸)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے۔
مفہوم:
”حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جِس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جِس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اُس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اُس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہئے اور جِس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اُسی پر لوٹ آئے گا”۔
(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 219 )
ایسے خود ساختہ فتوی لگانے والوں کے لئے جامعہ بنوری ٹاون کراچی کا ایک باقاعدہ فتوی بطور ثبوت پیش خدمت ہے۔
سوال
ایک آدمی ہے جس کا ایمان و عقیدہ بھی ظاہر نہیں اور اکثر مسلمانوں پر کافر کافر کا فتوی لگاتا ہے ،صرف اپنی ذاتی وجوہات کی بنا پر اور بہت ہی بداخلاق رویہ رکھتا ہے، عورتوں سے بہت بد اخلاقی کرتا ہے اور منہ سے زنا کے الفاظ صادر کرتا ہے۔ نعوذ باللہ خانہ کعبہ کی تصویر کے بارے میں میں کہتا ہے کہ اِس پر کوئی یہ جملہ لکھ دو۔ اب وہ جملہ یہاں لکھنا مناسب نہیں لگتا۔ اُس آدمی کے بارے میں بتائیے، کیا ایسا آدمی مسلمان ہے؟ کیا ایسے آدمی سے تعلق رکھنا یا اُس کی حمایت کرنا جائز ہے؟
جواب
کعبۃ اللہ سے متعلق کیا الفاظ کہے گئے ہیں؟ آپ نے اِس کی صراحت نہیں کی، باقی کسی بھی مسلمان پر بغیر کسی شرعی دلیل کے کافر ہونے کا حکم لگانا، اُس کو کھیل بنا لینا سخت گناہ اور حرام ہے، ایمان کے لئے بھی خطرناک ہے، اِس سے آدمی کا اپنا دین وایمان سلامت نہیں رہتا، لہذا دوسرے مسلمانوں پرکفر کا حکم لگانے والے شخص کو اپنے دین و ایمان کی فکر کرنی چاہیئے، اپنی حرکات سے باز آکر توبہ تائب ہوناچاہیے، ایسے شخص کو حکمت و تدبیر کے ساتھ سمجھایا جائے ،اگر اپنی اِن حرکات سے بازنہ آئے تو اُس سے قطع تعلق کرنا درست ہے۔
مشکوۃ شریف میں ہے:
” حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو اُن دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اُس نے کافر کہا ہے۔
(بخاری ومسلم)
فتوی نمبر : 143801200026
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی۔
فتوی کا انٹرنیٹ لنک
نوٹ: مضمون کا لکھنا اِس لئے ضروری تھا کہ آج کل ہر جگہ خود ساختہ مفتی اور فتوی لگانے والوں کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔ جو اپنی انا کی چوٹ برداشت کرنے کے تو قابل نہیں مگر فتوی لگانے میں دیر نہیں لگاتے۔
اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں