فاسفورس بم ۔۔۔۔ خالد ارشاد صوفی

دوسروں کو عالمی قوانین کی پاسداری کا سبق دیتے نہ تھکنے والے امریکہ نے گزشتہ ہفتے دو بڑی غلطیاں کیں‘ جس کا خمیازہ مشرق وسطیٰ کو شاید کئی برس تک بھگتنا پڑے۔ پہلی یہ کہ شام میں جنگ بندی کے معاہدے کو توڑتے ہوئے شامی فوجی اڈے پر حملہ کیا اور دوسری یہ کہ اس حملے میں فاسفورس بموں کا استعمال کیا، جس سے 80 فوجی ہلاک ہو گئے۔ امریکی جنگی طیاروں نے دیئرالزور میں واقع فوجی بیس کا نشانہ بنایا جس  کے بعد امریکہ اور روس کے اختلافات میں ایک بار پھر شدت آ گئی ہے ۔ روس کا موقف کہ یہ حملہ داعش کی راہ ہموار کرنے کے لئے کیا گیا، اس لئے درست معلوم ہوتا ہے کہ بمباری کے بعد داعش نے اس بیس پر قبضہ کر لیا جبکہ امریکی فوج کا دعویٰ ہے کہ بیس کو جان بوجھ کر نشانہ نہیں بنایا۔ یہ دعویٰ بھی درست نظر نہیں آتا کیونکہ دو ایف سولہ اور دو اے 10طیاروں نے ایک ہی جگہ پر چار حملے کئے جو دفاعی ماہرین کے مطابق محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔ یہ کارروائی یقیناً جان بوجھ کر کی گئی۔

امریکہ اس سے کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتا تھا، یہ تو آنے والے دنوں میں اس کے مزید اقدامات سے ہی پتہ چل سکے گا تاہم فی الحال بات کرتے ہیں اس حملے میں استعمال کیے گئےفاسفورس بموں کی۔ پوری دنیا میں اب تک جو 118 کیمیائی عناصر دریافت ہوئے ہیں، ان میں سے ایک فاسفورس بھی ہے۔ یہ بہت جلد آگ پکڑنے اور جلنے والا عنصر ہے۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ سب نے اپنی زندگیوں میں کئی بار فاسفورس کا استعمال کیا ہے۔ کیسے؟ ارے بھئی ماچس کی تیلیوں کے ایک سرے پر جو سرخ سا مواد لگا ہوتا ہے‘ اس میں فاسفورس بھی شامل ہوتا ہے، سرخ فاسفورس۔ ماچس کی تیلی تو آپ کبھی نہ کبھی ضرور جلائی ہو گی۔ جنگی مقاصد کے لیے سفید فاسفورس استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سرخ فاسفورس کی نسبت زیادہ تیزی اور شدت کے ساتھ بھڑکتا ہے اور بھاری مقدار میں سفید رنگ کا دھواں خارج ہوتا ہے۔ اس لئے فاسفورس بم کسی فوجی اڈے کو مفلوج بنانے اور تباہ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ فاسفورس کا استعمال سب سے پہلے انیسویں صدی عیسوی میں آئرش ری پبلک کی آزادی کے لئے لڑی والی جنگ میں ا ستعمال کیا گیا تھا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی وائٹ فاسفورس سے مخالفین کو نشانہ بنایا گیا۔ 1920 میں عظیم عراقی انقلاب کے دوران برطانوی فوج نے کردوں اور الانبار صوبے میں الحبانیہ کے خلاف وائٹ فاسفورس بموں کا استعمال کیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران ہی امریکی فوج کو وائٹ فاسفورس کے استعمال کی عملی تربیت دی گئی۔ کوریا اور ویت نام کی جنگ میں بھی فاسفورس بم گرائے گئے جبکہ روس نے چیچن آزادی پسندوں کو دبانے کے لیے اس کیمیکل کا استعمال کیا۔ مبینہ طور پر 1988میں صدام حسین نے ہلابجہ پوائزن گیس اٹیک کے لیے سفید فاسفورس استعمال کی۔ پھر 2004میں عراق کی جنگ میں بھی اس کیمیکل کا کھل کر استعمال کیا گیا۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ ہوا تو وہ بھی اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اور اب مشرق وسطیٰ میں بھی اس کا بے دریغ استعمال جاری ہے جس سے ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں اور لوگ زخمی بھی ہو رہے ہیں۔

سفید فاسفورس کے جلنے سے انسانی جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ جب فاسفورس جلتی ہے تو بلند درجہ حرارت پیدا ہوتا ہے، جو دھماکے کی جگہ پر موجود ہر ذی روح کو جھلسا کر رکھ دیتا ہے۔ اگر کوئی انسان اس کی زد میں آ جائے تو بعض اوقات پگھلی ہوئی فاسفورس اس کے کپڑوں اور جلد پر چمٹ جاتی ہے اور ہڈیوں تک جلد کو خاکستر کر دیتی ہے۔ فاسفورس ایک ایسا عنصر ہے جو سورج کی روشنی میں خود بخود جلنے لگتا ہے‘ اس لئے اسے خالص حالت میں نہیں رکھا جا سکتا اور عام طور پر اسے دوسرے کیمیکلز کے ساتھ ملا کر رکھا جاتا ہے۔ یہ کتنا متعامل کیمیکل ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس کے جلنے سے صرف ساٹھ سیکنڈز میں درجہ حرارت 5000 ڈگری فارن ہیٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ اتنے بلند درجہ حرارت کی وجہ سے دھویں کے دبیز بادل اٹھتے ہیں اور وہاں موجود لوگوں کے لئے سانس لینا تک دشوار ہو جاتا ہے۔ سفید فاسفورس سے بننے والے ہتھیاروں میں سے ایک انسننڈئیری گرینیڈ ہے۔ یہ خود بخود آگ پکڑنے والی فاسفورس سے بنا ہوتا ہے، ایسے گرینیڈ دوسری جنگ عظیم سے لے کر اب تک استعمال ہو رہے ہیں۔

یہ سارے حقائق اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ آج کے اس جدید دور میں بھی جب انسان خود کو زیادہ مہذب اور ہر لحاظ سے ترقی یافتہ ثابت کرنے کا خواہاں ہے۔ انسانیت کی معراج کو پانے کی جستجو ہے تو پھر پوری انسانیت ایٹمی اسلحے اور کیمیائی ہتھیاروں کی زد پر کھڑی اپنی بقا کے حوالے سے سوالیہ نشان کیوں بنی ہوئی ہے؟ بڑے اور بوڑھے تو ایک طرف بچے بھی جن کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی‘ جس میں کسی کیمیائی ہتھیار کی تباہی کے شکار بے ہوش بچے دکھائے گئے تھے اور ریسکیورز ان پر ٹھندا پانی ڈال کر انہیں ہوش میں لانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی عائد نہیں ہے؟ اگر ہے تو اس پابندی پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا؟ کیوں جب بھی کسی ملک کے حکمران کا دل چاہتا ہے تو وہ اٹھتا اور کسی بھی جگہ کوئی بھی کیمیائی ہتھیار چلا دیتا ہے؟ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ جوہری ہتھیار سب سے زیادہ خطرناک ہیں کہ جب یہ چل جائیں تو ان سے پیدا ہونے والی تابکاری اپنے رستے میں آنے والی ہر چیز کو نیست و نابود کر دیتی ہے اور اس کے اثرات ایٹمی ہتھیار چلانے کے دہائیوں بعد بھی قائم رہتے ہیں‘ لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ کیمیائی ہتھیار بھی ایٹمی اسلحے سے کچھ کم خطرناک نہیں۔ ایٹمی ہتھیار جب چلیں گے تب ان کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے‘ جبکہ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال اور تعداد‘ دونوں میں تخفیف کی کوششیں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں‘ لیکن کیمیائی ہتھیار تو بلا روک ٹوک استعمال کئے جا رہے ہیں۔ پچھلے سال شامی افواج نے مبینہ طور پر مخالف باغیوں کو زیر کرنے کے لئے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا تو اس پر پوری دنیا میں آواز بلند کی گئی تھی اور اس بلند آہنگ میں بھی یورپی ممالک اور امریکہ کی آواز سب سے نمایاں تھی۔ تب احتجاج کرنے والے اب کہاں ہیں؟ کیا وقت آ نہیں گیا کہ جس طرح ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال روکنے کے لئے قوانین بنائے جا رہے ہیں اور معاہدے کئے جا رہے ہیں‘ اسی طرح کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو محدود بلکہ ختم کرنے کے لئے بھی عالمی سطح پر منصوبہ بندی کی جائے اور جیسا کہ اس سلسلے میں پہلے سے قوانین موجود ہیں (کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی کا عالمی معاہدہ) تو ان کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے اور سفید فاسفورس کو کیمیائی ہتھیاروں میں شمار کر کے اس پر بھی اسی طرح پابندی عاید کی جائے جیسے مختلف گیسز کے استعمال پر عاید ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر عالمی برادری یہ نہیں کر سکتی تو نیو یارک میں جاری اقوام کی سالگرہ کی تقریبات میں اس تنظیم کے قیام سے لے کر اب تک مختلف‘ متعدد جنگوں میں کیمیائی ہتھیاروں سے ہلاک ہونے والوں کے لئے دعا یا ایک منٹ کی خاموشی تو اختیار کی ہی جا سکتی ہے تاکہ اس  عالمی ادارے کے توسط سے دنیا کو ان ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی سے آگاہ کیا جا سکے اور  آگہی میں اضافے کے ذریعے جنگی اخلاقیات کو عصر حاضر کے شعور سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply