ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی “مسنگ پرسنز” معذرت “دہشتگرد” اپنا کام دکھانے گوادر کے پی سی ہوٹل پر حملہ آور ہوئے۔
ایسا نہیں کہ انہیں بغیر مزاحمت گھیر کر ڈھیر کیا گیا۔ ۔ ۔بلکہ وہ اپنے مقصد یعنی دہشت پیدا کرنے اور جزوی نقصان پہچانے میں کامیاب ہوئے پر وہ کچھ زیادہ حاصل کرتے تب تک ذمہ دار اداروں نے ان کو گھیر کر ڈھیر کردیا۔
لیکن ایسے واقعات کے بعد جب کسی ایسے فرد کا نام واقعہ میں نکل کر سامنے آتا ہے جس کو سالوں تک اس کے وارثان گمشدہ, جبری گرفتار یا ریاستی مغوی کے طور پر نمایاں کرتے رہے ہوں اور قوم کے عالی دانشور و صحافتی پیر و مرشد جیسے کہ حامد میر اور سلیم صافی صاحب بھی ان کی ہاں میں ہاں ہی نہیں ملاتے رہے ہوں بلکہ باقاعدہ ریاست کے خلاف ہر کیمپین کا حصہ رہے ہوں اور خود بھی ان تحاریک کو مضبوط کرنے کا باعث ہوں تو ہم جیسے صحافت کے طالبعلم اور محب وطن شہری ان صحافتی پیر و مرشدوں کی شخصیت اور اصلیت پر سوالیہ نشان لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اب یہی دیکھ لیں کہ کل کے واقعہ میں مرنے والے دہشتگردوں میں ایک ایسا بندہ ہمل بگٹی یا حمال بگٹی بھی تھا جس کا نام بلوچ ہیومن رائٹس واچ کی آفیشل ویب سائٹ میں مسنگ پرسن کے طور پر درج تھا لیکن وہ دہشتگردوں کے ساتھ مرنے والوں میں شامل تھا اور یقیناً وہ وہاں افطار ڈنر تو کرنے نہیں گیا تھا اور جاتا بھی کیسے کہ وہ تو مسنگ تھا؟
پہلے بھی اسی طرح چھ ماہ پہلے کراچی میں چائنیز قونصلیٹ پر ہوئے حملے میں مردار ہونے والا ایک دہشتگرد مسنگ پر سن نکلا تھا اور کل بھی ایک مسنگ پرسن دہشتگردانہ حملے میں ملوث نکلا تو قوم خاص کر ہمارے جیسے صحافت کے طالبعلم اب یہ ماننے پر مجبور ہورہے ہیں کہ اول تو مسنگ پرسنز والی تحریک ایک شوشہ ہے جو اصل بات کو چھپانے کے لیے خود چھوڑا گیا ہے مطلب ہر مسنگ پرسن کے گھر والوں کو ہی نہیں بلکہ ان کی حمایت میں بولنے اور لکھنے والے سیاستدانوں اور صحافیوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن کا نام لیکر وہ ریاستی اداروں کے خلاف تحریک بپا کیے کھڑے ہیں وہ دراصل علیحدگی پسند دہشتگرد گروپس کے ساتھ مصروف عمل ہیں یا افغانستان, ایران اور بھارت کے ٹریننگ کیمپس میں تربیت لے رہے ہیں۔
شرم آنی چاہیے ایسے صحافیوں اور سیاستدانوں کو جو ریاست کے باغیوں اور دہشتگردوں کے نام لیکر ریاست کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور جان بوجھ کر جھوٹی کہانیوں کو عام کرکے عوام اور ریاست کے درمیان خلاء پیدا کرتے ہیں۔
پہلے بھی کراچی والے حملے کے بعد صحافتی پیر و مرشدوں کی زبان کو تالا لگ گیا تھا اور کل سے بھی ماما قدیر, حامد میر اور سلیم صافی صاحب کو سانپ سونگھا ہوا ہے۔
سرکار جس طرح آپ کو حق اور آزادی ہے کہ آپ ریاست سے جبری گمشدگیوں بابت سوال کریں بالکل اسی طرح ہمیں اور ریاست کو بھی یہ حق اور آزادی حاصل ہے کہ اب آپ سے سوال کیا جائے کہ جناب یہ تو مسنگ پرسن تھے مطلب ریاست کے مغوی تھے پھر یہ کس طرح ایک عوامی جگہ پر مسلح کاروائی کرنے پہنچ گئے اور مارے گئے؟
تف ہے ایسی صحافت اور سماج سیوا پر کہ جبری گمشدگی جیسے حساس موضوع اور مسئلے کو ذاتی مفادات کی تکمیل کی خاطر استعمال کیا کہ اب اگر کل کو کوئی واقعی جبری گم ہوا تو عوام اور ریاست اس کو اہمیت نہیں دے گی۔
یہ بالکل وہی بات ہوئی کہ شیر آیا شیر آیا اور درحقیقت شیر آہی گیا مطلب مسنگ پرسن مسنگ پرسن کرنے والوں کا شور جھوٹ اور دغا ہی ثابت ہوا جبکہ وہ مسنگ پرسن ریاستی دہشتگرد اور حملہ آور نکلے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ اب ریاست مسنگ پرسن تحریک چلانے والوں کو کچھ دن کے لیے مس کرکے ان سے باقی مسنگ پرسنز کا کچا چٹھا بھی نکلوائے اور ان مسنگ پرسنز کو پاتال سے بھی ڈھونڈ لائے اور عوام کے سامنے لا کھڑا کرے۔
حد ہے اور بے حد ہے کہ اتنی غیر ذمہ دار صحافت اور سیاست؟
چلیں بھئی آپ کا ریاست سے کوئی نظریاتی و انتظامی اختلاف ہے تو آپ کریں پر یہ کونسی انسانیت اور صحافت ہے کہ آپ بغض برائے بغض کا شکار ہوکر خود کہانیاں گھڑیں اور ریاست کو ہر وقت کٹہرے میں کھڑا کرکے سوال کرتے رہیں۔
یہی مسنگ پرسنز جب دہشتگردی میں ملوث ہوتے ہیں تب آپ ہی کی زبان باہر لٹکی رہتی ہے کہ کہاں ہے ریاست کی رِٹ؟, کدھر ہے نمبرون؟ اور کہاں ہے دی بیسٹ آرمی؟
جناب یہ روش غلط ہے کہ ہمدردی ہو مقتول سے بھی اور دوستی ہو قاتل سے بھی۔
میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے ریاستی اداروں سے درخواست کروں گا کہ ایک بار سنجیدگی سے مسنگ پرسنز ایشو اور اس کو ہائی لائیٹ کرنے والوں کا مجموعی حل نکالیں تاکہ عوام کی کنفیوژن دور ہو۔

کیونکہ اب یہ ایک بہت بڑا جواب طلب سوال ہے کہ ہر مفقود الخبر انسان کیا واقعی مسنگ پرسن ہے یا دہشتگرد؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں