جو مِرے جیسا ہی پاگل سا ہُوا کرتا تھا
اب کسے میری طرح پھرسے کرے گا پاگل
ہوش نہ آئے تو خوش بختی ہی ہوگی ، ورنہ
ہوش کی آگ میں کیسے یہ جلے گا پاگل
ہوش والو ! مجھے مدہوشی میں گُم رہنے دو
ہوش میں آگیا تو کیسے جئے گا پاگل
عقل کی راہ پہ چاہتے ہو کہ مَیں ساتھ چلوں ؟
چھوڑ کر عشق و جُنوں کیسے چلے گا پاگل
اس لئے اُس کو دِکھاتا نہیں آنسو اپنے
Advertisements

ہنستے ہنستے وہ مجھے پھر سے کہے گا “ پاگل “
Facebook Comments
واہ واہ واہ
بہت خوبصورت غزل ہے ۔۔۔
واااااااااہ
بہت عمدہ غزل ۔
فیصل بھائی ہمیشہ لاجواب لکھتے ہیں