طلاق، حلالہ، زنا۔۔۔رابعہ احسن

کیا اتنی مشکلوں اور کہیں کہیں محبتوں سے جڑا رشتہ یوں تین سیکنڈز میں ختم ہوسکتا ہے؟ کبھی کبھی محبتوں اس لئے لکھا کہ ہمارے ہاں شادی کا محرک کبھی بھی خالصتاً صرف محبت نہیں ہوتی ۔ اتنی بار اپنے سامنے کتنے خاندانوں میں یہی سب ہوتے دیکھا۔ ایک فیملی کو تو صبح ہنستے کھیلتے شاپنگ کرتے دیکھا اور شام کو مسجدوں میں مولویوں کے پاس بھاگتے اور بچوں کو شیلٹر ہوم کے اندر جانے کے خوف سے روتے بھی دیکھا۔ خیر مولویوں کی دنیا ہی الگ ہے ۔ وہ فوراًمیاں بیوی کو ہر صورت الگ ہوجانے کا حکم صادر کردیتے ہیں ۔ گویا ایک دوسرے کیلئے مکمل نامحرم۔ یہ جو اتنے سالوں سے ایک دوسرے کی خلوتوں کے محرم تھے ۔ ایک دم سب ختم ہوگیا۔ عقل تسلیم ہی نہیں کرتی ۔ پھر اس کے بعد شروع ہوتا ہے ہمارا ڈراموں، مولویوں، رسالوں اور ناولوں کا بتایا گیا انتہائی شرمناک طریقہ کار۔ اس بات کو بھی عقل تسلیم نہیں کرتی کہ صرف عورت ہی کیوں حلالہ کرے ۔ اور پھر اس کو ڈراموں میں اتنا پروموٹ کیا گیا کہ لگنے لگا کہ طلاق اور حلالہ لازم و ملزوم ہیں ۔

مجھے تو یہ بھی اک گھناؤنا کاروبار لگتا ہے جسے مذہب کی آڑ میں جائز قرار دلوانے کے لئے پیسے اور پاکستانی میڈیا اور ملاؤں کا خوب استعمال کیا گیا۔ آج یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کیا حلالہ زنا جیسا نہیں ؟؟ ریپ جیسا نہیں ؟ بلکہ اس میں تو عورت طوائف سے بھی بدتر حالت میں ہوتی ہے۔ ایک گھر ، ایک رشتے کے بندھن اور سکون سے نکالی ہوئی بے بس عورت جس جذباتی، نفسیاتی اور سماجی طور پر انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہوتی ہے ۔ اسے حلالہ جیسے اذیت ناک اور شرمناک پراسیس سے گزارا جائے۔ اور کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس زنا میں شوہر اور گھر والے سب شریک ہوجاتے ہیں تاکہ ادھر سے طلاق دلواکر دوبارہ اس کا ٹوٹا ہوا گھر بسایا جاسکے۔

یہاں پہ پھر یہی خیال واثق ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے نے عورت کو جسم سے آگے کبھی کچھ سمجھا ہی نہیں۔ اس کے جسم پہ سب گزرتا ہے اور روح سہتی ہے۔ یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ ایک گھر ، اپنے بچے عورت کیلئے کس قدر اہم ہیں کہ اکثر وہ اس انتہائی کریہہ عمل کیلئے بھی تیار کر لی جاتی ہے۔ حلالہ کے بعد دوسرا مرد عورت کو چھوڑے یا نہ چھوڑے ۔ یہ خوف الگ۔ سو یہ سہرا بھی اکثر مولویوں کے سر ہی سج جاتا ہے جو کہ پیسے لے کر اپنی شدید دینی خدمات دینے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔ یا ایسے لوگ ڈھونڈ دئیے جاتے ہیں جو مرد ہوں بھی اور نہ بھی ۔۔۔۔ مطلب عورت سے نکاح کر کے نکاح کے تقاضے بھی نبھا نہ سکیں۔

حلالہ اور اس جیسی کریہہ چیزوں پہ بحث بہت لمبی ہے۔ بہت سارے لوگوں کو اس تحریر پہ اعتراض بھی ہوسکتا ہے مگر یہ کہیں سے بھی میرا ذاتی پوائنٹ   آف  ویو نہیں ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اپنے ارد گرد اتنے شارٹ نوٹس پہ طلاقیں ہوتے دیکھ کر اور حلالہ کے تذکرے سن کر بہت عجیب لگتا تھا ۔ ذہن قبول ہی نہیں کرتا تھا۔ اور کرتا بھی کیسے؟ کیونکہ ذہن کبھی غلط چیزکو قبول کر ہی نہیں سکتا مگر آج سے نو دس سال پہلے جب دورہ قرآن غور سے سناتو سمجھ آیا۔۔ ایک آدھ بار قرآن کا ترجمہ بمع تفسیر پڑھا تھا مگر شاید اس وقت غوروفکر کم کیا تھا۔ کہ طلاق تو رائج الوقف طریقہ کار سے بہت مختلف ہے۔ اس دن یقین آگیا کہ انسانی ذہن لوجیک پہ سوچتاہے ہمیشہ۔ اور قرآن نے طلاق کو خوشگواریت میں بدلنے اور رشتہ محفوظ کرنے کی ہر ممکن لوجک دے دی۔ طلاق تین لفظوں میں نہیں بلکہ تین مرحلوں میں طے پاتی ہے ۔۔ لمحوں میں سرزد نہیں ہوتی۔ اور پھر گھر سے دھکے دے کر ننگے پاؤں باہر نہیں نکال دیا جاتا بلکہ شوہر کے گھر میں رہنے کا حکم ہے تاکہ صلح اور رجوع کے مواقع میسر آسکیں ۔ یہاں تو بیوی کو شوہر سے پردہ کرادیا جاتا ہے اور اگر وہ تین منٹ کی طلاق کے بعد بھی ساتھ رہنے کی جسارت کرلیں تو خاندان اور آس پڑوس کے لوگ جینا حرام کردیتے ہیں

اگر میاں بیوی ساتھ رہنے کا فیصلہ کرلیں تو خاندان والے ان سے بائیکاٹ کردیتے ہیں ۔ ان کے رشتے کو حرام قرار دیتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنے کو گناہ کبیرہ۔ ایسے میں حلالہ جیسی ناپاک آپشن فرض کی طرح سامنے آجاتی ہے ۔ ایک عورت کیلئے یہ مرحلہ کس قدر تکلیف ہے۔ جو سب صرف زمانے کا رائج کردہ ہے ۔ قانون اور مذہب اسے تمام سہولیات دیتے ہیں مگر اس کے اپنے ، اپنے خیرخواہ دنیا کے رسم ورواج کے آگے دماغی طور پر معذور ہوجاتے ہیں۔

ہمارا المیہ ہے کہ ہم نہ قانون کی عملداری کرتے ہیں نہ مذہب کی۔ جانے کہاں سے مذہب میں ایسی چیزیں شامل کردی گئیں کہ جن کو دل ماننے کو تیار نہیں۔ جو اپنے ذکر سے ہی کریہہ معلوم ہوتی ہیں ۔

پہلے لوگوں کی شادی نہیں ہورہی ہوتی ۔ بڑی مشکل سے اگر ہوہی جائے تو پھر کوئی ایک یا دونوں فریقین نبھانے کی اہلیت نہیں رکھ پاتے یا دیگر حالات ، عوامل اور خاندان والے شادی کو چلنے نہیں دیتے۔ پتہ نہیں ہمارے ہاں ہر ایک کو اس کا اصل مقام کیوں دیا نہیں جاتا۔ رشتوں کو محبت اور خداخوفی سے نبھایا نہیں جاتا بلکہ ہر کوئی اپنی جگہ پر خدا بن بیٹھتا ہے۔

رشتوں کو آزار بنا کے رکھ دیاجاتا ہے ۔ ہمارے دین نے دونوں فریقین کیلئے ازدواج اور بصورت دیگر طلاق ہر دو معاملات میں محض آسانیاں رکھی ہیں ، تحفظات اور انسانیت رکھی ہے مگر افسوس آج کسی بھی طرح سے نہ تو کوئی مذہب کو مانتا ہے نہ قانون پہ عملدرآمد کرتا ہے ۔ تو ایسی صورت میں اصل احکامات سے ہٹ کر دین میں بدعات ہی شامل ہوں گی۔

julia rana solicitors

جہاں محض باتوں تک دین رہ جائے اور عمل اپنی اپنی مرضی کا ہو تو رشتوں اور معاشرے میں انتشار کے علاوہ کچھ نہیں بچتا ۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply