گدا گری کا” کمپٹیسن “۔۔۔علی اختر

راقم یار باش ملنگ قسم کا آدمی ہے ۔ اپنے لڑکپن کے زمانے سے ہی ناظم آباد کراچی میں انکوائری آفس پر واقع ایک پارک میں واک اور رننگ کرنے جاتا تھا۔ وہاں ایک فقیر کو ہاتھ میں ناڑے اٹھائے بھیک مانگتا دیکھنا روز کا معمول تھا ،تو ہم ایک دوسرے سے مانوس ہو گئے ۔ آہستہ آہستہ سیاہ رنگت اور کمزور جسم والے اس فقیر سے دعا سلام ہو گئی۔پتا چلا کہ  اسکا نام کالیہ ہے اور یہیں پل کے نیچے واقع خانہ بدوشوں کی بستی میں رہتا ہے۔ دن گزرتے گئے اور آہستہ آہستہ میری کالیہ سے پکی دوستی ہو گئی ۔ اکثر ہوتا کہ  رننگ کے بعد جب میں ایک مخصوص بینچ پر بیٹھ کر پسینہ سکھا رہا ہوتا تو وہ ساتھ آکر بیٹھ جاتا ۔ کچھ دیر کی بات چیت ہوتی پھر میں گھر آ جاتا ۔

پھر ایک دن وہ ملا ۔ بہت خوش تھا ۔ بولا صاحب شادی بنا رہا ہوں ۔ میں نے مبارک باد دی ۔ پھر ایک دن پارک میں وہیل چیئر پر ایک معذور پریشان حال عورت  نظر آئی۔ وہیل چیئر کالیہ چلارہا تھا اور بھیک مانگ رہا تھا ۔ مجھے دیکھتے ہی دوڑا دوڑا پاس آیا۔ ” سلام صاب! میری بیوی لکشمی ” اس نے وہیل چیئر کی جانب اشارہ کیا ۔ لکشمی نے بھی وہیل چیئر سے پریشان چہرے پر اچانک ایک بھرپور مسکراہٹ لا کر میری جانب ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا اور دوسرے ہی لمحے دوبارہ چہرے کے تاثرات پریشان کر لیے ۔ “ابے کالیہ ! تو نے معذور لڑکی سے شادی کی ہے ؟ ” میرے سوال پر وہ ہنس دیا “ارے نہیں صاب ۔۔ وہ کہتے ہیں نا کمپیٹیسن بہت ہے ” اس نے آنکھ مار  کر جواب دیا اور پھر بھیک مانگنے میں مصروف ہو گیا۔۔

کالیہ نسل در نسل فقیر تھا ۔ اسکی روزی روٹی کاروبار وغیرہ سب بھیک مانگنا ہی تھا ۔ مجھے کالیہ ہی کے بابت علم ہوا کہ بھیک مانگنا اتنا سادہ کام نہیں جتنا کہ  ہم سمجھتے ہیں ۔ کسی بھی کاروبار کی طرح اس میں بھی  ٹارگٹ  مارکیٹ ہوتی ہے ۔ پراڈکٹ انوویشن اور ایریاز آف بزنس ہوتے ہیں ۔ کمپیٹیشن ہوتا ہے ۔ سب سے بڑھ کر اینٹر پینیور بھی ہوتے ہیں جو نت نئے آئیڈیاز لا کر پرانے طریقوں سے مانگنے والوں کے دھندوں کی واٹ لگا جاتے ہیں اور بڑا مارکیٹ شیئر لے جاتے ہیں ۔

دن مہینے اور مہینے سال بن کر گزرتے گئے ۔ ایک دن پارک میں ایک بچہ اسکول بیگ اٹھائے مسکین سی صورت لیے پاس آیا ۔” صاحب اسکول کی فیس کے پیسے نہیں ہیں کچھ مدد کردیں ” ۔ راقم کا دل بھر آیا اور ہاتھ بے اختیار جیب کی طرف بڑھا تو عقب سے کالیہ کی آواز آئی۔ “ارے چھوڑ صاحب کو ۔ یہ اپنے ہی آدمی ہیں ” پریشان صورت بچہ اچانک مسکراتا ایک جانب بھاگ گیا ۔ “صاحب اپنا ہی بال ہے ۔ یہ علاقہ اسکو دیا ہے ” کالیہ نے بچے کے معاملے کی وضاحت کی ۔ “کتنے بچے ہو گئے تمہارے ” میرے سوال پر کالیہ نے ذہن میں حساب کیا ” صاحب پورے آٹھ ہو گئے ہیں ” “ابے اتنے سارے بچوں کا خرچہ کیسے اٹھاتا ہے ؟ ” ۔ میرے اس سوال پر کالیہ کھلکھلا کر ہنس دیا “صاحب یہ آ پ لوگ کے بچے نہیں ہیں ۔ میرا فی بچہ پانچ سو کی دیہاڑی بناتا ہے ۔ وہ کیا ہے نا کمپیٹیسن کا دور ہے ۔ ابھی گھر کے سب لوگ کام کریں تو ہی گزارہ چلتا ہے ۔ جتنے بچے اتنی کمائی ۔ ویسے بھی صاب مقابلہ بہت بڑھ گیا ہے اس دھندے میں ۔ یہ بڑے بڑے ٹرسٹ والے آج کل لوگوں سے ویسے ہی زکوٰۃ خیرات ، صدقے کے بکرے سب لے جاتے ہیں ۔ اگلے چار سال تک میرے بچوں کی تعداد بارہ تک نہ پہنچی تو سمجھو اپنی دکان بند ” ۔ راقم اسکی بزنس فورکاسٹنگ پر غور کرتا گھر آگیا ۔

دن پر لگا کے اڑتے رہے ۔ کالیہ کی پراڈکٹ انوویشن دن بدن بڑھتی جا رہی تھی ۔ کبھی وہ گردے  کی الٹرا ساؤنڈ رپورٹ دکھا کر بھیک مانگتا ملتا تو کبھی اسکے بچے سفید کرتے میں ملبوس ٹوپی لگائے گاؤں کی زیر تعمیر مسجد کے لیئے چندہ اکھٹے کرتے نظر آتے ۔ وجہ پوچھو تو بس “کمپٹیسن” کا مختصر سا جواب ملتا ۔

ابھی پچھلے سال جب میں کئی روز کے ناغے کے بعد پارک پہنچا تو ایک فالج کے مریض شکستہ حال سے نابینا فقیر کو دیکھ کر دل بھر آیا ۔ قریب آنے پر معلوم ہوا کہ  یہ تو وہی کمینہ کالیا ہے ۔ ایک دل نے کہا کہ اچھا ہی ہوا جھوٹا اپنے انجام کو پہنچا ۔ لیکن اگلے ہی لمحے ضمیر کے ملامت کرنے پر میں نے قریب جا کر غمزدہ سی آواز بنا کر پوچھا ۔” کالیہ میرے دوست ! یہ آنکھوں کو کیا ہوا ” ۔ میری بات سن کر کالیہ نے کالا چشمہ اتار کر ادھر اُدھر دیکھا پھر سرگوشی کے انداز میں گویا ہوا۔ ” صاب ! آپکے دوست کو کچھ نہیں ہوا ۔ یہ سب کمپیٹیسن ہے بس ” ۔ “ابے انسان کا بچہ بن ۔ یہ کون سا کمپیٹیشن ہے جس نے تجھے اندھا اور لقوہ کا مریض بننے پر مجبور کر دیا ” مجھے کالیہ کے اس بیہودہ ناٹک پر غصہ آگیا تھا ۔ “صاب ! آپ بہت بھولے ہو ۔ آپکو پتا نہیں ابھی لوگ ڈیم بنانے کو صدقہ خیرات دے رہے ہیں ۔ اپنا سارا بچہ لوگ میں بس وہی والا چھوٹا موٹا دھندا کر رہا ہے جسکی ٹانگ ٹرک کے نیچے آکر ٹوٹ گئی تھی ۔ باقی سب کا سب بچہ لوگ ناکارہ پڑا ہے ۔ ہر حربہ آزمایا لیا کوئی کچھ دیتا نہیں ۔ صاب اولاد ہے میری ۔ اب سبھوں کو ٹرک کے نیچے تو دے نہیں سکتا تو بس اس طرح اندھا بن کے  دال روٹی کما رہا ہوں ” ۔ کالیہ کی اس تفصیلی وضاحت پر پہلی بار مجھے اس دھندے میں کمپیٹیشن کا اندازہ ہوا۔

ابھی پچھلے ہفتے پارک جانے کا اتفاق ہوا تو گیٹ کے ساتھ ہی ایک دلخراش منظر میرا منتظر تھا ۔ ایک عورت سامنے کپڑا بچھائے بین میں مصروف تھی اور کپڑے پر ایک بے سدھ لاش پڑی تھی ۔ “او ہ۔۔روزہ دارو ، اللہ نبی کے پیارو ، میرا مرد مر گیا ہے ، دفنانے کا تو انتظام کرا دو ” ۔ میں جلدی سے اس جانب گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ  وہ عورت کالیہ کی بیوی لکشمی تھی ۔ لاش کی جانب غور کرنے پر کالیہ جیسی فیلنگ آ ئی۔ ارے یہ تو کالیہ تھا۔ بیچارہ فوت ہو گیا ۔ دل پر ضرب لگی ۔ “تم فکر نہ کرو اسکے کفن دفن کا انتظام میں کرا دونگا ” میں نے کالیہ کی بیوہ سے کہا تو اسے جیسے کچھ وقت کے لیئے قرار آگیا ۔ بین اور ماتم کا کا سلسلہ کچھ تھما ۔ کالیہ سے بہت پرانا تعلق تھا تو میں نے غمزدہ ہو کر اسکی لاش کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی ۔ اچانک دھچکا سا محسوس ہوا ۔ ہاتھ نرم تھا اور لاش کی طرح ٹھنڈا بھی نہیں تھا ۔ نبض چیک کی تو ٹکر ٹکر چلتے ہوئے پایا ۔ “ارے یہ زندہ ہے ۔ یہ زندہ ہے ” میں خوشی سے چیخا تو کالیہ اچانک اٹھ کر بیٹھ گیا ۔

“ارے صاب مجھے بھی پتا ہے کہ  میں زندہ ہوں ۔ یوں اعلان کرکے دھندے کی واٹ کیوں لگا رہے ہو “. “ابے کالیہ ، کمینے تو پیسے کے لیئے اتنا گر گیا کہ  لاش بن کر بھیک مانگ رہا ہے ۔ شرم کر ” میں غصہ میں نجانے کیا کچھ بول گیا ۔ “ارے صاب میری اس حالت کے ذمہ دار آپ ہی لوگ ہو ” اس جوابی غصے  کی مجھے امید نہ تھی ۔ “آپ کو یقین نہیں آتا نا ۔ یہ دیکھو ” یہ کہہ کر اس نےایک کاغذ کا پرچہ چادر کے نیچے سے نکال کر مجھے تھما دیا ۔ “پڑھو صاب ۔ پڑھے لکھے تو ہو نا ؟ انگریزی میں ہے ” ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ پرچہ ایم این اے علی محمد خان کی جانب سے سعودی ایمبیسی کو لکھا گیا خط تھا ۔ جس میں ایک ارب   روپےسڑکوں کی مرمت کے لیئے۔ تین سو بستروں کا ایک ہسپتال، تیس کفن دفن کے مراکز ، مساجد وغیرہ کی تعمیر کے لیئے امداد کی درد مندانہ اپیل کی گئی تھی ۔ میں نے خط تفصیل سے پڑھا۔ “پڑھ لیا صاب ۔ اب مجھے خود انصاف سے بتاؤ ۔ ابھی ملک میں کل کتنے ایم این اے ہیں ۔ ابھی تو شروعات ہے ۔ آگے جا کر ہم کہاں جائیں گے ۔ صاب یہ ہمارا دھندا تھا ۔ اب آپ جیسا لوگ بھی یہ سب کریں تو ہمیں تو وقت سے پہلے لاش بننے سے ہی کچھ ملے گا نا ۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم تو کچھ اور کام جانتے بھی نہیں ۔ اب جاؤ واک کرو اور دھندے کے ٹائم لیکچر دینا بند کرو “. یہ کہہ کر اس نے میرے ہاتھ سے لیٹر چھینا اور ایک بار پھر لاش بن کر لیٹ گیا ۔ میں خاموشی سے واک کرتے سوچ رہا تھا کہ  واقعی اس کاروبار میں کتنا “کمپیٹیسن” ہو گیا ہے ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply