غریب مہ شے (حصۂ اوّل)۔۔۔ عبداللہ چنگیزی

 

پہلا حصہ 

ایک دوست کی داستان جس کا ہر لفظ زہر میں ڈوبا ہے۔

کہتے ہیں لکھنے کے لئے مُشاہدے کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اِسی قانون پر عمل کرتے ہوئے ہر خاص و عام اور حالات و واقعات کو دیکھنے، پرکھنے اور سمجھنے کی ایک عادت سی بن چکی ہے۔ یوں تو ہر ایک کہانی میں لکھاری کی کاوش شامل ہوتی ہے اور وہ اُس کہانی میں ذائقہ اور مٹھاس پیدا کرنے کے لئے خیالی کرداروں کا سہارہ لیتا ہے۔ جس کی وجہ سے کہانی میں ایک ربط پیدا ہوکر قاری کے سامنے ایک منفرد انداز میں پیش ہوتی ہے۔ مگر حقیقی کہانیوں میں ایسے کرداروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ خود اپنا مدعا بیان کرتی ہے اور ایسی شاہکار بنتی ہے کہ قاری داد دیئے بنا نہیں رہ پاتا۔ ایک ایسی کہانی جو ایک دوست کی داستانِ حیات ہے پیشِ خدمت ہے۔

ہمارا تعلق ایک متوسط خاندان سے ہے یا آپ اسے سفید پوش کہہ سکتے ہیں۔ والد صاحب کی ایک ڈاکخانے میں سرکاری نوکر تھے۔ جس کی تنخواہ اتنی تھی کہ ہمارے کنبے جن میں ہم ہمارے تین بھائی ایک بہن والدہ اور چاچی کے ساتھ ہمارا ایک چچا زاد ہے شامل تھے کا گزارہ بڑی مشکل سے ہوتا تھا۔ چچا ہمارے باہر ملک دبئی میں ہوتے تھے مگر ایسے گئے کہ جب بھی پاکستان سے گئے پانچ یا سات سال تک واپس گھر نہیں آتے تھے۔ چونکہ ہمارا خاندان مشترک تھا چچا کے ساتھ اِس لئے والد صاحب پر معاشی طور پر بوجھ زیادہ ہوتا تھا۔ جس کا حل اُس نے یہ نکالا تھا کہ اپنی نوکری کے بعد ایک عدد چھوٹے سے دکان میں جو کہ ہمارے گھر کے ساتھ ہی تھا اُس میں منیاری کی دکان ڈالی ہوئی تھی۔ اُس سے اتنا ہوتا کہ گھر کے حالات ایسے رہتے کہ روکھی سوکھی میں اللہ تعالی کے فضل سے کبھی رکاوٹ نہیں آتی تھی۔

ہماری عمر چونکہ بہت کم یہی کوئی سات سال کی تھی اور چچا زاد کی عمر چھ سال یعنی مجھ سے ایک سال چھوٹا اِس لئے والد صاحب کے ساتھ تو ہاتھ بٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ہم ساتھ ہی سکول جاتے جو کہ ایک فوجی سکول تھا اور اُس میں فیس قریباً دو سو روپے ماہوار تھی۔ باقی کے دو بھائی اور ایک بہن چھوٹے تھے جن کو ابھی سکول میں داخل نہیں کیا گیا تھا۔ یوں زندگی کی گاڑی چلتی رہی اور ہم اپنے بچپن کے دن گن گن کر گزارتے گئے۔ بچپن کی ایک خاصیت یہ ہوتی ہے کہ بندہ دنیا کے ظالم شکنجہ سے آزاد چڑیا بن کر اڑتا رہتا ہے۔ نہ اسے گھر کی فکر اور نہ ہی زندگی کی ضرورتوں کی پریشانی۔ والد صاحب بہت محنتی تھے۔ ہر روز باقاعدگی سے اپنی ڈیوٹی پر جاتے اور کام ختم کرکے واپس اپنی دکان کھول کر رزقِ حلال کے لئے بیٹھ جاتے۔

ہمیں اُس وقت یہ معلوم نہ تھا کہ ہمارے جو چچا پردیس میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں وہ کیا کرتے رہتے ہیں۔ ہاں اگر کبھی معلوم ہو بھی جاتا تو اُس وقت جب گھر میں ہمارے والد کے ماموں تشریف لے آتے اور اُن کی موجودگی میں ہمارے دادا جی کے ٹیپ ریکارڈر پر ایک کیسٹ ریکارڑ ہوتی جو ہمارے پردیس میں رہنے والے چچا کے لئے ہوتی۔ والد صاحب کے ماموں اُس کیسٹ میں یہی ایک بات بار بار دہراتے کہ

” اپنے گھر والوں پر کچھ رحم کیا کرو اور مہینے کچھ نہ کچھ رقم بھیج دیا کرو خرچے پانی کے لئے آپ کا بھائی اکیلا اس مشکل وقت میں گھر بار کو سہارے دیئے بیٹھا ہے”۔

ہم اُن باتوں کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ ہاں اتنا ہوتا کہ آخر میں ہماری باری آتی کچھ ریکارڑ کروانے کی تو ہم اپنے انجان چچا سے چھوٹی بڑی فرمائشیں کرتے جو کبھی پوری نہ ہوتی تھی۔ کیسٹ بھیجی جاتی اور انتظار کیا جاتا مہینے کے آخر کا مگر سوائے اللہ کے نام کے کچھ موجود نہ ہوتا۔ کیسٹ کا جواب آنا بہت بڑی بات تھی۔

جوں جوں ہم بڑے ہوتے گئے ہماری سمجھ میں دنیا کے تلخ تجربات آتے گئے۔ اُس وقت جب ہم ساتویں جماعت کے طالب علم تھے والد صاحب کی تنخواہ کوئی سات ہزار کے قریب تھی۔ اُن سات ہزار میں اتنی برکت تھی کہ گھر بار کے سارے خرچوں کے علاوہ آس پڑوس میں شادی بیاہ اور فوتگی وغیرہ پر بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہمارے والد صاحب کی طرف سے شامل ہوتا تھا۔ ہمارے ہوش نے کچھ ٹھکانہ پکڑا تو والد صاحب کے ساتھ سکول ختم ہونے اور مسجد میں قرآن مجید کی سبق پڑھنے کے بعد دکان میں بیٹھ جایا کرتے اور والد صاحب کچھ دیر سونے یا آرام کرنے کے لئے گھر چلے جاتے۔ زندگی گزرتی رہی اور ہم نے آٹھویں جماعت میں قدم رکھا تو زندگی میں ایک طوفان آیا۔ ہمارے دوسرے چچا جو گاوں میں رہتے تھے اُن کے ایک بیٹے کی دبئی میں کسی کے ساتھ لڑئی کے دوران موت ہو گئی اور جوان بیٹے کی موت کی خبر سن کر ہمارے دوسرے چچا یعنی ہمارے دبئی والے چچا زاد کے والد صاحب کا بیٹے کی جدائی اور اچانک موت کا سن کر ہارٹ فیل ہوا اور پہلے اُس کی تدفین ہوئی دو دن بعد چچا زاد کی لاش دبئی سے لائی گئی تب اسے سپرد خاک کیا گیا۔

خاندان میں اِس اچانک واقعے نے ہم سب کو خاص کر ہمارے والد صاحب کی طبیعت پر شدید منفی آثرات چھوڑے اور وہ گم سم رہنے لگے۔ ہمارے اُس چچا زاد کی موت ایک لڑئی میں ہوئی تھی اور قاتِل کو امارات کے پولیس نے پکڑا ہوا تھا۔ اُس قاتل کے گھر والے اُسی دن سے ہمارے گاوں کے مکان پر آتے اور بخشش کی بھیک مانگا کرتے مگر “پختون روایات اور غیرت” کی اندھی اور ظالم معاشرے میں یہ گوارا نہ تھا کہ کوئی اپنے خاندان کے کسی فرد کے قاتل کو معاف کرتے۔ لہذا اُس معاملے کو یونہی چھوڑ کر ہم اپنے گھر آئے اور زندگی رواں ہو گئی۔ کچھ مہینوں بعد یہ خبر آئی کے وہ قاتل دبئی پولیس نے چھوڑ دیا اور بےحد پیسہ اور جعلی معافی نامہ بنا کر وہاں عدالت میں پیش کردیا گیا تھا۔ جس کی بنیاد پر عدالت سے اسے معافی ملی اور اسے دبئی سے ڈی پورٹ کردیا گیا۔

پختون معاشرے میں خون کا بدلہ خون ہوا کرتا ہے۔ اِس وجہ سے والد صاحب کافی پریشان رہنے لگے۔ کیونکہ اب گھر بار چلانے کے ساتھ ساتھ اسے اپنے خون کا بدلہ بھی لینا تھا۔ ہمارے دوسرے چچا جو دبئی میں ہی تھے وہ اِس تمام واقعے کے بعد بھی گھر نہیں آئے۔ یوں مشکلات میں اضافہ ہوتا رہا اور اکیلے والد صاحب پر اتنے مصائب کا بوجھ پڑنے کے بعد وہ برداشت کے قابل نہیں رہا تھا۔ انہی دنوں میرے دسویں جماعت کے امتحانات قریب تھے کہ شہر میں شیعہ مسلم فسادات شروع ہو گئے اور بات اِس حد تک پہنچی کہ سنی آبادی نے اُس شہر سے نقل مکانی کردی اور ہم ہمارے اسی گاوں کے گھر میں آگئے جہاں سال پہلے دو جنازے اٹھے تھے۔ دشمن کا خطرہ اور کاروبار کی بربادی نے والد صاحب کو کافی حد تک عمر سے پہلے ہی بڑھاپے کی طرف دھکیلنا شروع کردیا۔

ہم نے اپنا دسویں کا امتحان نہیں دیا اور یوں ہماری زندگی جنت سے دوزخ میں تبدیل ہو گئی۔ والد صاحب نے گاوں میں ایک دکان دیکھی اور اُسی میں وہی کاروبار شروع کی مگر ایک تو گاوں اور دوسرا کاہگوں کا نہ ہونا اسے پسند نہیں آیا لہذا اُس گاوں سے ہجرت کرکے ایک دوسرے شہر میں آگئے۔ والد صاحب ایک سال پہلے ریٹائرمنٹ لے چکے تھے اور اب گزارا اُس کی پنشن پر ہوتا رہا تھا۔ شہر انجان اور گھر جب کرائے کا ہو اور ذریعہ آمدن نہ ہو تو اِس بات کا دکھ وہی جان پاتے ہیں جو ایسے حالات سے گزر چکے ہوں۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم واپس اپنے گاوں آگئے۔ دوبارہ ایک دکان کرائے پر لی اور کچھ سامان جو کہ پرانا رہ گیا تھا اور کچھ نیا لے کر اُس میں رکھ دیا۔

والد صاحب کی طبیعت گاوں کے ماحول میں ضَم نہیں ہو رہی تھی۔ جس کا حل یہ نکلا کہ والد صاحب نے قریبی ایک قصبے میں جو کہ کچھ آباد سا تھا وہاں ایک دوسرا دکان لیا اور کچھ ٹوٹا پھوٹا منیاری کا سامان اُس میں رکھ کر وہاں اپنا دن گزارنے لگا۔ رشتے دار جن میں بہت سے باہر کے ملکوں میں تھے انہوں نے کبھی یہ نہ پوچھا کہ اِس برے وقت میں ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟ سوائے لفظی تسلیوں اور فارغ وقت میں چائے پینے کے لئے ہمارے گھر آجاتے۔

حالات اِس موڑ پر پہنچے کہ گزارا پنشن کے پانچ ہزار پر ہونے لگا۔ والدہ صاحبہ کو کچھ سلائی کڑائی کا کام معلوم تھا۔ جن میں ہاتھ سے بنے گرم اُونی بنیان اور بچوں کے لئے گرم ٹوپیاں بنوانا تھیں وہ بنانے لگی اور آس پڑوس میں جب یہ بات پھیلی تو کچھ خواتین ہمارے گھر آکر اُس میں سے اپنی پسند کی چیز خرید لیتی۔ ایک گرم اُونی سویٹر کی قیمت چار سو روپے جن میں تین سو کے دھاگے اور میری اماں کی انگلیوں کا درد شامل ہوتا تھا بکنے کے لئے موجود تھا۔ والد صاحب نے اماں کو منع کیا کہ مت بناو مگر والدہ ایک کفایت شعار اور پختون معاشرے میں پلی بڑی تھی۔ بھلا وہ کیسے برداشت کرتی کہ اُس کے مجازی خدا پر ایسا برا وقت آتا اور وہ آرام سے بیٹھ جاتی۔ یوں کچھ نہ کچھ وہاں سے ملنے لگا جو کہ نہ ہونے کے برابر ہوتا۔

ایک دن میں نے گاوں کے دکان میں ایک چیز بیچ دی جو کہ چالیس روپے میں بک گئی تھی وہ چالیس روپے میں شام کو لے کر والد صاحب کے پاس آیا اور اسے چالیس روپے دینے لگا تو پہلی بار والد صاحب کے چہرے پر بےبسی اور مجبوری کے آثار دیکھے۔ کچھ کچھ شعور نے ساتھ دینا شروع کیا تھا ورنہ پندرہ سال میں بچے کی ذہنی حالت کیسی ہوتی ہے آپ کو معلوم ہے۔ اُس رات مجھے نیند نہ آئی ناجانے کیوں دل پر ایک بوجھ سا پڑا تھا۔ اور دل میں اپنے والد صاحب کی بےبسی اور لاچاری کے سبب ایک طوفان سا اُٹھا ہوا تھا۔ پوری رات نیند کے ساتھ آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ رات کے کوئی تین بج چکے تھے کہ ہمارے کمرے کا دروازہ کسی نے کٹھکٹھانا شروع کیا۔ اُس کمرے میں ہم اہنے تین بھائی بہنوں اور چچا زاد بھائی اور چاچی کے ساتھ سو رہے تھے کہ اچانک دروازے پر پڑنی والی ضربوں نے بیدار کردیا۔ ہم اٹھے اور دروازہ کھول کر باہر دیکھنے لگے۔ ہماری ماں جی کھڑی تھی جن کے آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ رہا تھا۔ صرف اتنا کہہ پائی کہ آپ کے والد کے سینے میں درد اُٹھ رہا ہے جلدی آو۔

ہم دیوانہ وار اُس کمرے کی جانب بڑھے اور والد صاحب کو دیکھا کہ سینے پر ہاتھ رکھے لمبی لمبی سانس لینے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہماری عقل میں اِس بات نے کوئی شک پیدا نہیں کیا کہ والد صاحب کو ہارٹ اٹیک ہو رہا ہے۔ ہم یہی سمجھے کہ شاید ایسے ہی کوئی تکیلف ہو رہی ہے۔ والد صاحب کے پاس پہنچے اور اُس کے دل کے مقام کو سہلانے لگے۔ مگر اُس نے منع کر دیا اور اشارے سے کہنے لگے کہ اسے باہر کھلی ہوا میں لے جایا جائے۔ ہم سہارہ دے کر اسے باہر لائے اور باہر آکر اُس نے پھر گہری گہری سانس لینے کی کوشش کی۔ کچھ لمحوں بعد وہ صحن میں موجود ایک چارپائی پر لیٹ گئے اور مجھے اپنے پاس بلا کر میرے ایک ران پر اپنا سر رکھ دیا۔ اور کہنے لگے کہ

“بیٹا اپنی ماں اور بھائیوں کا خیال رکھنا”۔

julia rana solicitors

ہم سوچ میں پڑ گئے کہ والد صاحب ایسا کیوں کہہ رہے ہیں مگر کمسنی نے اُس کا جواب نہیں دیا۔ کچھ لمحوں تک ایسا ہی رہا تب والد صاحب کی زبان نے حرکت کرنی چھوڑ دی اور شاید اُس پر فالج کا اٹیک ہوا تھا جس کی وجہ سے بات کرنے میں مشکل ہورہی تھی۔ ہم نے اتنا سنا واضح طور پر کہ اُس نے کلمہ شہادت رک رک کر پڑھا آہستہ آہستہ اور پھر اُس کی زبان رک گئی۔ جسم ساکت ہوگیا اور ہاتھ نیچے کی طرف جھکنے لگے۔ میں نے اسے ہلایا اُس کے سینے کو سہلایا مگر کچھ نہ ہوا۔ گھر میں سب رونے لگے اور والد صاحب کو آوازیں دینے لگے مگر والد صاحب کا سفرِ آخرت شروع ہو چکا تھا۔ ہمیں چھوڑ کر یونہی پینتالیس سال کی عمر میں اِس جہاں کو خیرباد کہہ کر کسی دوسری دنیا میں جابسے تھے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply