جسٹس منیر نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ماسٹر کیا تھا اور لاکالج سے ایل ایل بی، ۱۹۲۲ میں امرتسر سے لاہور منتقل ہوگئے۔
۱۹۳۷ میں پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل مقرر ہوئے۔ ۱۹۴۰ میں متحدہ ہندوستان میں انکم ٹیکس ایپلیٹ ٹریبونل کے پہلے صدر ہوئے۔ ۱۹۴۲ میں ہائی کورٹ کے جج ہوئے۔ تشکیل پاکستان کے موقع پر پنجاب باؤنڈری کمیشن میں مسلم لیگ کی نمائندگی کی۔ ۱۹۴۹ میں پاکستان پے کمیشن کے چیئر مین بنائے گئے۔ بعد میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔
منیر انکوئری کمیشن
1953ء میں پاکستان میں احمدیو ں یا مرزائیوں کے خلا ف ملک گیر مظاہروں نے جنم لیا۔
اس تحریک کے سیاسی پہلو کا بعد میں مفصل جائزہ بعد میں انہی مضامین کے سلسلہ میں لیا جائے گا۔ ان مظاہروں کا باعث یہ ہوا کہ پاکستان کے بعض علما ء کی طرف سے حکو مت سے مطا لبہ کیا گیا کہ ایک ما ہ کے اندر اندر احمدیوں یا مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور اس کے ساتھ احمدیوں یا مرزائیوں کو کلیدی عہدوں سے بر طرف کیا جا ئے اور اگر ان کے مطا لبہ کو تسلیم نہ کیا گیا تو ’’راست اقدام‘‘ کیا جائے گا۔چنا نچہ جب حکو مت پاکستان کی طرف سے ان کا مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔
حکومت پاکستا ن کی طرف سے بعد ازیں ایک بنچ قائم کیا گیا جس کی قیا دت جسٹس منیر نے کی اور ایک رپورٹ مرتب کی جو Report of the court of inquiry کے نام سے سامنے آئی۔
اس رپورٹ میں حیرت انگیز انکشا ف سامنے آیا کہ جب علماء سے مسلما ن کی تعریف پوچھی گئی تو علما ء میں سے کوئی دو بھی ایک تعریف پر متفق نہ تھے۔اس رپورٹ میں ایک یہ نتیجہ بھی سامنے آیا کہ احرار ابتدا ء سے ہی قیام پاکستان کے خلاف تھے۔
1954میں پاکستان کے چیف جسٹس مقرر ہوئے فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے پاکستان کے پہلے مارشل لا کے وقت چیف جسٹس تھے ۱۹۶۰ مئی میں ریٹائرڈ ہوئے۔جسٹس منیر کا پاکستان کی آئینی اور سیاسی تاریخ میں ایک اہم کردار ہے وہ عدالتی نظریہ ضرورت کے بانی تھے۔
مشرقی بازو کے وزیر اعلی جناب نورالامین نے سندھ کے وزیر اعلی جناب عبدالستار پیرزادہ کے ساتھ مل کر دستور اسمبلی ترمیم پیش کرنے کی کوشش کی تاکہ گورنر جنرل کے اختیارات میں کمی کی جائے گورنر جنرل غلام محمد کو جب ان حالات کا علم ہوا تو انہوں نے 24 اکتوبر، 1954ء کو فوری طور پر دستور سازاسمبلی کو برخواست کر دی۔
یہ اعلان اس وقت ہوا جب دستور ساز اسمبلی نے آئین کے بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ منظور کر لی تھی اور ملک کےپہلے آئین کا مسودہ چھ روز بعد ایوان میں پیش کیا جانے والا تھا۔
دستور ساز اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین نے اس برطرفی کوسندھ چیف کورٹ میں چیلنج کیا۔ سندھ کی اعلیٰ عدالت نے مولوی تمیزالدین کے حق میں فیصلہ دیا کہ گورنر جنرل کا فیصلہ غیر آئینی تھا اس فیصلے کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کی، تو اس کے نتیجے میں جسٹس منیر کا فیصلہ سامنے آیا جس میں گورنر جنرل کا فیصلہ جائز قرار دیا اور اسے نظریہ ضرورت قرار دیا کہ دستور ساز اسمبلی اپنی اہمیت و افادیت کھو چکی ہے۔ اس فیصلے نے پاکستان میں فوج اور بیوروکریسی کی سازشوں کا ایک نہ رکنے والا باب کھول دیا۔ جسٹس منیر نے فیصلے میں یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان نے مکمل آزادی حاصل نہیں کی ہے اور اب بھی جزوی طور پر تاج برطانیہ کا حصہ ہے۔ اس رو سے دستور ساز اسمبلی گورنر جنرل کے ماتحت ہے اور گورنر جنرل کو اسے برخواست کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس مقدمے میں صرف ایک غیر مسلم جج جسٹس کارنیلس نے یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان مکمل طور پر آزاد مملکت ہے اور دستور ساز اسمبلی ایک خود مختار ادارہ ہے جسے گورنر جنرل برطرف نہیں کر سکتا۔ اسی مقدمے میں جسٹس منیر نے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلے دفعہ نظریہ ضرورت کے لفظ بھی متعارف کروایا۔
اسی عدالتی نظریہ ضرورت کو پاکستان کے آئین پر فوقیت دی گئی اور سکندر مرزا اور بعد ازاں ایوب خاں نے پاکستان کے پہلے آئین کو ختم کرکے مارشل لا لگا دیا۔
اس معاملہ میں چیف جسٹس محمد منیر کا جو رول رہا اور انہوں نے جس مصلحت کوشی سے کام لیا اس کو اب بھی ہدف ملامت بنایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کے عہدہ سے سبک دوش ہوتے وقت جسٹس منیر نے اپنے فیصلہ کا یہ کہہ کر دفاع کیا تھا کہ اگر وہ حکومت کے خلاف فیصلہ دیتے تو ملک میں افراتفری اور نراجیت پھیلنے کا خطرہ تھا۔ لیکن غالبا انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کے اس فیصلہ کے جمہوریت کے مستقبل پر کس قدر مہلک اثرات مرتب ہوں گے اور ملک فوجی آمریت کے ایک ایسے چنگل میں پھنسے گا کہ نکلنا محال ہو جائےگا۔
(جسٹس منیر کچھ عرصہ سیالکوٹ میں مرے کالج میں پڑھا چکے ہیں اس حوالے سے ان کے بارے بہت سے سینہ گزٹ موجود ہیں جن کی تصدیق اعجاز بٹ صاحب جیسے دوست کر سکتے ہیں جن کا مرے کالج کی تاریخ پر بہت کام ہے، ان پر ایک الزام یہ تھا کہ وہ کالج اوقات میں کسی مغنیہ کا گانا سننے چلے جاتے تھے دوسرا سیالکوٹ کینٹ میں شیخ عبدالقادر کے شاپنگ سینٹر میں ان پر کچھ الزام لگے تھے مگر ان الزامات کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ موجود نہیں)

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں