بلوچستان کا سقراط۔۔۔۔اسد بلوچ

جہالت کہانیوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ یہ شعور کی قاتل ہے، اسے روشنی کے ساتھ ازل سے عداوت ہے، بھلا جہل کب روشنی کا وار سہہ سکا ہے۔

آج نہیں زمانہ قدیم سے یہی چلن چلا آ رہا ہے۔ آپ سقراط سے واقف ہیں، جو جہل کے خلاف روشنی کا پیامبر تھا۔ محض اس لیے اس کا وجود و ہستی دور رکھنے کی کارستانی ہوئی کہ وہ جہل کا منکر کیوں کر ہے۔ سقراط زندہ ہے مگر اس کے قاتل نامعلوم ہیں۔ آج بھی کہیں روشنی کی کوئی لو ٹمٹماتی ہے اس سے سقراط کی صدا آتی ہے۔ جہل و تاریکی کے غلیظ کرداروں کے ساتھ سقراط کی دشمنی ابد کی مسافت پر ہے۔

یہ سفر ہے جو جاری ہے، رواں ہے اور یوں ہی چلتا رہے گا۔ کسی کو خوش فہمی نہیں ہونا چاہیے کہ سورج کی روشن کرنیں کبھی اسیر ہو سکتی ہیں، روشنی کبھی اجالے کا ساتھ چھوڑ سکتی ہے اور تاریکی تاریخ بنا سکتی ہے۔

اپنے بانجھ سرزمین کے بطن سے بھی کئی گوھرِ بے بہا ایسے نمونے پائے گئے جن کا قد اپنے عہد کے سقراط جیسا تھا۔ وہ بھی جہل و تاریکی سے بغض رکھتے، روشنی پھیلانے کی سعی میں سرگرداں رہے۔ جنہیں بالآخر قافلہِ ابوجہل نے اپنے یہاں بوجھ اور بھاری پتھر جان کر راستے سے دور ہٹانے کی وہی غلطی دہرائی جو سقراط کے ساتھ کیا گیا تھا۔

وہ پروفیسر تھا، اسلامیات پڑھاتا، من گھڑت کہانیوں کے برعکس، مگر تاریخ کا روشن چہرہ ہی دکھاتا۔ جھوٹ اور خود تراشیدہ کہانیوں سے اذہان فرو کراتا۔ تب ہی اسے کافر کہا گیا۔ بے دین اور منکر مانا گیا۔ کیوں کہ وہ بت پوجنے کا متحمل نہ تھا۔ اس لیے کسی کے آستانے پر کبھی جھکا نہیں۔ روشنیان برابر پھیلاتا رہا۔

اچانک ایک دن تاریک راہوں کے غلیظ شکاریوں کے ہتھے چڑھا اور صبا سقراط بن گیا۔ اور کیا سقراط بھی بھلا مرتے ہیں!!۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اے جہل کے متوالوں، اے غلیظ راہوں کے قاتل ہاتھوں، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سورج کل بھی ویسا ہی تھا، آج بھی اس کی چمک ویسی ہے جو صدیوں قبل یونان کی کسی روشن صبح میں تھی، بلوچستان کا سقراط سلامت ہے، سلامت رہے گا۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply