راقم کے علاقے میں ایک بابا “بابا اللہ ہُو” کے نام سے مشہور تھا۔بابا اللہ ہُو لوگوں کو دَم درود کرتا اور لوگ محسن جان کر بابا حضور کو مختلف تحفے تحائف دیتے۔ کبھی سالم بکرا تو کبھی مرغیاں۔اکثر مٹھائیوں کی ٹوکریوں اور دودھ کے ڈرم بھی عقیدت مند پیش کیا کرتے تھے۔بابا جی کو نہ کبھی پہننے کے لئے کپڑا خریدنا پڑا نہ ہی کھانے کے لئے روٹی۔بازار کی کسی دکان سے بابا حضور کو کسی نے خریداری کرتے نہیں دیکھا۔راقم کی معصومیت کہ اسے لگا شاید بابا جی بہت پہنچے ہوئے ہیں۔مسلسل عبادات میں مصروف رہتے ہیں اور کئی کئی دن کھانے پینے کا ہوش ہی نہیں رہتا۔اور اللہ والے ہیں لہذا زیادہ خریداری کو فضول خرچی سمجھتے ہیں۔اور جو نت نئے کپڑے,مہنگی چپلیں اور مختلف اقسام کے قیمتی پتھروں کی مالا پہنتے ہیں وہ عقیدت مند تحفے میں دیتے ہونگے۔جیسا کہ عقیدت مندوں نے بڑی بڑی گاڑیاں بھی تحفے میں دی ہوئی تھیں بمعہ ڈرائیور۔ کیونکہ بابا جی ہر وقت اپنے حُجرے میں ہوتے تھے کاروبار کوئی نہیں تھا لہذا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈرائیور, باڈی گارڈ, بےشمار ملازمین اور خدمت گاروں کی تنخواہیں بھی کوئی مرید ہی ادا کرتا ہو گا یا پھر بابا جی کی روحانیت اتنی زیادہ ہے کہ کوئی ہوائی چیزیں ادا کرتی ہونگی۔اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے۔
اکثر ساتھ والوں کی چھت پر چڑھ کر جب بھی بابا اللہ ہُو کے صحن میں نظر پڑتی تو کچھ آدمی صحن کے احاطے میں بڑے ڈنڈوں سے کونڈوں میں کوئی سبز چیز گھوٹ رہے ہوتے تھے ۔یوں لگتا تھا کہ یہ کوئی خاص دوا ہے جو بابا جی کی دعا کے ساتھ مل کر لوگوں کی تندرستی کی وجہ بنتی ہو گی۔۔یہ بھی اللہ ہی جانے یا بابا جانے اور بابا کے مرید جانیں ۔۔۔۔ہم کم عقل اور جاہل کہاں ان روحانی لوگوں کی روحانیت کے راز جان سکتے ہیں۔۔۔
آدھی رات ہوتے ہی بابا کے ڈیرے سے باہر آتے لوگ عجیب روحانی کیفیت میں ہوتے تھے۔روحانیت کا اعلی نمونہ اس وقت دیکھنے کو ملتا جب باہر آکر ایک آدمی دروازے سے مخاطب ہوتا اور کہتا “بند ہو جا۔۔۔جلدی بند ہو میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ بند ہوجا”۔دروازہ جب بات نہ مانتا تو وہ آدمی وہاں جلال میں آ کر دھمالیں ڈالنے لگ جاتا اس وقت تک جب تک وہ نیچے نہ گر جاتا۔ پھر دو آدمی اسے گھسیٹ کر اندر لے جاتے اور کونے میں پھینک دیتے۔
اسی طرح ایک اور جلالی آ کر بحلی کے کھمبے کو دھکے لگا کر آگے کر رہا ہوتا تھا۔
کچھ لوگ بابا کے حُجرے کے باہر صحن کی دیواروں کو دھکا لگا کر صحن بڑا کرنے کی جُستجو میں لگے ہوتے تھے،کوئی آسمان کو ہاتھوں سے اوپر اٹھا کر کھڑے ہو کر اپنی طاقت پر فخر محسوس کرتا اس وقت تک جب تک طاقت ور زمین پر نہ گر جاتا اور پھر کوئی پاؤں سے گھسیٹ کر موئے جانور کی طرح اس کو اسکی مردہ طاقت سمیت ایک کونے میں لگا دیتا۔۔اکثر تو کوئی وہ سبز جادوئی دوائی کو حکم دیتا کہ آکر میرے منہ سے لگ جا۔کالے رنگ کی دوسری روحانی مگر جادوئی دوائی کو تنکے پر آگ لگا کر استعمال کرنے والے تو پھر کمال ہی دھمالیں ڈالا کرتے تھے۔بابا جی کے دَر پر آنے سے پہلے یہ یقین دہانی کروائی جاتی تھی کہ آپ کے مسائل حل ہو جائیں گے اور آپ کی زندگی میں سب کچھ تبدیل ہو جائے گا۔پھر ہر کوئی “ت ب د ی ل ی ” کا عجیب منظر پیش کر رہا ہوتا تھا۔ روحانیت کا ایسا کمال دیکھنے کو ملتا کہ ہر کوئی نا ممکن کام کو کرتا ہوا نظر آتا جو کہ بابا جی کی دعا اور دوا سے ہی رات کو ممکن ہوتا اور دن کو یہ سپاہی شکار کرنے نکل جاتے۔روحانیت کا عمل اسی طرح جاری رہتا ۔یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔
صبح یہی رات کے روحانی لوگ صاف لباس پہن کر ,ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر ,ٹوپی پہنے لوگوں کو باتوں کی ٹوپیاں پہنانے نکل پڑتے۔
جہاں کوئی دکھ کا مارا ملتا اس کو بابا اللہ ہُو کی کرامات بتاتے۔دکانوں سے سودا سلف لیتے وقت بابا جی کے کرشمے بتاتے اور لوگوں کو حاضری کی تلقین بھی کرتے۔یوں دو چار مریدوں میں اضافہ ہو ہی جاتا۔ کسی کو محبوب قدموں میں لانا ہوتا۔کسی کو ساس قابو کرنی ہوتی۔کسی کو کاروبار میں ترقی کرنی ہوتی۔کسی نے دشمن کو زِیر کرنا ہوتا ۔ سب بابا کی خدمت میں تبدیلی کی خواہش میں حاضر ہوتے۔البتہ کوئی سنجیدہ مسئلہ لے کر کوئی نہ کبھی حاضر ہوا نہ ہی کبھی بابا نے سنجیدہ مسائل حل کرنے کا دعویٰ کیا ۔نہ ہی کبھی بابا کے پرائیویٹ مریدوں نے لوگوں کو کوئی سنجیدہ مسائل کی طرف سوچنے دیا۔ محض غیر سنجیدہ لوگ حقیر اور مضحکہ خیزمسائل لے کر ہی حاضر ہوتے۔
بابا اللہ ہُو والے جب علاقے کی مسجد میں پانچ وقت نماز ادا کرنے کے لئے تشریف لاتے تو ان کے ہمراہ پچیس تیس لوگ ہوتے۔جن میں کچھ باڈی گارڈ جو بابا حضور کے پیچھے کھڑے ہوتے اور جن کی گردنیں مسلسل اِدھر اُدھر ہلتی رہتیں ۔چار پانچ آدمی بابا حضور پر چھتریاں لئے کھڑے رہتے کہ کہیں دھوپ بابا جی کے موم جیسے جسم کو پگھلا نا دے۔باقی کے مرید بابا حضور کے سلام پھیرنے تک ہاتھ باندھے عقیدت سے کھڑے رہتے ۔مسجد کا ایک حصہ ان بابا حضور کے قبضے میں ہوتا۔بابا جی کے علاوہ ساتھ آئے پچیس تیس بندوں کو بہت کم نماز ادا کرتے دیکھا یا شاید بابا جی انکی طرف سے بھی اجتماعی نماز ادا کر دیا کرتے تھے۔ روحانیت کے اعلی درجہ پر فائز تھے کچھ بھی کر سکتے تھے۔بابا حضور سینہ تان کر گردن میں اکڑ لا کر نماز شروع کرتے۔جیسے ہی بابا حضور سلام پھیر کر نماز ادا کر کے کھڑے ہوتے یہ ذاتی “بلوائیے مرید” آگے بڑھ کر بابا جی کا ہاتھ چومتے اور تحفے پیش کرتے اور اظہار کرتے کہ آپ کی دعا سے ہمارا کام ہو گیا تھا، تحفہ قبول کریں۔بابا حضور باقی نمازیوں کی موجودگی میں فخریہ انداز میں یہ پیشکش ٹھکرا دیتے کہ بس اللہ نے انہیں آپ سب کی مدد کو بھیجا ہے لہذا یہ تحفے کسی غریب کو دے دیں ( تحفے لانے والے پرائیویٹ بلوائیے کیا خوب ہی ایکٹر ہوا کرتے تھے)۔
ایک دن علاقہ مکینوں نے کونسلر سے شکایت کی کہ ایک تو بابا حضور اکیلے نماز پڑھتے ہیں ساتھ آیا کوئی آدمی نماز ادا نہیں کرتا۔دوسرا انکے ہجوم کی وجہ سے ہمیں نماز ادا کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ہمیں بابا حضور کے ساتھ صف میں نماز کے لئے کھڑے تک نہیں ہونے دیا جاتا کیونکہ انکی چھتریاں لے کر مرید کھڑے ہوتے ہیں۔کونسلر نے مسئلہ جائز سمجھا اور بابا جی سے عرض کی آپ نماز کو تشریف لائیں۔مگر جنہوں نے نماز ادا نہیں کرنی وہ مسجد کے باہر کھڑے رہیں۔بابا جی کو کافی برا لگا جلال میں آئے اور کہا کہ “میں تم لوگوں کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ تم سب کے ساتھ اب کبھی نماز پڑھو تم لوگ گناہ گار ہو تم پر عذاب آئے گا تم سب نے ایک اللہ والے کی توہین کی ہے”۔
لہذا بابا جی نے کچھ دنوں میں روحانیت والے صحن کی تعمیر کروائی اور مسجد بنا لی۔اب بابا حضور کی ذاتی مسجد “اللہ ہُو مسجد” کے نام سے مشہور ہے۔جہاں وہ اپنے مریدوں کے ساتھ نماز جیسے چاہیں ادا کریں, کریں یا نہ کریں بابا جی کا ذاتی مسئلہ ہے کیونکہ وہ بہت پہنچی ہوئی چیز ہیں اتنی پہنچی ہوئی کہ جہاں تک ہم ان کی روحانی سبز یا کالی دوا کھا کر بھی نہیں پہنچ سکتے۔
مرید کسی نہ کسی نئے شکار کو گھیر کر لے جاتے ہیں۔جو دیکھتا ہے کہ بابا حضور کے کتنے لوگ مرید ہیں انکی مرادیں پوری ہوئیں ہیں تحفے تحائف بھی آتے ہیں اور بابا حضور ٹھکرا بھی دیتے ہیں۔ جس دن نئے مریدوں کا رش زیادہ ہو اس دن محفلِ بابا اللہ ہُو مزید طویل ہو جاتی ہے۔بابا حضور کے ذاتی کیمرہ مین بھی ہیں جو دوران نمازِ پنجگانہ, نماز جمعہ یا عید کی نماز اور خطباتِ بابا کے دوران عبادت کی بجائے مسلسل تصاویر اور ریکارڈنگ کرتے ہیں۔پھر بابا حضور کے یہ کرشمات انٹر نیٹ کی زینت بنا دیئے جاتے ہیں۔اور کم عقل لوگ تعریف کرتے ہیں اور ملاقات کا شرف حاصل ہونے کی دعا بھی۔۔
بابا اللہ ہُو کے مریدوں میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔لوگ مساجد چھوڑ کر اس ڈیڑھ انچ کی مسجد میں تشریف لاتے ہیں جہاں آج بھی کئی لوگ بابا حضور پر دورانِ نماز چھتریاں لئے کھڑے ہوتے ہیں۔باڈی گارڈ بھی اپنے فرائض انجام دیتے ہیں اور نمازیوں میں ایک عدد مولوی ,ایک عدد بابا اللہ ہُو اور آئے ہوئے چند نئے مرید ہی ہوتے ہیں باقی ہاتھ باندھے عقیدت سے کھڑے ہوتے ہیں .روحانی لوگ ہیں رات کونڈوں میں گھوٹی ہوئی روحانی دوا اور کسی دوا کو انجیکشن میں بھر کر یا آگ لگا کر استعمال کر کے روحانیت کے اثر میں اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے ہیں اور بخشش کروا لیتے ہیں۔۔
بابا اللہ ہو کی داستان کا کسی سیاسی شخصیت کی حرکات و برکات سے مماثلت محض ایک حسین اتفاق ہے۔۔۔
البتہ وزیراعظم عمران خان کے کیمرہ مین کا شکریہ جنہوں نے دورانِ نمازِ عید اتنی خوبصورت تصاویر اور ویڈیو بنا کر ایک شاہکار ہمیں دیکھنے کا شرف بخشا۔۔ان بلوائیوں کا بھی شکریہ جو عمران خان سے گلے ملے جن کے ساتھ عمران خان کی تصاویر سوشل میڈیا پر عوامی لیڈر کہہ کر مشہور کروائی گئیں۔اسی بہانے بلوائیوں کو عوام کا خطاب ملا ورنہ 2014 کے دھرنے میں اسی طرح کے بلوائیوں کو دہشت گرد کہا گیا تھا جو ریاست پر حملہ آور ہوئے تھے ۔اب بلوائیے عوام بن کر سامنے آئے اور عزت پائی۔۔
شکریہ میرے کپتان! آپ کے احسانات کا شکریہ ادا کرنے کے لئے راقم کے پاس الفاظ نہیں.۔

جھولے لعل۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں