ہندی سینما کے دس عظیم ہدایت کار۔۔۔۔ذوالفقار علی زلفی

ہندوستانی سینما نے اپنے قیام 03 مئی 1913 سے لے کر تاحال بڑے بڑے ہدایت کار پیدا کئے ہیں ـ پہلی مکمل فیچر فلم “راجہ ہریش چندر” کے خالق “دادا صاحب پھالکے” اور پہلی بولتی فلم کے موجد “اردشیر ایرانی” فلمی بنیاد رکھنے کے باعث ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں ـ اردشیر ایرانی دیگر کارہائے نمایاں کے باعث ایک ایسی شخصیت بن چکے ہیں جن کے سامنے دیگر کا قد تھوڑا کم ہوجاتا ہے ـ پھالکے و ایرانی کی راہ پر چل کر بعد ازاں ہندوستانی سینما کے متعدد ہدایت کاروں نے ہمارے خطے کے سینما کی تعمیر و ترقی میں انمول کردار ادا کیا ـ فی الوقت موضوع چونکہ صرف ہندی سینما تک محدود ہے اس لئے ذیل میں ہندی سینما کے ان دس ہدایت کاروں کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے جنہیں ان کے خوب صورت فن اور سینمائی تکنیکس میں نئے و کامیاب تجربات کی وجہ سے عظیم ترین قرار دیا جا سکتا ہے ـ ایسا نہیں ہے کہ مزکورہ دس ہدایت کاروں کی فہرست سے باہر ایسے نابغہِ روزگار وجود نہیں رکھتے ، رکھتے ہیں، بالکل رکھتے ہیں لیکن دس کی مختصر فہرست میں ان کا نام شامل کرنا ممکن نہیں ہے ـ

وی شانتا رام
ہدایت کار وی شانتا رام، دادا صاحب پھالکے کے ہونہار شاگرد بابو راؤ پینٹر کے توسط سے سینما کی طرف آئے ـ انہوں نے فلم سازی کا باقاعدہ آغاز 1927 کو کیا ـ وہ سینما کو تفریح کے ساتھ ساتھ سماج کی ترقی و تربیت کا ذریعہ بھی سمجھتے تھے اس لئے ان کی فلم کمپنی “پربھات فلمز” کی کم و بیش تمام فلمیں کسی خاص سماجی مسئلے کے گرد بنائی گئی ہیں ـ آزادی سے قبل ان کی بیشتر فلمیں جدوجہد آزادی کی ترویج پر مشتمل رہیں اور انگریز حاکم بھی ان سے خفا رہے ـ تاہم آزادی سے قبل و بعد وہ مختلف سماجی مسائل کو بھی بڑی ہنر مندی سے فلم کے قالب میں ڈھالتے رہے ـ جیسے خواتین کے مختلف مسائل پر “جہیز” ، “دنیا نہ مانے” اور “امر جیوتی” ـ مذہبی شدت پسندی کی حوصلہ شکنی پر “تین بتی چار راستے” ، “امرت منتھن” ـ طوائفوں کی زہرناک زندگی پر “آدمی” اور سماج و جرم کے معروضی تعلق پر “دو آنکھیں بارہ ہاتھ” ـ ان کی عظمت یہ ہے کہ انہوں نے سماجی موضوعات کو خشک و بے رنگ پند و نصائح کی بجائے تفریحی انداز میں پیش کیا ـ

ہندی سینما میں کرین اور ریل شاٹ کا آئیڈیا بھی وہی لائے ـ علاوہ ازیں انہوں نے میوزک کی جگہ صوتی اثرات استعمال کرنے کا بھی کامیاب تجربہ کیا ـ ہندوستان کی مختلف زبانوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے انہوں نے اپنے ایک فلمی نغمے میں مختلف زبان شامل کئے ـ یہ تجربہ بھی کافی کامیاب رہا ـ ناقدین نے وی شانتا رام کی فلموں کو ایک خاص اسکول قرار دیا ہے جسے “وی شانتا رام اسکول” کہا جاتا ہے ـ اس اسکول نے کم از کم 60 کی دہائی تک ہندی سینما پر زبردست اثرات مرتب کئے ـ

محبوب خان
گجراتی نژاد محبوب خان کا اصلی نام رمضان خان ہے ـ وہ بچپن میں اداکار بننے کی خواہش لئے گھر سے بھاگ کر اردشیر ایرانی کے پاس پہنچے ـ اردشیر ایرانی نے ان کی فلمی سوجھ بوجھ دیکھ کر انہیں ہدایت کار بننے کا مشورہ دیا ـ وہ استاد کی بات مان گئے ـ ہدایت کاری کے شعبے میں انہوں نے محبوب خان کے نام سے قدم رکھا ـ محبوب خان نظریاتی لحاظ سے سوشلسٹ نہیں تھے مگر پشاور کے ضیا سرحدی کی دوستی نے ان کو سوشلزم سے قریب کردیا ـ اس قربت کے باعث ان کی تقریباً تمام فلمیں سماج کی مارکسسٹ تشریح بن گئیں ـ

محبوب خان کی فلم “مدر انڈیا” اتنی بھاری اور ہمہ گیر ہے کہ ان کے دیگر فن پارے اس فلم کی وجہ سے پھیکے پڑ جاتے ہیں حالانکہ “مدر انڈیا” کے علاوہ بھی انہوں نے شاندار تخلیقات پیش کیں ـ جیسے “”دکن کوئین” ، “انوکھی ادا” ، “انمول گھڑی” ، “امر” اور “انداز” ـ

محبوب خان علامتوں کے ذریعے بات کرنے کی کوشش کرتے تھے یہی وجہ ہے ان کی فلمیں کافی گہرائی و گیرائی کی حامل ہیں ـ سب سے بڑی علامت تو ان کا فلمی نشان ہتھوڑا اور درانتی ہے جو بالترتیب ہندوستانی محنت کش اور کسان کی علامت ہے ـ محبوب خان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے پہلی دفعہ فلم “آن” کے ذریعے ہندی فلموں کو رنگ دیے ـ

سھراب مودی
سماجی و تاریخی شعور سے آراستہ پیراستہ پارسی نژاد سھراب مودی بنیادی طور پر تھیٹر اداکار تھے ـ ہندی سینما میں جب بولتی فلموں کا چلن شروع ہوا تو وہ فلموں کی طرف آگئے ـ وہ برطانوی ادیب شیکسپیئر سے حد درجہ متاثر تھے اس لئے انہوں نے اوائل میں شیکسپیئر کے مختلف ڈراموں کو فلمایا ـ اس کے ساتھ ساتھ وہ ممنوعہ سماجی موضوعات کو بھی فلمانے لگے، جیسے ہندو عورت کو طلاق کا حق دلوانے کے لئے 1938 کی فلم “طلاق” ـ اس فلم پر قدامت پسند حلقوں کی جانب سے احتجاج بھی سامنے آیا تاہم فلم بینوں کی بڑی تعداد نے اسے قبولیت بخشی ـ بعد ازاں وہ ہندوستانی تاریخ کو ایک ہندوستانی کے نکتہِ نظر سے پیش کرنے لگے ـ اس میدان میں انہوں نے ایک معیار قائم کردیا ـ

شہنشاہِ جہانگیر کے نظامِ عدل پر بلاک بسٹر “پکار” ، سکندر اور راجہ پورس کی رزم آرائی پر “سکندر” ، ہندوستان کی جہد آزادی کے امر کردار رانی لکشمی بائی “جھانسی کی رانی” میں نظر آئیں اور اردو کے شہرہِ آفاق شاعر ، مرزا غالب کے شب و روز فلم “مرزا غالب” میں قید کئے گئے ـ

سھراب مودی بھی سینما اور سماج کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے ـ ہندوستانی قوم پرستی کے جذبات کی وجہ سے وہ تاریخ کے انگریزی تشریح کو مسترد کرکے مقامی یا قومی نکتہِ نظر کو پیش کرتے تھے ـ ان کی اس خصوصیت کی وجہ سے وہ ہندی سینما کے ان چند ہدایت کاروں میں بھی شمار ہوتے ہیں جن کا نام ہی فلم کی کامیابی کی ضمانت بن جاتا تھا ـ

وہ سیٹ ڈیزائننگ اور کاسٹیوم کو بے حد اہمیت دیتے تھے ـ ان کی اس روایت کو بعد میں ہدایت کار ، کے آصف نے فلم مغلِ اعظم کی صورت آگے بڑھایا اور دورِ حاضر میں ان کے جانشین (سیٹ اور کاسٹیومز کے لحاظ سے) بلاشبہ سنجے لیلا بھنسالی ہیں ـ

بمل رائے
بنگالی نژاد ہدایت کار بمل رائے اوائلِ جوانی میں روایتی بنگالی سینما کے زیرِ اثر رہے ـ کلکتہ سے ممبئی آنے کے چند سالوں بعد وہ اطالوی سینما کی نوحقیقت پسند تحریک سے متاثر ہوگئے اور انہوں نے خود کو اس تحریک کے ساتھ جوڑ لیا ـ نو حقیقت پسند تحریک سے جڑت نے 1953 کی عظیم تخلیق “دو بیگھ زمین” کو جنم دیا ـ اس فلم میں کسانوں و محنت کشوں کی زندگی کو نہایت ہی قریب سے دکھانے کی کوشش کی گئی ہے ـ موضوعی لحاظ سے پہلی نظر میں “دو بیگھ زمین” ، وی شانتا رام اسکول سے متاثر نظر آتی ہے مگر باریکی سے دیکھا جائے تو اس کی انفرادیت مسلّم ہے ـ بمل رائے نے عام ہندوستانی کی زندگی کا عمیق معروضی جائزہ پیش کیا ہے جو وی شانتا رام کے ہاں مضبوط صورت میں نظر نہیں آتا ـ میری رائے میں اس کی ایک بڑی وجہ بمل رائے کا کلاسیک بنگالی ادب کو سینمائی فن میں شامل کرنا ہے ـ

انہوں نے بعد کے سالوں میں بنگالی ادب کے مختلف فن پاروں کو بڑی عمدگی سے فلم کے قالب میں ڈھالا جن میں “دیوداس” ، “پرینیتا” اور “بیراج بہو” کو اہم مقام حاصل ہے ـ علاوہ ازیں نے انہوں نے پہلی دفعہ چھوت چھات کی مذہبی تقسیم کے خلاف پراثر فلم “سجاتا” بھی بنائی ـ درج بالا بڑی فلموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے “مدھو متی” “بندنی” ، “پرکھ” ، “یہودی” وغیرہ کے ذریعے ایک الگ فلمی اسکول کی داغ بیل ڈالی ، “بمل رائے اسکول” ـ اس اسکول کے ہونہار فنکاروں کی فہرست میں رشی کیش مکھرجی اور گلزار نمایاں ہیں ـ

راج کپور
ہدایت کار و اداکار راج کپور کو ہندی سینما کے سب سے بڑے “شومین” کا ناقابلِ شکست خطاب حاصل ہے ـ راج کپور، ہدایت کار کیدار شرما کی شاگردی کے ذریعے ہدایتکاری کی جانب آئے تاہم انہوں نے اپنے لئے استاد سے مختلف ایک بالکل ہی الگ راستہ چُنا ـ انہوں نے طبقاتی و صنفی تضادات، حویلی کلچر کے پیچھے چھپی خباثت، حسن کے خارجی معیار اور عشق کے اسرار و رموز کو اپنا موضوع بنایا ـ انہوں نے بھاری بھرکم ہیرو تراشنے کی بجائے عام فٹ پاتھیے کو اپنا مرکزی کردار بنایا ـ

“برسات” ، “آوارہ” ، “شری چار سو بیس” ، “جس دیش میں گنگا بہتی ہے” ، “میرا نام جوکر” ، “ستیم شیوم سندرم” ، “پریم روگ” وغیرہ میں انہوں نے تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سماج کے کسی حساس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر فکری مباحث کے در بھی وا کئے ـ محبوب خان کی مانند راج کپور بھی سکہ بند سوشلسٹ نہ تھے مگر ان کی بیشتر فلمیں سماج کی مارکسی تشریح ہیں ـ ان کی فلم “آوارہ” کو سابق سوویت یونین میں غیرسرکاری طور پر قومی فلم کا درجہ حاصل رہا ہے ـ

انہوں نے فلم “آوارہ” کے گیت “گھر آیا میرا پردیسی” میں جنت و دوزخ کی تمثیل پیش کر کے ہندی سینما میں پہلی دفعہ ڈریم سیکوینس کا استعمال کیا ـ اس سیکوینس کی ہدایت کاری فن کا عروج ہے ـ راج کپور کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ ان کی کسی بھی تخلیق میں “میز این سین” کسی بھی مقام پر بے ترتیب نظر نہیں آتا، اس خاصیت کی وجہ سے ان کی فلمیں بھارت سمیت متعدد ملکوں کے فلمی نصاب کا بھی حصہ ہیں ـ

گرودت
گرودت غریب لیکن علمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ـ انہیں فلمی صنعت میں داخلے کے لئے کافی پاپڑ بیلنے پڑے پھر ایک دن ان کے قریبی دوست دیوآنند نے انہیں اپنی فلم “بازی” کی ہدایت دینے کی آفر دی ـ 1950 کی “بازی” سپرہٹ ثابت ہوئی اور یہاں سے ہندی سینما میں فلمی دانش کی ابتدا ہوئی ـ

گرودت کی فلموں کے مخاطبین عام فلم بین نہیں بلکہ دانشور طبقہ ہے ـ اس خوبی اور بعض افراد کے نزدیک خامی کے باعث ان کی فلمیں صرف پڑھے لکھے افراد ہی دیکھتے تھے اس لئے ان کی بہت ہی کم فلمیں ایسی ہیں جنہیں سپرہٹ قرار دیا جا سکے ـ

گرودت کی فلمیں مکالموں سے زیادہ کیمرے کی زبان میں بات کرتی ہیں ـ پھر جہاں مکالمے ہوں وہاں بھی وہ گہرائی کو ترجیح دیتے ہیں ـ اپنی اس خاصیت کی بنا پر وہ کبھی بھی مالدار نہ بن سکے جو شاید ان کا مقصد بھی نہ تھا ـ بساں اوقات زیادہ علمیت جھاڑنا مصیبت بن جاتی ہے گرودت کے ساتھ بھی یہی ہوا، ان کی زبردست تخلیق “کاغذ کے پھول” فلاپ ہوئی اور ان کا سارا سرمایہ ڈوب گیا ـ آج “کاغذ کے پھول” کلاسیک سمجھی جاتی ہے مگر اس زمانے میں یہ ایک فن کار کی موت کا سبب بنی تھی ـ

ان کی فلم “پیاسا” عالمی سطح پر ایک بہترین تخلیق مانی جاتی ہے اور اسے ہندوستان میں بھی خوب پزیرائی ملی مگر یہ بھی حقیقت ہے “پیاسا” کی روح تک پہنچنا ہر کسی کے بس میں نہیں ـ اس فلم میں انہوں نے نہ صرف دانشورانہ معیار کو برقرار رکھا بلکہ اسے مزید گہرائی بھی عطا کی ہے ان کی ایک اور شاہکار “صاحب، بی بی اور غلام” بھی اسی قسم کا فن پارہ ہے ـ ساٹھ کی دہائی میں ہندی سینما تبدیلیوں سے گزرنے لگی، دانشور گرودت، اجنبی بنتے گئے اور بالآخر ایک منحوس دن انہوں نے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کر لی ـ

رشی کیش مکھرجی
بمل رائے اسکول کے ذہین ترین طالب علم رشی کیش مکھرجی کو بنگلہ ادب کا شارح قرار دیا جاسکتا ہے ـ وہ سادہ اور عام کہانیوں میں سے بڑی بات نکالنے میں یدطولی رکھتے تھے ـ

مکھرجی کی فلمیں عام کرداروں، محدود سیٹ، بظاہر سادہ نظر آنے والی کہانیوں پر مشتمل ہیں ـ وہ کم بجٹ میں بڑی فلم بنانے پر قادر تھے ـ ان کے ہاں معروف ہیرو کا کوئی تصور نہیں، اس لئے ان کی فلموں کے کردار معاشرے کے جیتے جاگتے افراد کی طرح حرکت کرتے ہیں ـ

وہ پہلی دفعہ 1959 کی فلم “اناڑی” سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے اس کے بعد انہوں نے پلٹ کر نہ دیکھا ـ “اصلی نقلی” ، “انورادھا” ، “غبن” ، “آنند” ، “گڈی” ، “نمک حرام” ، “گول مال” ، “نوکر” “جرمانہ” ، “ابھیمان” اور “باورچی” سمیت انہوں نے متعدد عام فہم فلمیں بنائیں ـ ان کی ہر فلم سماج کی تفہیم ہے ـ وہ اس معاملے میں گرودت جیسے دانشور تھے مگر انہوں نے عام ہندوستانی فلم بین کو ہی مخاطب کیا ـ وہ جہاں فرد کی داخلی نفسیات کو چابک دستی سے دکھاتے ہیں وہاں وہ خارجی اثرات کا بھی کماحقہُ جائزہ پیش کرتے ہیں ـ

اینگری ینگ مین کے نام سے معروف امیتابھ بچن، ان کی فلموں میں ایک منفرد روپ میں نظر آتے ہیں ـ ان کی فلموں کا امیتابھ بچن، مار دھاڑ سے دور ایک عام انسان کی صورت نظر آتے ہیں جس کی فطرت میں نیکی ہے تو حرص، ہوس اور جاہ طلبی جیسے جذبات بھی ـ

بدقسمتی سے رشی کیش مکھرجی کی فلمی روایت اب دم توڑتی جارہی ہے حالانکہ وہ کم سرمائے سے بہترین فلم بنانے کی اعلی مثال ہیں ـ

یش چوپڑا
رومان کے بادشاہ یش چوپڑا اپنے بڑے بھائی ہدایت کار بی آر چوپڑا کی انگلی پکڑ کر سینما میں آئے ـ 1959 کو اپنی پہلی فلم “دھول کا پھول” سے انہوں نے جتا دیا وہ بھائی کی انگلی پکڑ کر آئے ضرور ہیں مگر ان کا راستہ یکسر مختلف ہے ـ

“دھول کا پھول” مذہبی تفریق کے خلاف ایک موثر آواز ہے تاہم یش چوپڑا نے بہت جلد مقصدیت پر مبنی فلموں سے خود کو علیحدہ کردیا ـ بلاک بسٹر “دیوار” اور “ترشول” کے ذریعے انہوں نے کوچہِ جرائم میں بھی تانک جھانک کی ، “مشعل” ، “کالا پتھر” اور “اتفاق” جیسے سماجی موضوعات بھی ان کی تخلیقات میں شامل رہے مگر ان کا حقیقی میدان چمنستان الفت ہی رہا ـ

محبت کی تمام کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں، ایک جیسی کہانیوں کو بڑا بنا کر پیش کرنا نہایت ہی مشکل ہے، یش چوپڑا کی عظمت یہی ہے کہ انہوں نے عام کہانیوں کو منفرد انداز میں بیان کرکے انہیں خاص بنا کر پیش کیا ـ

“داغ” ، “سلسلہ” ، “کبھی کبھی” ، “چاندنی” ، “لمحے” ، “ویر زارا” ، “ڈر” اور “دل تو پاگل ہے” جیسی عام رومانی داستانوں کو انہوں نے ہلکی پھلکی مدھر موسیقی، رنگ بھرنگے پھولوں اور نازک انسانی جذبات میں گوندھ کر اونچائی تک پہنچادیا ـ ان کی فلموں میں کوئی ولن نہیں ہوتا ـ وہ معروض کو ساتھ لے کر چلتے ہیں ـ بدلتا معروض کردار کو متاثر کرکے اس کی کیفیت کو متغیر کردیتے ہیں ـ وہ لطیف رومانی جذبات میں جنس کی آمیزش ضرور کرتے ہیں مگر ان کے ہاں جنس بھی ایک وقار رکھتا ہے ـ وہ سستے شہوت انگیز مناظر اور فضول ہیجان خیز سیکوینسز سے دامن بچا کر محبت کو انسانوں جیسی عظمت عطا کرتے ہیں ـ

یش چوپڑا جہاں فلمی فن کی باریکیوں پر توجہ دیتے ہیں وہاں ان کی فلموں کی موسیقی بھی اپنی مثال آپ ہے ـ باریک بین یش چوپڑا ہر چند اپنی بعض فلموں بالخصوص “سلسلہ” کے کلائمکس پر چوک بھی جاتے ہیں مگر مجموعی طور پر وہ ان کی فلمیں ہندی سینما کی شاندار تاریخ کے روشن باب ہیں ـ وہ غالباً عصرِ حاضر کے آخری ہدایت کار ہیں (سبھاش گئی کافی عرصے سے غیر حاضر ہیں) جنہوں نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی موسیقیت کو زندہ رکھا ـ

شیام بینیگل
1946 کی “نیچا نگر” غالباً ہندی سینما کی پہلی مکمل آرٹ فلم ہے جس کے ہدایت کار ، دیو آنند کے بڑے بھائی چیتن آنند ہیں ـ “نیچا نگر” ایک بہترین فلم ہے مگر اس دور کے فلم بینوں نے اسے کاملاً مسترد کردیا ـ خواجہ احمد عباس اور چیتن آنند نے اس کے بعد بھی کوششیں جاری رکھیں مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی رہا ـ ان کے بعد بنگالی زبان کے عظیم فن کار ستیہ جیت رے نے اس روایت کو نہایت ہی چابک دستی سے آگے بڑھایا مگر عظیم تخلیقات کے باوجود وہ بھی آرٹ فلموں کو ہندی سینما کا اٹوٹ حصہ نہ بنا سکے ـ ستیہ جیت رے کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بہرکیف ان کی بیشتر فلموں کا بنگالی زبان میں ہونا ہے ـ بنگلہ سینما میں آرٹ فلموں کی روایت اوائل سے ہی مضبوط رہی ہے ـ

ہندی سینما میں آرٹ فلموں کو اس کا جائز مقام دلوانے کا سہرا شیام بینیگل کے سر بندھتا ہے ـ گوکہ شیام بینیگل متوازی سینما میں طبع آزمائی کرنے والے پہلے ہدایت کار نہ تھے مگر وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کے بل پر عام فلم بینوں کو بھی متوازی سینما کی جانب مائل ہونے پر مجبور کردیا ـ

انہوں نے اپنی پہلی فلم “انکُر” کے ساتھ ہی سب کو چونکا دیا ـ “انکُر” میں شبانہ اعظمی کو متعارف کیا گیا جنہوں نے بعد ازاں سنجیدہ اداکاری کا ایک معیار قائم کردیا ـ اپنی دوسری فلم “نشانت” میں انہوں نے نہ صرف دیہاتی زندگی کا پراثر خاکہ کھینچا بلکہ اس فلم کے ذریعے انہوں نے ہندی سینما کو نصیرالدین شاہ جیسے قابل فن کار سے متعارف کروایا ـ

شیام بینیگل نے سماج کے دھتکارے ہوئے طبقات کے مسائل کو فلمایا اور ایسا کہنا ہرگز مبالغہ نہ ہوگا کہ خوب خوب فلمایا ـ “منتھن” ، “بھومیکا” ، “جنون” ، “ہری بھری” ، “سورج کا ساتھواں گھوڑا” ، “زبیدہ” ، “منڈی” اور “کُل یُگ” سمیت انہوں نے متعدد ایسے فن پارے پیش کئے جنہوں نے متوازی سینما کو عروج پر پہنچا دیا ـ

انوراگ کیشپ
دورِ حاضر کے ہدایت کاروں میں انوراگ کیشپ کی انفرادیت ثابت ہے ـ وہ بھاری بھرکم سیٹ ڈیزائننگ، یورپ کی دلکش وادیوں، نازک اندام لڑکیوں اور سپراسٹار کے نام سے معروف اداکاروں سے احتراز برتتے ہیں ـ وہ گلیوں و بازاروں کو ہی اپنا سیٹ بناتے ہیں، زیادہ تر “گوریلا فلمی تکنیک” کے ذریعے خفیہ کیمرے کا استعمال کرتے ہیں تاکہ گرد و پیش کے افراد کی حقیقی زندگی کو فلم کا حصہ بنایا جاسکے ـ ان کی بعض فلموں کے متعدد کردار بھی پروفیشنل اداکاروں کی بجائے عام لوگ ہیں ـ

اپنے منفرد گوریلا انداز سے وہ حقیقی ہندوستان کی منظر کشی کرتے ہیں ـ حقیقت تلخ ہوتی ہے اس لئے ان کی فلمیں موضوعی و معروضی دونوں سطح پر تلخ ہیں ـ وہ منٹو کی مانند ننگے پن پر پردہ ڈالنے کی بجائے اس کے ننگے پن کو بلا کم و کاست دکھاتے ہیں ـ ان کی فلموں کو برداشت کرنا اسی طرح مشکل ہے جس طرح منٹو کے افسانے ناقابلِ برداشت ہیں ـ

Advertisements
julia rana solicitors

“دیو ڈی” ، “اَگلی” ، “گینگز آف واصع پور” ، “دیٹ گرل ان یلو بوٹس” ، “رامن رگھو 2.0” سمیت ٹی وی سیرل “سیکرڈ گیم” میں گاہے تھونڈے کی زندگی، الغرض ہر جگہ انہوں نے نئے اور غیر روایتی فلمی تکنیکس ذریعے فلم سازی کی ایک نئی روایت قائم کردی ہے ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply