کچھ نہ کہو۔۔۔۔۔۔سلیم مرزا

شوق کی کوئی قیمت نہیں، چنانچہ اس حوالے سے وکی جیسا بے قیمت بھی کوئی نہیں ۔ لوگ شوق پالتے ہیں، اس نے شوقینی پال رہی ہے، اسے اگر کسی بات سے چڑ ہو تو یقین رکھیں وہ عقل کی ہی بات ہوگی، وکی سیانوں سے اتنا دور رہتا ہے، جتنا فاصلہ کوئی سیانی وکی سے رکھتی ہے۔
اس کے مشغلوں میں ایک مشغلہ بلاجواز خوش رہنا بھی ہے، شادی سے پہلے وہ ملک ملک گھوما مگر شادی کے بعد ائیرپورٹ صرف آئینے میں دیکھ کر خوش ہولیتا ہے۔
کل بری طرح ہنستے ہوئے ملا، کیونکہ وہ ہنستا ہوا کبھی اچھا نہیں لگتا۔۔۔
میں نے وجہ نہیں پوچھی۔۔۔۔خود ہی بتانے لگا۔
“آج گدھا گاڑی پہ دکان کا سامان لئے جا رہا تھا، وجہ ہجرت چند ناہنجار کرائے تھے، جو وقت پہ مالک دکان تک نہ پہنچ پائے، سامان گدھا گاڑی کے اوپر تھا اور سامان کے اوپر میں، کہ اچانک میسنجر پہ ایک جاننے والی کی کال آگئی جو کسی ٹھنڈے ملک میں اپنی بیوگی گرما رہی تھی۔
اسے فخریہ بتا دیا کہ گدھا گاڑی پہ بیٹھا  ہوں، اور ساتھ سیلفی بھی اپلوڈ کردی کہ سند رہے گدھا آگے ہی ہے،
حسینہ سے نرینہ گفتگو کے دوران گدھا لفظ کئی دفعہ استعمال ہوا۔۔۔ہر بار ڈرائیور نے گردن موڑ کر دیکھا۔۔
بات ختم ہونے پہ غور کیا تو اندازہ ہوا کہ گدھا گاڑی ملکی معیشت کی طرح بیچ سڑک رکی تھی، کوچوان نے اس” سوٹی “سے سامان اتارنے کا اشارہ کیا جس سے گدھے کا گئیر چینج کیا جاتا تھا،
انتہائی عاجزی سے تقصیر پوچھی تو پتہ چلا کہ خچر کو بار بار گدھا کہہ کر بدتمیزی کا مرتکب  ہوا ہوں۔۔۔
میں جانوروں سے قومی عقیدت دیکھ آبدیدہ ہوگیا۔
گدھے اور خچر دونوں سے معافی مانگ کر آیا ہوں ۔۔
میں نے ساری کہانی سننے کے بعد پوچھا کہ اس میں اتنا ہنسنے کی وجہ؟
اس نے ایک اور قہقہہ لگایا اور کہا
“یار اگر ہم اتنے ہی خچر شناس ہوتے تو موجودہ حکومت ہوتی”۔۔۔۔؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply