دمشق کے مٹیالے سے آسمان اور زمین پر بکھری اِس روشن سی صبح جسے اپنے کمرے کی کھڑکی سے قریبی عمارتوں کی ماتھا پٹیوں پر سجے دیکھ کر میں نے اپنے اندر ایک لطیف سی مسرت کو اُترتے محسوس کیا تھا۔ تپائی پر ناشتے کا سامان سجا کر نسرین نے مجھے آواز دی تھی۔
اور اب جب پنیر سے لدا پھندا سلائس مزیدار چائے کے گھونٹوں کے ساتھ اندر اُترا تھا تو ساتھ ہی اپنے رب کی بھی شکر گزاری ہوئی تھی کہ جس نے گائے بھینس بنائی اور یہ مزیدار تحفہ عنایت کیا۔ یہ بھی اُسی وقت سننے میں آیا نسرین سے کہ آج قافلہ زیارات کے لئے دمشق جائے گا۔
تو خود سے کہتی ہوں۔ ”چلو بھئی آج ان کے ساتھ ہی نتھی ہوتے ہیں۔ ٹیکسی کے کرائے بھاڑے کی بچت تو ہوگی ہی۔“
لوگوں نے وقت کی خاصی پاپندی کی۔ غالباً رات کو بلیٹن جاری ہوا ہوگا۔ اِس سفر نے لطف دیا کہ بس چھوٹی چھوٹی گلیوں میں سُست رفتاری سے چلتی اور نئے منظروں سے آنکھوں کو سیراب کرتی رہی۔ کہیں عمارتوں کے نئے، کہیں پرانے رنگ ڈھنگ، دکانوں کے اندر باہر نکلتے اور داخل ہوتے لوگ، چوراہوں پر ایک چہل پہل کا سا سماں، مردوں، عورتوں اور چھوٹے بچوں کے انداز واطوار کیسے مزے کے دلفریب اور موہ لینے والے تھے۔ سکو ن سے اندر بیٹھے بیٹھے میں نے ان سبھوں سے لطف اٹھایا۔
بس نے اہل بیت سٹریٹ کے پاس ایک کھلے میدان میں اُتار دیا۔ اہل بیت کا یہ قبرستان پرانے دمشق کی فصیل کے ساتھ باب صغیر کے قریب ترین ہے۔ ال جراح سٹریٹAl-Jarrah Street اُسے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔
لوگوں کی طرح مجھے کوئی بیتابی وشتابی نہیں تھی۔ اور جب میں خود سے پوچھتی تھی۔ تو سب سے پہلے مجھے کس طرف جانا ہے؟ میں اور میرا دل بھی عجیب من چلا اور باغی سا ہے۔ اندر سے جوا ب آیا تھا۔ وہ نزار قبانی سے نہیں ملنا؟وہ یہیں باب صغیر میں ہی تو دفن ہے۔
ارے ہاں بھئی اُس سے تو ملنا ہی ملنا ہے۔پرانی محبت نئے سرے سے جوان ہوگئی ہے۔مگر اس وقت اٹھنے اور گھومنے پھرنے کی بجائے میرا دل منظروں کو اپنی آنکھوں میں جذب کرنے کا بڑا ہی خواہش مند ہے۔
اورمیں سڑک کے ایک جانب پختہ چبوترے پر بیٹھ کر اس دنیا کی بھیڑ میں کھو گئی۔ بیچنے والوں کی آوازیں اور ریڑھیوں پر لشکارے مارتی سوغاتوں کا پھیلاؤ جن میں کیمروں اور موبائلوں تک کی بہتات تھی۔ ایسا ہی رش عاشقان خریداروں کا تھا جو کہیں ریڑھیوں کے گرد، اور کہیں زمین پر بکھر ے سامان کے گرد کھڑے بیٹھے مول تول میں اُلجھے ہوئے تھے۔ ایک پاکستانی دیہاتی خاتون چھوٹی سی میکسی ہاتھوں میں لہراتے ہوئے جھگڑتی تھی کہ پانچ سو لیرا۔اتنی مہنگی تساں تے ان نیر مچایا ہویا اے۔(یعنی تم لوگوں نے آفت مچا رکھی ہے۔)
بے اختیار ہی نگاہیں اوپر اٹھ گئی تھیں۔آسمان کی کشادگی کا پھیلاؤ جہاں تک نگاہ جاتی بکھرا ہوا نظروں کا گھیراؤ کرتا تھا۔ نظر لوٹتی تو احساسات کی یلغار بھی ہم رکاب ہوتی تھی۔ کہیں تسبیحیں، خاک شفا، جائے نماز، اور کہیں میکسیاں، کھلونے، کیمرے، موبائل۔ دین اور دنیا دونوں کا کاروبار عروج پر تھا۔ واہ مولا تیرے رنگ۔

اب اٹھی تو نزار قبانی کے لئے تھی مگرپتہ نہیں بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے لئے محبت نے ایکا ایکی ہی جوش مارا۔یوں اُن کے لئے بھی میری ممتا ہمیشہ ہی اُبلی رہتی ہے۔ ویسے وجہ تو جانتی ہوں۔ دو چیزیں مشترکہ ہیں ہی۔ کالا رنگ اور احساس کمتری کا احساس۔
تو اب سب سے پہلے اُن کی قبر کی متلاشی ہوئی۔ شمال کی جانب جانے کا کسی نے بتایا۔ مزار نیچے گہرائی میں تھا۔ سیڑھیاں تھیں اور کمرہ عاشقان سے بھرا ہوا تھا۔ جولائی کے دنوں کا حبس دم گھونٹتا تھا۔ تاہم پرواہ کسے تھی۔ایک تصویر بنوانے کا ہوکا کہ سند رہے،دوسرے فاتحہ خوانی کی فکر کہ سکون سے دعا ہوجائے۔تیسرے تھوڑی سی رازونیازی۔ بہرحال تینوں کام ہوئے۔رازونیازی بھی اور ایک درخواست بھی گوش گزار کی کہ جیسے عاشق اُس ہستی کے وہ تھے۔ اس عشق کا پھور چھور(بچا کچھا)مجھے بھی نصیب ہوجائے۔
وہیں حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے شوہر جعفر بن طیار رضی اللہ عنہ تھے۔ بہت سی قبریں اور بھی تھیں۔ایک مشترکہ دعائے خیر سب کے لئے کی۔
حضرت ام سلمیٰ اور اُمّ حببیہ رضی اللہ عنہ د ونوں میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواج۔ فاتحہ دونوں کے لئے ہوئی۔ لب سڑک حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے مزار پر حاضری دی۔ بی بی فضہ کے لئے بھی دعائے خیر کی۔
اب مجھے اپنے اُس محبوب کی قبر پر پہنچنے کی جلدی تھی۔ تو خجل خواری بڑی ہوئی۔ لوگ بھی کتنے بونگے تھے۔ مناسب طریقے سے رہنمائی ہی نہ کرتے تھے۔ تو لمبے لمبے خوبصورت کتبوں والے قدرے تنگ راستے پر چلتی درختوں اور بوٹوں کو دیکھتی اس کی قبر پر پہنچی تھی۔ اس کے کتبے پر درج تھا مثویٰ مثویٰ فقید الشعر العربی۔
ہاتھ اٹھائے تو اس کی صورت آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگی۔ بھلا ہو زکریا کبرت کا کہ جس کے پاس پورا البم تھا۔کیسی دل کش شخصیت کا حامل تھا۔اُس کی دوسری عراقی بیوی بلقیس تو جیسے حُسن و خوبصورتی کا شاہکار تھی۔ ایسے ہی تو اُس کی موت پر اُ س نے”لکھ لکھ مارے بین“جیسی مثال کو سچ کر دیا تھا۔ہاں زہرہ اک بیک اس کی کزن،اس کی پہلی بیوی بھی بڑی دلکش تھی۔
مجھے اس وقت شدید دکھ ہوا تھا کہ جب زکریا سے میرے پوچھنے پر کہ اس کے گھر کو میوزیم بنایا گیا ہے یا کسی اور جگہ میوزیم ہے کہ میں وہاں جانا چاہتی ہوں۔زکریا نے نفی میں سرہلایا تھا۔میں نے دُکھ سے کہا تھا۔
”آخر ہم مسلمان قومیں اپنی ادبی،تاریخی شخصیات اور ورثوں بابت اتنی بے حس کیوں ہیں؟قاہرہ میں نجیب محفوظ کا میوزیم نہیں۔“ میں نے پرانے قاہرہ کے گلی کوچے روند مارے تھے۔تھکی ہاری اور رونکھی سی آواز میں میں نے بے اختیار خود سے کہا تھا۔
”مصریوں تمہیں کیا ہوگیا ہے؟تم نے اپنے اتنے لیجنڈری لکھاری کی کوئی قدر نہیں کی۔میں پیاسی بھٹکتی پھر رہی ہوں اور مجھے کچھ مل نہیں رہا ہے جو میری تشفی کرسکے۔“
نوٹ:اور اس وقت میں جو 2016کے موسم بہار کی رتوں میں بیٹھی اپنے لکھے ہوئے کی کانٹ چھانٹ میں مصروف ہوں۔جانتی ہوں کہ نجیب محفوظ کا بہت خوبصورت میوزیم مصری حکومت نے 2015دسمبر میں بنایا ہے۔چلو خدا کا شکر ہے۔
تو زکریا شام کی حکومت اتنی بے حس کیوں ہے؟
زکریا نے میرے اِس دکھ بھرے سوال پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔پھر وہی ہوا تھا کہ ڈاکٹر لُدمیلا کی طرح کہ جب وہ مستنصر حسین تارڑ سے کہتی تھی کہ تم مجھے قبرستان لے چلو اور پھر وہ فیض صاحب کی قبر کے گرد گھومتی اور ان کے اشعار پڑھتی اور انہیں محبتوں اور عقیدتوں کے نذرانے پیش کرتی تھی۔
میں نے بھی اُسی روایت پر عمل کیا تھا کہ لکھنے والے کسی بھی خطے کے ہوں کسی بھی قوم اور کلچر سے ہوں۔ان کے بنیادی جذبات و احساسات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔اور کوئی درود،کوئی دعا پڑھنے کی بجائے میرے لبوں پر اُس کی وہ مشہور زمانہ نظم “کیا آپ مجھے اجازت دیں گے؟” آگئی تھی جو میں نے بھیگی آنکھوں سے پوری پڑھی تھی۔
ایک ایسی دنیا میں جہاں مطلق العنانی ہے
جہاں دانشوروں کو تختہ دار پر لٹکایا جاتا ہے
جہاں لکھاری بے دین، منکر اور مر کیا آپ مجھے اجازت دیں گے
کہ میں اپنے بچوں کو بتاؤں
خدا عظیم ہے اور اس کے معیار مختلف ہیں
ان سے
جو مذہب کے تاجر ہیں
اور خدا کی جواب طلبی میں مہربانی ہے
اور وہ بہت رحیم وکریم ہے
”ہائے کیا شاعر تھا۔“
جب اپنے اس عشق کی تشفی سے فارغ ہوئی اور وہاں پہنچی جہاں بسیں کھڑی تھیں تو وہاں بسیں تو تھیں مگر وہ نہیں جن میں لد کر میں یہاں آئی تھی اور جنہیں میں نے اُترنے کے بعد ان کے پاس اک ذرا رک کر اُن کی کچھ خاص نشانیاں ذہن نشین کی تھیں۔
تو اب؟ سوال سامنے آکھڑا ہوا تھا۔ اپنے اِس سوال پر میں خود ہی ہنس پڑی تھی۔ تو اب اکیلی مٹر گشت کرو۔ تمہیں ڈر کس کا ہے؟
ہاں واقعی اب ٹیکسی میں بیٹھی اور وہیں صلاح الدین کے مجسمے دمشق سٹیڈل پر آ اُتری۔ بھئی صلاح الدین کا مزار دیکھنا ہے۔ اِس تحفے، اِس سوغات کو اب فضول اپنی خود ساختہ فینٹیسی کی نذر نہ کروں۔ اندر باہر کُلبل کُلبل سی ہو رہی ہے۔ چلو ٹھنڈ تو پڑ جائے گی نا۔
تو راستے وہی پرانے تھے۔جنہیں کئی دنوں سے دیکھ رہی تھی۔ مگر منظروں میں نیا پن بھی تھا۔
ارے رُک گئی ہوں۔ کیسادلاآویز سا منظر سامنے ہے۔ ہواؤں میں تیزی ہے اور درختوں کی ٹہنیاں بار بار جھک جھک کر اپنی پشت پر کھڑی قدیم عمارتوں کو جیسے تعظیم دیتی ہیں۔ جیسے اُن کے قدامت کے حُسن کو سراہتی ہوں۔ دائیں بائیں دو گلیاں نمو دار ہوگئیں۔ اب کھڑی دونوں کو دیکھتی ہوں۔ بڑے بڑے پتھروں سے بنے بلند وبالا گھر جو اب یقیناً ریسٹورنٹ بنے ہوں گے۔ شیشے کے دروازوں کے سامنے گملوں میں اُگی دیواروں کو چڑھتی بیلوں نے سٹریٹ کو کتنا خوبصورت بنا دیا تھا۔
سیدھی چلتی گئی۔آگے اور منظر تھے۔ محراب در محراب چھتے ہوئے گلیارے جو سرنگوں کی طرح آگے بڑھتے تھے۔کہیں گلیاں کشادہ راستوں اور چوراہوں پر کھلتی تھیں۔اتنے خوبصورت سہ منزلہ مکانوں کا سلسلہ۔زمینی منزل پر دیواروں سے سجی بہت سی اشیاء بکتی تھیں۔گاڑیاں بھی پارک تھیں۔
میں رُک گئی۔ ایک ٹھیلے پر برف کے کریٹ پر سجے چمکتے نارنجی رنگ کے ایک پھل پر نظر پڑی تھی جسے ریڑھی والا چھیل چھیل کر اپنے اردگرد کھڑے لوگوں کو دے رہاتھا۔ پوچھنے پر ایک لڑکے سے پتہ چلا تھا کہ یہ کیکٹس ناشپاتی ٹائپ کا سٹرس پھل ہے اور جس کا مقامی نام حبارا ہے۔ کھٹا میٹھا نرم ٹھنڈا کھا کر بہت لطف آیا تھا۔
تو میں آگے بڑھی۔ قلعہ دمشق کی دیوار ساتھ ساتھ چلتی تھی۔ تو منزل پر پہنچنے سے پہلے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے مزار کی زیارت ہوگئی۔ دو رویہ دوکانوں کا سلسلہ اور تنگ سی چھتی ہوئی گلی ایک سمت ذرا سا رُخ پھیرتے ہوئے ان کے روضہ مبارک میں لے گئی تھی۔اندر کا ماحول ایسا جگمگ جگمگ کرتا تھا۔ شیشے اور پچی کا ری کاایسا کام کہ جی خوش ہوگیا۔ مزار کا ہال وسعت میں بھی اور آرائش میں بھی بے مثال تھا۔ اس کی زیبائش میں ایرانی حکومت کا کردار ہے۔ روضہ مبارک کی جالی بھی بہت خوبصورت چاندی اور سونے میں ڈھلی ہوئی۔ ان کے ساتھ لپٹے ہوئے عقیدت مند اور ان کے آنسو۔ عقیدتوں اور چاہتوں نے کیسے اُن درویش صفت لوگوں کو سونے چاندی کے خولوں میں لپیٹ دیا ہے۔ نفل پڑھے۔ دعائے خیر کی۔ تھوڑا سا صحن میں گھومی پھری۔ تصویریں بنائیں اور باہر نکلی۔
یہ گلیاں اندر ہی اندر پھیلتی کہیں حمیدیہ بازار جانکلتی تھیں اور کہیں صلاح الدین کے مزار کی طرف۔مزار ایوبی مسجد اُمیہّ کے پہلو میں واقع ہے۔ تو جب ایک بوڑڈ نظروں میں آیاجس پر لکھا ہوا تھا۔
”صلا ح الدین ایوبی“
پڑھنے کے ساتھ ہی دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی تھیں۔ بلند وبالا محراب نے توجہ کھینچی۔ مزار کی مرمت کا کام ہورہا تھا۔ بائیں جانب ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا۔لیموں اور سنگتروں کے پیڑوں پر وہ دھول جمی ہوئی تھی جو مزار پر کام کے سلسلے میں رگڑائی کی صورت اڑتی تھی۔ فضا دُھوا ں دُھواں سی تھی۔ مزار چھوٹا سا تھا۔ اس پر مزدوروں کا سلسلہ۔
اندر دو قبریں تھیں۔ ایک اصلی اخروٹ کی چوبی لکڑی سے بنی ہوئی جس پر کلمہ طیبہ کا لباس اوڑھے سبز چادر کے نیچے وہ عظیم ہستی استراحت فرماتی تھی۔ اور ساتھ ہی دوسری۔ تو پتہ چلا کہ سفید سنگ مر مر والا تعویز جرمنی کے شاہ قیصر ولیم دوم نے 1898ء میں تاریخ کے اِس عظیم ہیرو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبد الحمید کو تحفتاً پیش کیا تھا جب وہ شام سے گزر کر یروشلم جارہا تھا۔
یہ کانسی سے بنے پھولوں کے مکٹ سے سجا ہوا تھا۔جسے وہ کمینہ لارنس آف عریبیا انگلینڈ جاتے ہوئے اُتار کر لے گیا تھا۔آج کل یہ امپریل وار میوزیم میں سجا ہوا ہے۔ تھوڑا سا افسوس ہوا۔ مزار کی وسعت اتنی نہ تھی کہ دس لوگ اگر اندر آجائیں تو سکو ن سے کھڑ ے ہو کر فاتحہ خوانی کر سکیں۔
اب فاتحہ خوانی جیسی رسمی چیزیں تو کرلیں۔ مگر دل کہیں بوجھل بوجھل سا تھا۔ یہ مسلم امہ کتنے عذابوں میں پھنسی پڑی ہے۔اپنی خواہشات کے پھیلاؤ اور پسار نے کیسے اِسے مغرب کا یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے۔کر دارسے عاری اور بے عملی کے لاشے۔
میں نے نم آنکھوں سے مزار کو پھر دیکھا تھا۔ کیا انسان تھا۔ کردار کی عظیم چوٹی پر بیٹھا۔ مرتے وقت ذاتی چیزوں میں کچھ تھا ہی نہیں۔ کفن دفن کے اخراجات کے لئے بھئی رقم پکڑنی پڑی تھی۔ پہلو میں ہمیشہ کمر کے ساتھ لٹکنے والی تلوار کو رکھا گیا۔ پہلی تدفین امانتاً قلعہ دمشق میں ہوئی۔ بعد میں یہاں منتقلی ہوئی۔
دل جانے کیوں اتنا بھاری بھار ی سا تھا۔ وہیں بیٹھ گئی تھی اور اس سے مخاطب ہوئی تھی۔
صلاح الدین دنیا کے تہذیبی تصادم کے بھی کتنے جبر ہیں۔تاریخ کے سینے میں درج یہ نئی نسلوں کو بڑے تلخ اور نفرت سے دہکتے پیغام دیتے ہیں۔ لو دو تین چھوٹے بڑے واقعات تو میں تمہیں سنا ہی دیتی ہوں۔
ایک بہت اہم تو یہی ہے کہ جو مشرقی یورپ کے دور اندیش مسلمانوں خصوصی طور پر یہودیوں کی تلخ سوچوں کی صورت سامنے آیا تھا کہ 1683ء کے وی آنا محاصرے میں عثمانیوں کی ہزیمت پر جو انداز یورپ کے لوگوں، خصوصی طور پر اہل وی آنا کا سامنے آیا تھا۔ وہ لمحہ فکریہ تھا۔ صبح کے ناشتے کے لئے ہلالی صورت جیسے کلچے کی ایجاد جسے انہوں نے Croissantکا نام دیا تھادستر خوان پر اس کی موجودگی ضروری ٹھہرائی۔ مقصد یہی تھا کہ ترکوں کی ہزیمت کی یاد تازہ رہے۔ اس طرزعمل نے غیر عیسائی دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا تھا کہ ان زمینوں پر عیسائیوں کا دوبارہ قبضہ اُن (مسلمانوں اور یہودیوں) کے لئے عذاب سے کم نہ ہوگا۔ اور تاریخ نے اِسے سچ ثابت کیا تھا۔
بیت المقدس پر صلیبی جنگ کے فاتحین نے 1099ء میں جس بہیمانہ طریقے سے یہودیوں اور مسلمانوں کا قتل کیا تھا۔ صدیاں گزرنے پر بھی اس کی سفاکی تاریخ کے ساتھ انہیں بھی یاد تھی کہ آباؤاجداد نے نسل در نسل اسے زندہ رکھا تھا اور اب اگر ایسا کہیں ہوگیا تو کیا کوئی صلاح الدین ایوبی ہوگا جو ان کے لئے رحمت کا باعث بنے گا؟
صلاح الدین تمہیں اس ہوچھے فرانسیسی جنرل ہنری گورو کا واقعہ بھی تو بہت اچھی طرح یاد ہوگا۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر فرانس کو مال غنیمت کے طور پر ملنے والے اس ملک شام کے منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے آیا تو تمہارے مقبرے پر جوتا پھینکتے ہوئے کیسے چلّا کر کہا تھا۔
”سُنتے ہو صلاح الدین۔ہم فاتح بن کر لوٹ آئے ہیں۔دیکھو ہم نے سبز ہلالی پرچم سرنگوں کردیا ہے۔صلیب ایک بار پھر عروج پر ہے۔“
میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔
کتنا کم ظرف اور لعنتی تھا۔پرتم نے بھی یہ سب سُنا اور چپ رہے۔اٹھے بھی نہیں۔صلاح الدین تم نے کب تک سوتے رہنا ہے۔صدی بیت گئی ہے۔ فلسطین کتنا بے آبروہوگیا ہے۔
ڈھیر سارا بہت سارا وقت وہاں گزارا تھا۔ اور مزید گزارنے کی ابھی بھی حسرت تھی۔
تد سمجھے جاتے ہیں
جہاں کتابیں جلائی جاتی ہیں
جہاں سوال کرنا گنا ہ ہے
جہاں معاشروں میں رواداری اور برداشت نہیں
جہاں طاقت زبان اور سوچ پر پہرے لگاتی ہے
مجھے اجازت دیں
کہ میں اپنے بچوں کو یہ سکھاؤں
خدا نے انسانی روح اور جسم کو قتل کرنے سے منع کیا ہے

کسی مسلمان کو یہ حق نہیں کہ دوسرے مسلمان کو ڈرائے دھمکائے اور قتل کرے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں