یہی کوئی پانچ ،چھ برس کی ہوں گی میں۔ گرمیوں کی چھٹیاں لالہ موسیٰ میں گزرتی تھیں۔ چھت پر کھلے آسمان تلے سونے کی وجہ سے صبح صبح آنکھ کھل جاتی تھی ۔ناشتہ کرنے نیچے آتے تو ابا جی کی مسجد سے واپسی ہوتی۔
اباجی کبھی مسجد سے خالی ہاتھ نہ آتے بلکہ مسجد کے صحن میں لگے ہوئے موتیا کے پودے سے ڈھیروں پھول نانی امی کے لئے لے کر آتے،جن میں سے دو پھول نانی امی فوراً اپنے کانوں میں پہن لیتیں۔ تب سے موتیا میرے لئے رومینس کی علامت بن گیا۔
آج بھی موتیا اور اس کی خوشبو مجھے محبتوں سے بھرے ایک گھر میں لے جاتے ہیں۔۔جہاں خلوص تھا،پیار تھا،ہنسی تھی،شرارتیں تھیں،ایک دوسرے کی فکر تھی،ایک دوسرے کا خیال تھا،ایک دوسرے پر مان تھا۔۔۔مجھے یقین ہے کہ وہاں اوپر ۔۔بہت اوپر ۔۔۔۔ابا جی آج بھی نانی امی کو موتیا لا کر دیتے ہوں گےاور نانی امی اسی طرح انہیں کانوں میں پہن لیتی ہوں گی ۔۔کیونکہ ۔۔۔۔’محبت مر نہیں سکتی’!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں