پاکستان میں میوزیکل چیئر کا کب آغاز ہوا، کب کٹھ پتلی وزیر اعظم اور بادشاہ گر لوگ سامنے آئے اور کب ٹیکنو کریٹ اور پروفیشنل لوگوں کو حکومت کا حصہ بنانے کی بات کا آغاز ہوا۔ اس کے لیے ہمیں پچاس کی دہائی کے پاکستان میں جانا پڑے گا اور محمد علی بوگرہ کے دور کا مطالعہ کرنا پڑَ ے گا۔
محمد علی بوگرہ پاکستان کے تیسرے وزیر اعظم تھے۔ آپ نے 1953 سے 1955 تک وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا۔ محمد علی بوگرا نے 17 اپریل 1953 کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔
محمد علی بوگرہ کو ٹیکنو کریٹ کہا جا سکتا ہے۔ وہ پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی فارن سروسز کا حصہ بن گئے تھے۔ محمد علی بوگرا 1948 میں برما میں پاکستان کے سفیر مقرر کیے گئے، انہیں 1949 میں کینیڈا میں پاکستان کا ہائی کمشنر مقرر کیا گیا تھا جبکہ 1952 میں انہوں نے امریکہ میں سفیر کی خدمات انجام دی تھیں محمد علی بو گرا 27 فروری 1952ء سے 16 اپریل 1953ء امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہے۔
محمد بن قاسم کا حملہ ایک تاریخی جائزہ۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم
گورنر جنرل ملک غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو اسمبلی کی اکثریت کے اعتماد کے باوجود ان پر کوئی الزام عائد کیے یا کوئی وجہ بتائے بغیر برطرف کر کے امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم مقرر کیا۔
فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع مقرر کیا گیا تھا۔
پاکستان میں یہ پہلا موقع تھا جب وزیر دفاع فوجی وردی میں ملبوس کابینہ کے اجلاس میں شریک ہوا۔
یہ پاکستان میں ایک طرف ٹیکنو کریٹس کو حکومت میں شامل کرنے کی ابتدا تھی تو دوسری طرف ملک کے اقتدار میں فوج کی شراکت اور آخر کار ملک کے اقتدار پر براہ راست فوج کے تسلط کی ابتدا تھی۔
محمد علی بوگرہ کو ملک غلام محمد گورنر جنرل نے اس لیے وزیر اعظم مقرر کیا کہ وہ ایک تابعدار وزیر اعظم ثابت ہوں گے اور انھوں نے بھی ہر ممکن طریقے گورنر جنرل کو خوش کرنے کی کوشش کی محمد علی بوگرا غلام محمدکو اپنا محسن سمجھتے تھے۔
محقق نعیم احمد نے اپنی تالیف ”پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم“ میں لکھا ہے کہ”امریکہ نے ایک دفعہ پاکستان کو دوستی کے تحت ریلوے کے چند انجن دیے۔ ان انجنوں کے وصول کرنے کی رسم ادا کرنے کے لیے گورنر جنرل صاحب باقاعدہ اپنی گاڑی میں اس مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن بوگرا صاحب ایک فوجی کی موٹر سائیکل کو خود چلانے لگے اور گورنر جنرل کی گاڑی کے آگے آگے پائلٹ کا کردار ادا کیا۔ جب ریلوے اسٹیشن جہاں پر انجن کھڑے تھے، وہاں پہنچے تو انجن کے اندر پہنچ گئے۔ انجن کے ڈرائیور کی ٹوپی لے کر اپنے سر پر پہن لی اور انجن چلانا شروع کر دیا۔
آپ اس حد تک گورنر جنرل کے تابعداری کا مظاہرہ کرتے تھے۔
پاکستان میں میوزیکل اقتدار کا نظام شروع کرنے والے چاہتے تھے کہ ان کی منشا کے مطابق آئین کی تشکیل ہو اس لیے انہوں نے محمد علی بوگرہ کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ پاکستان میں پس پردہ قوتوں کی خواہشات کے مطابق آئین بنائیں۔ انہوں نے پاکستان کا آئین بنانے کا آغاز کیا، جس میں پانچ صوبوں کے قیام کی تجویز پیش کی گئی تھی، جن میں پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور مشرقی پاکستان شامل تھے، جبکہ اس حوالے سے کچھ تجاویز بھی پیش کی گئیں، تاہم مذکورہ تجاویز پر اتفاق رائے نہ ہونے کے بعد انہوں نے متنازع ’ون یونٹ‘ فارمولا بنانے کا کام شروع کیا جس کا مقصد مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو ایک ریاست میں تبدیل کرنا تھا۔
اگست میں پاکستان کا قومی ترانہ پہلی بار نشر کیا گیا۔۔۔
تیئس اکتوبر کو پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔
محمد علی بوگرا نے 22 نومبر 1954 میں ون یونٹ کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کوئی بنگالی نہیں، کوئی پنجابی نہیں، کوئی سندھی نہیں، کوئی پٹھان نہیں، کوئی بلوچی نہیں، کوئی بہاولپوری نہیں اور نہ ہی کوئی خیرپوری، علاقائی تقسیم کی عدم موجودگی پاکستان کی سالمیت کو مستحکم کرے گی۔
بیورو کریسی ، فوج اور اردو بولنے والی کراچی اور پنجابی اشرافیہ کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر ملک میں جمہوری ڈھانچہ کے تحت مشرقی پاکستان اور ملک کے دوسرے تین چھوٹے صوبوں کے ساتھ کسی معاملہ پر ایک رائے اور متحد ہو جائے تو کراچی اور پنجاب سیاسی طور پر بے بس ہو کر رہ جائے گا۔
پانچ اکتوبر کو ایک اجلاس میں دستور ساز اسمبلی میں پنجاب مسلم لیگ پارٹی نے تین مطالبات پر مشتمل ایک الٹی میٹم پیش کیا اورکہا کہ اگر اس کے یہ مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو اٹھائیس اکتوبر کو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے قبل پارٹی کے تمام اراکین اسمبلی سے اجتماعی طور پر مستعفی ہو جائیں گے۔
دستور ساز اسمبلی نے اپنی تحلیل سے ذرا پہلے سات سال کے طویل عرصہ کے بعد ملک کے پہلے آئین کے خاکہ کے بارے میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی جو رپورٹ منظور کی تھی، دستور ساز اسمبلی میں پنجاب مسلم لیگ کے اراکین جن کی قیادت ملک فیروز خان نون کر رہے تھے اس کے سخت خلاف تھے۔ ان کو خدشہ تھا کہ اس رپورٹ پر مبنی نئے آئین کا بڑی حد تک جھکاؤ مشرقی پاکستان کے حق میں رہے گا جو آبادی کے لخاظ سے سب سے زیادہ اکثریت والا صوبہ تھا۔ انہیں خطرہ تھا کہ پنجاب کو نہ صرف پارلیمنٹ اور سیاسی میدان میں بلکہ بیوروکریسی اور فوج میں بری طرح سے نقصان اٹھانا پڑے گا۔
پنجاب مسلم لیگ اسمبلی پارٹی نے جو تین مطالبات پیش کیے تھے۔۔۔
ان میں پہلا مطالبہ تھا کہ آئین میں مرکز کے پاس صرف چار سبجیکٹس ہونے چاہئیں ۔ اول دفاع ، دوم امور خارجہ سوم کرنسی اور بیرونی تجارت چہارم بین صوبائی مواصلات۔
دوسرا مطالبہ تھا کہ ان امور کے علاوہ تمام امور صوبوں کو تفویض کرنے کے لیے تمام صوبوں کے نمائندوں کی کمیٹی فیصلہ کرے۔
تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ اگلے پانچ برس تک نئے آئین میں کوئی ترمیم اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کے لیے تمام صوبوں میں تیس فی صد اراکین کی حمایت حاصل نہ ہو۔
اس دوران مشرقی پاکستان کی مسلم لیگی قیادت جناب نورالامین نے نتیجہ اخذ کرلیا تھا کہ پاکستان میں مسائل گورنر جنرل کے اختیارات کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ اگر پاکستان کا سیاسی مستقبل کسی درست سمت میں لے کر جانا ہے تو گورنر جنرل کے اختیارات کو کم کرنا بہت ضروری ہے سندھ کے وزیر اعلی جناب عبدالستار پیرزادہ نہ صرف اس سے اتفاق کرتے تھے بلکہ اس کے لئے عملی اقدام کے لیے تیار تھے۔ چنانچہ سندھ کے وزیر اعلی عبدالستار پیر زادہ نے گورنر جنرل کے وسیع اختیارات کو چیلنج کیا اور ان کے اختیارات کو کم کرنے کے لیے ایک آئینی ترمیم پیش کی، یہ پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹی ثابت ہوا۔ ملک فیروز خان نون کو بڑی عجلت میں زیورخ بھیجا جہاں عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی زیر علاج تھے۔ اس پورے کھیل میں سہروردی کی اہمیت اس وجہ سے بڑھ گئی تھی کہ سنہ 54کے اوائل میں مشرقی پاکستان کے انتخابات میں عوامی لیگ کی قیادت میں جگتو فرنٹ فاتح رہی تھی اور سہروردی کو یہ احساس تھا کہ پنجاب سے ہاتھ ملائے بغیر انہیں قیادت میں شراکت حاصل نہیں ہو سکتی۔
جناب غلام احمد پرویز،ایک ذاتی تاثر۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم
سہروردی نے مغربی پاکستان کے تینوں صوبوں اور چھ ریاستوں کو ایک یونٹ میں ضم کرنے کے بارے میں تجویز پیش کی ۔اس شرط پر حمایت کرنے پر اتفاق کیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی حکومت، جسے مشرقی پاکستان کے گورنر سکندر مرزا نے برطرف کر دیا تھا، بحال کر دی جائے گی۔
زیڈ اے سلہری نے، جو اس زمانہ میں ٹائمز آف کراچی نکالتے تھے زیورخ گئے اور سہروردی کا ایک انٹرویو لے کر آئے جو انہوں نے اپنے اخبار میں جلی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔ اس انٹر ویو میں سہروردی نے دستور ساز اسمبلی کو غیر نمائندہ قرار دیا تھا اور اسے توڑنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس انٹرویو سے بلا شبہ گورنر جنرل کے منصوبے کو تقویت پہنچی۔
24 اکتوبر 1954 کو محمد علی بوگرہ کو بتلائے بغیر دستور ساز اسمبلی توڑ دی گئی اس کا احوال کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔
23 اکتوبر 1954 وزیر اعظم محمد علی بوگرا امریکہ کا دورہ اچانک ادھورا چھوڑ کر لندن کے راستے کراچی واپس آئے تو ہوائی اڈہ سے انہیں پولیس کے سخت پہرے میں عملی طور پر ایک قیدی کی طرح سیدھے گورنر جنرل ہاؤس لےجایا گیا، جہاں گورنر جنرل ملک غلام محمد ، فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان اور اُس زمانہ کے مشرقی پاکستان کے گورنر، جنرل سکندر مرزا صلاح مشورہ کر رہے تھے۔ ہوائی اڈہ پر موجود چند صحافیوں نے وزیر اعظم بوگرا سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن صاف منع کردیا گیا۔
کراچی میں بھاری تعداد میں فوج کے دستوں کو نقل و حرکت کر رہے تھے۔ طرح طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا اور قیاس آرائیوں کا زور تھا۔ وہ آشوب انگیز رات تھی گورنر جنرل ہاؤس میں، تین کے ٹولہ کے طویل صلاح مشورے اور منصوبہ بندی کے بعد وزیر اعظم بوگرا کو فوجی افسروں اور پولیس کی معیت میں بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کے اسٹوڈیو لے جایا گیا جہاں سے انہوں نے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ اور پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کیا۔ یہ اعلان اس وقت ہوا جب دستور ساز اسمبلی نے آئین کے بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ منظور کر لی تھی اور ملک کےپہلے آئین کا مسودہ چھ روز بعد ایوان میں پیش کیا جانے والا تھا۔ یہ اکتوبر کی24 تاریخ تھی۔
24 اکتوبر 1954کو جب گورنر جنرل ملک غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑی تو دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان تھے جنہوں نے جی داری دکھائی اور ملک غلام محمد کے اس اقدام کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کیا۔ سندھ چیف کورٹ نے جب مولوی تمیز الدین خان کے حق میں فیصلہ دیا اور دستور ساز اسمبلی کی بحالی اور نئی کابینہ کی منسوخی کا حکم جاری کیا تو ملک بھر میں خوشیا ں منائی گئیں اور لوگوں کو جمہوریت کی بقا کے امکانات روشن دکھائی دینے لگے۔
لیکن ان امکانات کو اس وقت زبردست زک پہنچی جب حکومت کی اپیل پر فیڈرل کورٹ نے سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ رد کر دیا چیف جسٹس کے عہدہ سے سبک دوش ہوتے وقت جسٹس منیر نے اپنے فیصلہ کا یہ کہہ کر دفاع کیا تھا کہ اگر وہ حکومت کے خلاف فیصلہ دیتے تو ملک میں افراتفری اور نراجیت پھیلنے کا خطرہ تھا۔
محمد علی بوگرہ کا دور پاکستان میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ محمد علی بوگرہ امریکہ میں پاکستانی سفیر تھے اس لیے اس زمانہ میں محض یہ شبہات تھے کہ پاکستان میں ان تبدیلیوں کے پیچھے امریکہ کا براہ راست ہاتھ تھا لیکن اب جو حقائق اور دستاویزات سامنے آئے ہیں ان کے پیش نظر یہ بات راز نہیں رہی ہے کہ پاکستان کے معاملات میں امریکہ بلا واسطہ طور پر مداخلت کر رہا تھا۔۔
محمد علی بوگرہ کے زمانے میں ہی پاکستان امریکہ کے دو فوجی معاہدوں سیاٹو اور سینٹو کا ممبر بنا، سات ستمبر 1954سیٹو معاہدہ پر پاکستان سمیت آٹھ ممالک نے دستخط کردئیے۔
پاکستانی افوج کودو باہمی دفاعی معاہدوں کے نتیجے میں برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے بھاری اقتصادی اور فوجی امداد موصول ہوئی اس امداد کے نتیجے میں افواج پاکستان کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کا موقع ملا۔
اس زمانہ میں پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کرانے کے لیے امریکہ کے نائب صدر رچرڈ نکسن بذات خود پاکستان آئے تھے اور ان کے قیام کے دوران پاکستان میں بائیں بازو کے دانشوروں، صحافیوں اور ٹریڈ یونین رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑے پیمانہ پر گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں۔ یہ ملک میں شہری آزادیوں پر پہلا حملہ تھا۔
احتساب اور سیاسی نظام۔۔۔داؤد ظفر ندیم
اسی دوران گورنر جنرل غلام محمد زیادہ بیمار ہوگئے تو مشتاق احمد گورمانی نے اس کی جگہ لینے کے لیے جوڑ توڑ شروع کر دیا۔ گورمانی کا راستہ روکنے کے لیے سیکرٹری دفاع سکندر مرزا اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خاں نے وزیراعظم محمد علی بوگرہ کو گورنر جنرل کا استعفیٰ لکھ کر دیا کہ گورنر جنرل سے اس پر دستخط کرا لاؤ۔ غلام محمد نے بوگرا کو چھڑیاں ماریں پھر جنرل ایوب خاں خود گئے۔ غلام محمد رونے لگے کہ میرا تو ہاتھ ہی کام نہیں کرتا۔ کمانڈر انچیف جنرل ایوب خاں نے سہارا دے کر استعفے پر زبردستی ان کے دستخط کرائے۔ یوں سکندر مرزا گورنر جنرل بنے۔
صدر سکندر مرزا نے اختلافات کے باعث 12 اگست 1955 کو محمد علی بوگرہ کو برطرف کردیا۔
سفیرِ پاکستان محمد علی بوگرہ کو واشنگٹن سے امپورٹ کرکے وزیرِ اعظم بنایا مگر 847 دن بعد دوبارہ واشنگٹن کی فلائٹ پر بطور سفیر سوار کرا دیا۔ نومبر 1955کو محمد علی بوگرہ کو امریکہ کا سفیر بنا دیا گیا جو کہ مارچ 1959 تک یہ خدمات انجام دیتے رہے۔
محمد علی بوگرہ ایک ٹیکنو کریٹ اور پروفیشنل آدمی تھے جن کا اصل میدان فارن سروسز تھا۔
13جون1962 کو کو محمد علی بوگرہ کو پاکستان کا وزیر خاجہ بنایا گیا۔
23جنوری 1963 کو محمد علی بوگرہ کی وفات کے بعد ان کا یہ سیاسی سفر ختم ہوگیا۔
Facebook Comments
برائے مہربانی کتاب ‘پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم’ از نعیم احمد کے پبلیشر کے نام سے آگاہ فرما دیں !
پیشگی شکریہ