پریشر کُکر نُما انسان۔۔۔رمشا تبسّم

آج کل پریشر کُکر کا زمانہ ہے جس میں کھانا جلدی پکتا ہے مگر حقیقت میں کھانا صرف پکتا ہی نہیں بلکہ پریشر سے ٹوٹ بھی جاتا ہے اور ذائقے میں کمی آتی ہے۔ کھانے کی اصلیت قائم نہیں رہتی۔ جو کہ سائنس کی رُو سے مُضرِ صحت بھی ہو سکتا ہے۔مگر لائف سٹائل کو قائم رکھنے کے لیے مختلف مہنگے برتن استعمال کرنے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ جن میں کھانا کم وقت میں تیار ہو جائے اور محنت کم ہو۔۔
چاندی تانبے لوہے کے برتن کا زمانہ بھی ہوا کرتا تھا۔جو مضبوط اور چمکدار ہوتے تھے ان کو صاف کرنے میں کافی محنت درکار ہوتی تھی مگر صاف ہو کر انکی چمک دیدنی ہوتی تھی۔ اور کھانا کھانے والے کی آنکھوں میں برتن کی چمک صاف دکھائی دیتی تھی۔ مگر اب یہ برتن لائف سٹائل کا حصہ نہیں اور دوسرا انکا ملنا مشکل بھی ہے۔

سب سے اچھے برتن مٹی کے ہوا کرتے تھے مگر آجکل کے پر پریکٹیکل لوگ برتن میں کھانا پکانا اور کھانا شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ مگر ان میں پکا ہوا کھانا لذیذ اور صحت مند ہوتا تھا اور کھانے والوں میں صحت مند مکالمے اور صحت مند محبت ہوا کرتی تھی۔لوگ اخلاص کی دولت سے مالا مال تھے۔

بظاہر سادہ نظر آنے والے یہ مٹی کے برتن صرف برتن نہیں بلکہ کمہار کی بھر پور محنت,صبر, یقین ,محبت ,خلوص, توجہ, احتیاط, لگاؤ اور شوق کا نتیجہ ہوتے تھے۔ انسان کو انسانیت کا سبق سیکھنے کے لیے بھی جن اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے وہ اجزاء بھی محنت,صبر , یقین محبت, خلوص, توجہ, احتیاط, لگاؤ , شوق اور لگن ہی ہیں۔ اور مٹی کے برتن بنانے والا کمہار ان اجزاء کا استعمال بھرپور کرتا تھا۔ برتن بناتے وقت ایک پل کی بھول چوک یا عدم توجہ اسکے برتن کی شکل خراب کر سکتی ہے لہذا مکمل توجہ سے بنانے کے لیے کمہار کا دل اور دماغ کا ایک جگہ ہونا پھر صبر اور یقین کے ساتھ محنت کرنا ضروری ہوتا ہے۔ پھر اس برتن کی آرائش اور رنگ و روغن سے اس سادہ سے برتن میں سادہ سی خوبصورتی بھر کر اس برتن کو مکمل کر دیا جاتا تھا۔ کمہار ہر لمحہ اپنی توجہ, محبت, محنت, لگن, خلوص , بہت صبر اور یقین کے ساتھ اس برتن میں شامل کرتا ہوا اس کو مکمل کر دیتا تھا۔پھر اس میں کھانا پکا کر کھانے والے لوگوں میں بھی یہی اجزاء شامل ہو جاتے تھے۔لہذا لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے,ایک دوسرے کی بات کو اہمیت دیتے,صبر اور خلوص پروان چڑھتا, محنت کی عظمت کو سمجھا جاتا اور مٹی کے بنے یہ انسان مٹی کے برتن میں کھانا کھا کر بھی زندگی سے لطف اندوز ہوتے اور ایک رشتوں سے بھرپور محبت والی سادہ سی زندگی گزار کر بھی مطمئن نظر آتے تھے۔

آجکل کے برتن ایک ساتھ مشین کے پروسیس(Process) سے گزر کر پریکٹیکل طریقے سے بن کر پریکٹیل لوگوں کے لیے پیش کیے جاتے ہیں جو کہ لائف سٹائل کا حصہ بن گئے ہیں۔ جس میں کھانا جلدی پکتا ہے۔ جس میں چاہت, خلوص, محبت محنت, احتیاط ,لگاؤ , صبر اور یقین جیسے اجزاء کی کمی ہوتی ہے۔ اور پھر وہی پریکٹیکل لوگ اسی پریکٹیکل اور جلدی کے عمل کو پسند کرتے ہیں۔ آج کل کے پریکٹیکل لوگ تمام سہولتیں ہونے کے باوجود ہر وقت بے سکون اور زندگی میں مشین کی طرح آگے بڑھنے کی لگن میں اکثر دوسروں کو روندتے ہوئے کامیابی کی طرف گامزن ہیں۔

پھر یہ پریکٹیکل لوگ انسانوں میں بھی محبت ,خلوص ڈھونڈنے انکی محبت کو سمجھنے, ان انسانوں کی سادگی کو سمجھنے کی بجائے ان میں پریکٹیکل چیزوں کے رنگ بھرنے کے شوق میں دوسرے انسانوں کو کمتر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ۔اور پھر یہ سب پریکٹیکل لوگ ایک دوسرے کو مزید پریکٹیکل بناتے رہتے ہیں۔ اور خلوص, محبت, لگاؤ , صبر, یقین, احتیاط, چاہت سے دور ہو کر پھر یہ سب لوگ ایک پریکٹیکل مگر نا خوش زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔

جبکہ کمہار کے مٹی کے برتن ہمیشہ ان  اجزاء سے بھرپور ہوتے ہیں جن سے ایک مکمل محبت کا رشتہ بن سکتا ہے ۔مگر وہ لائف سٹائل کا حصہ نہ سمجھتے ہوئے انسان نے وہ سب اجزاء زندگی سے باہر کر دیے ہیں۔اور اب کمہار کو بھی زندگی سے باہر کر کے مٹی کو بھی مشین سے جدید من پسند شکل دے دی جاتی ہے۔

پریکٹیکل لوگ پریشر کُکر کی مانند ہر وقت جلدی میں نظر آتے ہیں۔ نفرتوں کے بازار کو گرم کرتے نظر آتے ہیں ۔ ایسی نفرتیں کہ جس میں بیٹا جائیداد کے لالچ میں ماں باپ کو یا تو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔ یا پھر کسی فلاحی ادارے میں بھیج کر اپنی زندگی کو سکون سے گزارنے کی تیاری کرتا ہے۔ کوئی بیوی بچوں کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے اور کوئی بیوی بچوں سمیت خود کشی کرتا ہے۔ کوئی بہن بھائیوں کو مارتا ہے۔ تو کوئی  چوری شراب نشہ کی لت میں پڑ کر  اپنی زندگی تباہ کرتا نظر آتا ہے۔ بے حِسی اور پریکٹیکیلٹی یہاں پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ پریکٹیکل زندگی کی دوڑ میں آگے جانے کی خواہش اور ہوس میں دوسروں کو روندتے آگے بڑھنا ایک اور ہی فیشن ہے۔ اس دوڑ میں آگے بڑھتا انسان انسانیت کو بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے ۔پریکٹیکل یا پریشر کُکر کی مانند جلد باز ہوتے ہوتےیہ پریشر کُکر نما انسان درحقیقت انسانیت کے درجہ سے گر رہے ہیں ۔ اور انسانیت کے اجزاء سے خالی ہو گئے  ہیں۔ اور چلتے پھرتے محبت اور احساس سے خالی مردہ جسم بن کر رہ گئے ہیں۔ جس کو نہ تو دوسرے کے احساسات کی قدر ہے نہ دوسروں کی رائے کی۔نہ ایسے انسان اکثر کسی کی عزت کرتے ہیں اور نہ ہی کسی سے ہمدردی رکھتے ہیں۔کسی کی بات سننا اس کو اہمیت دینا ان کے لیے نا ممکن ہے۔اور اکثر خود کو مکالمے میں ناکام ہوتا دیکھ کر بدتہذیبی پر اتر آتے ہیں۔
کیا ضروری ہے کہ مٹی سے بنے انسان کو مٹی نہ سمجھتے ہوئے اس میں زمانے کے پریکٹیکل رنگ اور پریکٹیکل اجزاء شامل کر کے محبت اور خلوص کےاجزاء کو نکال کر ایک مشین بنا دیا جائے اور پھر اس مشین کو اپنی زندگی کا   سٹائل سمجھ کر ایک پریکٹیکل زندگی گزاری جائے۔ جس میں انسانیت کے اجزاء کچھ بھی نہ ہوں۔ انسان, انسانیت سے قائم ہے اور انسانیت انسان سے قائم ہے۔پریکٹیکل ہو کر انسانیت کو دفن کرنا صرف معاشرہ کے  لیےتباہی ہے۔ اور معاشرے  کی تباہی ہمارے وجود کی تباہی ہے۔ ۔مٹی سے بنے انسان مٹی میں ہی جاتے ہیں۔ پھر مٹی پہ رہتے ہوئے, مٹی ہونے کو ذہن میں رکھ کر انسانوں سے انسانیت کا رویہ رکھنا ہی ہماری فلاح ہے۔خاک کا وجود لے کر ,خاک ہونے والے یہ انسان درحقیقت خاک ہونا بھول بیٹھے ہیں۔اور اب صرف دوسروں کو دنیا میں خاک بنانے کی جدوجہد میں نظر آتے ہیں۔لہذا جب انکوذرا سی شکست ہوتی نظر آتی ہے تو پریشر کُکر کی سیٹی کی طرح بجتے نظر آتے ہیں اور یہ اشارہ دیتے ہیں کہ ہم جلد باز, بے صبرے اور جاہل ہیں۔

دوسروں کو زِیر کرتے یہ لوگ درحقیقت اس بات سے ناواقف ہیں کہ وہ خود بہت پہلے زِیر ہو کر خاک ہو چکے ہیں بس اس بات سے وہ لاعلم ہیں۔اسلیے وہ جتنا بھی سیٹی کی طرح بجنا چاہیں بج سکتے ہیں۔ آخر کار چند لمحے بعد ان کی سیٹی بند ہو ہی جائے گی۔اور بے شک قدرت بخوبی ایسے لوگوں کی سیٹی بند کرنے پر قادر ہے۔

میں صرف اور صرف مَٹی ہوں

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے مٹی ہی رہنے دیا جائے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پریشر کُکر نُما انسان۔۔۔رمشا تبسّم

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم
    اسلام علیکم!
    رمشا جی! تحریر آپ کی عمیق سوچ کی عکاسی ہے ۔۔۔۔اتنی خوبصورتی سےآپ نےانسا نی طرز عمل کو پریشر ککر سے تشبیہ دی ہے قابل تعریف ہے ۔۔۔
    واقعی چاہت ، محبت ،خلوص ،لگاؤ ،یقین اب مفقود ہو چکی ہے ۔۔۔ہر شخص آگے بڑھنے کی دوڑمیں دوسرے کو قدموں تلے روندنا فرض سمجھتا ہے,۔ اور گلٹی بھی فیل نہیں کرتا۔۔۔ گویا دل کی جگہ پتھر رکھاہو – قدرت کے نظام کو بھول کر خود کو امر سمجھتاہے۔۔۔۔ یہ بھول بیٹھا ہے۔۔۔ کہ مٹی وجود کا انجام مٹی میں ہی ملنا ہے۔۔۔ سوائے ایک ذات کے کائنات کی ہر چیز کا مقدر فنا ہے ۔۔۔۔
    وجود خاکی ہے خاک ہی میں ملنا ہے
    بقا نہیں کسی کو ، ہرایک کوفنا ہے
    اللہ رب العزت ! ہم سب کو ہدایت عطا کرے آمین
    رمشا جی !اللہ تعالی آپ پرسدااپنی رحمتیں نچھاور کرتا رہے آمین

Leave a Reply