شاکر شجاع آبادی کی شاعری میں جہاں پیار و محبت کا رنگ نظر آتا ہے وہی مزاحمتی اور ملامتی انداز بھی جھلکتا ہے. آج میری نظر سے ان کے دو قطعات گزرے ہیں، انہوں نے قلزم کو کوزے میں بند کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان کے حالات کی عکاسی کی ہے بلکہ قوم کو جگانے کی بھی کوشش کی ہے. سرائیکی زبان میں فی زمانہ مزاحمتی و ملامتی شاعری یقیناً دیگر شعراء بھی کررہے ہوں گے تاہم میری نظر سے ان کا کلام نہیں گزرا.شاکر شجاع آبادی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ خواجہ غلام فرید رح کے بعد ان کے کلام کو سرائیکی وسیب میں جتنی پذیرائی حاصل ہوئی ہے اتنی کسی اور سرائیکی شاعر کو حاصل نہیں ہوئی. انہیں سرائیکی زبان کا شیکسپیئر بھی کہا جاتا ہے . ان کی شاعری دل کے تار ہلا دینے والی اور سوئے ہوئے لوگوں کو جھنجھوڑ دینے والی ہے. ان کی مجازی شاعری میں بھی سرائیکی وسیب کی غربت، افلاس، ظلم و جبر کی سیاہ رات، ناانصافی اور معاشی ناانصافیوں کے نوحوں کی جھلک نظر آتی ہے اور غور و فکر کے نئے دریچے وا کرتی ہے. وہ اپنے اشعار میں دوٹوک الفاظ میں ملک و قوم اور خاص طور پر سرائیکی وسیب کی محرومیوں کا ذکر کرتے ہیں. غربت، افلاس اور معاشی ناہمواریوں کو کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں.
فکر دا سجھ ابھردا ہئے سوچیندیاں شام تھی ویندی
خیالیں وچ سکون اجکل گولیندیاں شام تھی ویندی
انھاں دے بال ساری رات روندین، بُھک توں سُمدے نئی
جنھاں دی کہیں دے بالاں کوں کھڈیندیاں شام تھی ویندی
غریباں دی دعا یارب خبر نہیں کن کریندا ہیں
سدا ہنجوؤاں دی تسبیح کُوں پھریندیاں شام تھی ویندی
کڈھیں تاں دُکھ وی ٹل ویسن کڈھیں تاں سکھ دے ساہ ولسن
پُلا خالی خیالاں دے پکیندیاں شام تھی ویندی
میڈا رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کردے
جو روٹی رات دی پوری کریندیاں شام تھی ویندی
میں شاکر بُھک دا ماریا ہاں مگر حاتم تُوں گھٹ کائینی
قلم خیرات میڈی ہے چلیندیاں شام تھی ویندی
جبکہ جہاں ایک طرف وہ ملک کی صورتحال کا رونا روتے ہیں تو ساتھ ہی چولستان، روہی کے دکھ، ظلم و جبر اور ناانصافی کو بیان کرتے ہیں….
میکوں میڈا دکھ میکوں تیڈا دکھ میکوں ہر مظلوم انسان دا دکھ

جتھاں ظلم دی بھا پئی بلدی ہے میکوں روہی چولستان دا دکھ
جتھاں کوئی انصاف دا ناں کائی نائی میکوں پورے پاکستان دا
دکھ
جہڑے مر گئے ہن اوہ مر گئے ہن میکوں جیندے قبرستان دا دکھ
شاکر شجاع آبادی کی شاعری سچے جذبوں کی شاعری ہے اور دل سے نکلنے والی وہ سچی آواز ہے جو سرائیکی وسیب کے دلوں پر بار بار دستک دے کر انہیں بیدار کرنے کے لئے کوشاں ہے.
اتھاں کہیں کو ناز اداواں دا”
“اتھاں کہیں کو نا ز وفاواں دا”
“آسا پیلے پتر درختاں دے”
“ساہکوں راہند ے خو ف ہواواں دا”
“ساکوں بال کے شاکر ہتھ سیکیں”
اساں راہ دے ککھ تیڈے کم اسوں”
اور
” کمزوری اے شاکر بندیاں دی ”
انجے خون دا ناں بدنام اے.
اور
تو محنت کر محنت دا صلہ جانڑے خدا جانڑے
تو دیوا بال کے رکھ چھوڑ ہوا جانڑے خدا جانڑے
اس عظیم سرائیکی شاعر کی زندگی میں درویشی کا رنگ عیاں ہے. سادگی اور محبت و خلوص کا مرقع اس سرائیکی شاعر کی خدمات سرائیکی ادب میں ناقابل فراموش ہیں.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں