عرض یہ کرنا ہے کہ اگست 2018ء سے لے کر 11 جولائی 2019ء تک ٹرینوں کے 75 چھوٹے بڑے حادثات پیش آ چکے ہیں، جس میں درجنوں انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ محکمہ ریلوے پاکستان کو کروڑوں, اربوں روپے کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے- پاکستان کے قیام سے قبل 1861ء میں خطے میں سب سے پہلی ریلوے لائن کراچی اور کوٹڑی کے درمیان بچھائی گئی تھی جبکہ سب سے پہلا ریلوے حادثہ بھی اس ٹریک پر ہوا۔ سنہ 1953ء میں پیش آنے والے اس ریل حادثہ کے نتیجے میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ سنہ 1990ء میں سکھر سے 10 کلومیٹر دور سانگھی کے مقام پر 2 ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں اور نتیجے میں 350 سے زائد افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ یہ حادثہ پاکستان ریلوے کی تاریخ کا سب سے بڑا ٹرین حادثہ سمجھا جاتا ہے۔
امسال جون کا مہینہ پاکستان ریلوے کے ملازمین کو تاریخ میں سب سے زیادہ حادثات کی وجہ سے شاید کبھی بھی بھول نہیں سکے گا- یکم جون کو لاہور یارڈ میں ٹرین پٹڑی سے اتری، یکم جون کو ایسا ہی حادثہ ہوا جب عید ٹرین لالہ موسیٰ سٹیشن کے قریب ڈی ریل ہوئی- 5 جون کو ہی فیصل آباد میں شاہ حسین ٹرین کی کچھ بوگیاں پٹڑی سے اتریں۔ اسی طرح اگلے کچھ روز میں کراچی میں کینٹر ٹرین اور تھل ایکسپریس بھی حادثے کا شکار ہوئیں۔ قراقرم ایکسپریس کی بوگیاں پٹڑی سے اتریں، اسلام آباد ایکسپریس نے گجرات کے قریب ایک موٹر سائیکل کو ٹکر ماری، بولان ایکسپریس کو بھی حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح سندھ ایکسپریس، روہڑی سٹیشن کے قریب مال گاڑی، ہڑپہ سٹیشن کے قریب جناح ایکسپریس، کوئٹہ میں مال بردار حادثات کا شکار ہوئیں جن میں جانی نقصان نہیں ہوا لیکن 19 جون کراچی ڈویژن میں رحمان بابا ایکسپریس ایک گاڑی سے ٹکرائی جس میں انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ 20 جون کو جناح ایکسپریس ایک مال بردار گاڑی سے ٹکرائی جس سے ڈرائیور اور اسسٹنٹ ہلاک ہوئے۔ اگلے روز ہری پور کے قریب راولپنڈی ایکسپریس کار سے جا ٹکرائی۔ ان کے علاوہ بھی مختلف حادثات میں قیمتی جانوں کے ساتھ مالی نقصانات بھی ریلوے کو برداشت کرنا پڑے-
ریلوے حادثات کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو گزشتہ سال دسمبر سے رواں سال جولائی تک ٹرین ڈی ریلمنٹ (پٹڑی سے اترنے) کے 51 بڑے واقعات ہوئے۔ دسمبر 2018ء میں 4 حادثات جبکہ جنوری 2019ء کے مہینے میں 5 واقعات ہوئے- اسی طرح ماہ فروری میں 6 حادثات، مارچ میں 10 ٹرینیں ڈی ریل ہوئیں۔ اپریل میں 6، مئی میں 5 اور جون میں 8 ریل گاڑیاں پٹری سے اتر گئیں۔ جبکہ رواں ماہ جولائی کے صرف 11 دنوں میں 7 حادثات پیش آ چکے ہیں۔ ٹرین کے حادثات پر نظر دوڑائی جائے تو 21 مسافر ٹرینیں اور 30 مال گاڑیاں حادثے کا شکار ہوئیں۔ انجن فیل ہونے، سیلون، پاور وینز اور بوگیوں میں آگ لگنے کے واقعات اعداد و شمار میں شامل نہیں کیے گئے۔
واضح رہے کہ2017ء – 2018ء کے مقابلہ میں 2019ء میں ریلوے حادثات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ان میں 8 واقعات تو آگ لگنے کے ہی ہیں جن میں سے 4 ڈائننگ کار کے ہیں۔ اس وقت 136 ٹرینیں چل رہی ہیں۔ ریلوے حکام کے مطابق ان حادثات کی وجوہات کا تعین کرنے اور مستقبل میں حادثات سے بچاؤ کے لیے اس وقت 75 انکوائریاں چل رہی ہیں جن میں سے 54 مکمل ہوئیں جبکہ 21 جاری ہیں۔ ان انکوائریوں کے نتیجہ میں 13 لوگوں کو سزائیں دی گئیں جبکہ 34 ایف آئی آر بھی درج کروائی گئی ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ 1862ء میں آپریشنل ہونے والا محکمہ پاکستان ریلوے اب اپنی عمر پوری کر چکا ہے, جبکہ اسے اس حال تک پہنچانے میں ہمارے حکام کی کوتاہیاں بھی شامل ہیں کیونکہ کبھی اسے اپ ڈیٹ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ انگریز سرکار سے آزادی کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ اس میں بہتری لائی جاتی مگر افسوس اس کی طرف خاطر خواہ توجہ بھی نہ دی گئی اور نہ ہی جدید تقاضوں کو پیشِ نظر رکھا گیا جن کی وجہ سے ہماری ریلوے بہت سے حادثات سے دو چار ہوئی جو سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں افراد کی ہلاکت کا باعث بنی۔ اگر ان حاداث کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ زیادہ تر حادثات ریلوے کے ناقص نظام اور ملازمین کی غفلت کا نتیجہ تھے- اب تو فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر آف ریلوے نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان میں ٹرین حادثات میں ہوتے اس خوفناک بڑھاوے کی بڑی وجہ کمزور اعصاب کے مالک ٹرین ڈرائیور ہیں۔ انسپکٹر صاحب نے اس رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ ریلوے ڈرائیورز کی بھرتی معیار کے مطابق نہیں ہوتی، نفسیاتی اور جسمانی معیار کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا، عملے کی کمی کے باعث ناتجربہ کار ڈرائیورز بھی ٹرینیں چلاتے ہیں- رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ریلوے حکام انکوائریز رپورٹ پرعمل درآمد نہیں کرتے، پرانے پھاٹک کاغذوں میں بند مگر حقیقت میں زیر استعمال ہیں، کئی پھاٹک ختم ہونے کے باوجود استعمال ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ڈرائیورز اور ٹیکنیکل اسٹاف کی تعیناتی کے دوران جسمانی اور نفسیاتی معائنے کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس کے علاوہ عملے کی کمی کے باعث سینکڑوں لوگوں کی جانوں سمیت ٹرینیں ناتجربہ کار ڈرائیورز اور اسٹیشنز کو اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹرز کے حوالے کر دی جاتی ہیں ۔
انفراسٹرکچر کے حوالہ سے بات کی جائے تو قیام پاکستان کے وقت براعظم ایشیاء کے بہترین ریلوے نظاموں میں شمار ہونے والا ہمارا ریلوے نظام اب بدترین ہو چکا ہے۔ دنیا کے قدیم ریلویز میں شمار ہو نے والا انڈین ریلوے نظام میں تقسیم ہند کے وقت 55 ہزار کلو میٹر کی پٹڑی انڈیا کے پاس تھی اور 8 ہزار کلو میٹرکی پٹڑ ی ہمارے حصے میں آئی- انڈیا نے اسے ایک لاکھ 20 ہزار کلو میٹر تک طویل کر لیا ہے جبکہ ہم اسے بمشکل 11 ہزار کلو میٹر تک پہنچا سکے ہیں- انڈیا میں رو زانہ 15 ہزار ٹرینیں چلتی ہیں جبکہ ہماری ٹرینیں کم و بیش 136 تک ہی ہو سکی ہیں۔ انڈیا میں روزانہ ساڑھے 3 کروڑ لو گ ٹرینوں پر سفر کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں ان کی تعداد صرف 70 ہزار ہے۔ انڈیا میں روزانہ ساڑھے تین ملین ٹن سامان مال گاڑیوں کے ذریعہ ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچایا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں کچھ سال پہلے یہ وزن صفر ہو چکا ہے ۔ پاکستان کا ریلوے نظا م روزانہ خسارے میں جاتا ہے جبکہ انڈیا کا ریلوے نظام روزانہ 90 کرو ڑ روپے منافع کماتا ہے۔ اگر اس کا سالانہ حساب لگایا جائے تو یہ ہزارہا کروڑ بنتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہم اگر اپنے ریلوے نظام کا حساب لگائیں تو پتا چلتا ہے کہ کچھ بھی نہیں کمایا بلکہ ہزاروں مسافروں کی جانیں اس بدانتظامی کی نذر ہو چکی ہیں اور اکثر خبر یہ آتی ہے کہ حادثہ کی وجہ یہ تھی کہ ٹرین کے ڈرائیور کو اونگھ آ گئی تھی یا پھر سبز بتی روشن کرنے والا ریلوے ملازم اپنے کوارٹر میں آرام کر رہا تھا اور دو ٹرینیں آپس میں ٹکرا کر پٹڑی سے اتر گئی ہیں۔ دیگر ممالک نے اپنے ریلوے نظام کو ترقی دی ہے جبکہ ہم نے اس نظام کو اپ گریڈ کرنے کی بجائے اسے کباڑ خانے میں تبدیل کرنے کی مسلسل کو شش کی ہے-
موجودہ دور حکومت میں بھی ریلوے کی بحالی کے حوالے سے جتنے بھی دعوے کیے جا رہے ہیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ یہ ریلوے سے زیادہ وطن عزیز کی بدقسمتی ہے کہ اس کے وزیر شیخ رشید خود ریلوے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے بلکہ کلیدی پوسٹیں بھی ایسے لوگوں کے حوالے کر رکھی ہیں کہ جو نااہل ہیں اور ان کی جواب طلبی کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ مثال کے طور پر شیخ رشید نے ناتجربہ کار اور نااہل افسر آفتاب اکبر کی اہم ترین پوسٹ جنرل مینیجر ریلوے آپریشن پر تعیناتی کی ہوئی ہے۔ اس 22 جون کو لاہور ریلوے اسٹیشن سے صرف 4 کلومیٹر دور ریل کی 4 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں چونکہ ابھی ریل کی رفتار تیز نہیں ہوئی تھی اس لیے جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس حادثہ کے بارے میں ریلوے ملازمین نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جی ایم ریلوے آفتاب اکبر کو بخوبی علم تھا کہ یہ ٹریک نرم ہوچکا ہے اس لیے اس کی فوری بہتری کی ضرورت ہے لیکن موصوف نے اسے یکسر نظر انداز کر دیا- یہ تو خوش قسمتی تھی کہ ٹرین کی سپیڈ کم تھی اس لیے ٹرین بڑے حادثے سے بال بال بچ گئی۔
مزید برآں 20 جون کو حیدر آباد اسٹیشن پر جناح ایکسپریس ٹرین اور ساہیوال کول سپیشل ٹرین کے درمیان ہونے والے حادثے میں ڈرائیور اور 2 اسسٹنٹ ڈرائیورز کی قیمتی جانیں ضائع ہونے والے حادثے کا اصل ذمہ دار بھی جی ایم آفتاب اکبر کو بتایا گیا ہے- تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریلوے ٹریک کے سگنل مؤثر اور بروقت رکھنا اور ان کی نگرانی رکھنا جی ایم آفتاب اکبر کی ذمہ داری ہے لیکن اس حادثے میں بھی موصوف لاعلم نظر آئے جو کہ ان کی مجرمانہ غفلت شمار کی گئی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ جی ایم آفتاب اکبر اپنے پیشہ وارانہ فرائض سرانجام دینے کی بجائے دیگر غیر اخلاقی مشاغل میں مصروف رہتے ہیں- شیخ رشید کی اس غلط حکمت عملی کی وجہ سے دیگر اہم پوسٹوں پر بھی جونیئر اور ناتجربہ کار افسروں کو لگایا گیا ہے جبکہ سینئر افسران کئی ماہ سے تقرری کے منتظر ہیں-
ماہرین کے مطابق آئے روز نئی ٹرینیں چلانے کے معاملہ میں بھی شدید ترین غلطی کی جا رہی ہے کیونکہ یہ دیکھا نہیں جا رہا کہ ریلوے کی استعداد کتنی ہے۔ اس سے قبل جس ہوم ورک کی ضرورت ہوتی ہے وہ نہیں کیا جاتا اور سیاسی نمبرز کے لیے ایسے نعرے لگائے جاتے ہیں۔
ٹرین کا ٹرین کے ساتھ ٹکرانا ایسا حادثہ ہے جو دس سال میں ایک دفعہ بھی ہو تو بہت الارمنگ ہوتا ہے جبکہ ڈیڑھ ماہ میں دوسری بار ایسا حادثہ ہونے کے باوجود بھی ہمارے ارباب اختیاران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی- پٹڑی سے اترنے، پھاٹک سے ٹکرانے، آگ لگنے سمیت دوسرے حادثات بھی بہت زیادہ ہو رہے ہیں- ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ریلوے کو فوری طور پر پروفیشنل ہاتھوں میں نہ دیا گیا تو حادثات میں مزید اضافہ ہونے کے شدید خطرات ہیں-
حادثات سے بچنے کے لیے پورے سسٹم کو اپ ڈیٹ کرنے ضرورت ہے- انفرسٹرکچر پرانا ہو چکا ہے یہ کام مرحلہ وار ہو سکتا ہے لیکن فوری طور کچھ اقدامات کر کے حادثات سے بچا جا سکتا ہے جن میں سب سے پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر ’رائٹ مین فار رائٹ پوسٹ‘ کا اصول اپنانا ہو گا۔ چیکنگ کا معیار بہتر بنانا ہو گا۔ خدانخواستہ کسی حادثے کی صورت میں صرف ڈرائیور یا کانٹا بدلنے والا ہی ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ جس کی ذمہ داری ہوتی ہے اس سے بازبرس ہونے تک کچھ بدلنا مشکل ہی ہو گا۔
ریلوے ڈرائیوروں کی تقرری کے لیے اعلیٰ معیار مقرر کیے جائیں اور ان کی تربیت کے لیے قومی سطح پر ادارہ قائم کیا جائے۔ ایک ہوائی جہاز میں زیادہ سے زیادہ 400 سے 500 تک مسافر سما سکتے ہیں لیکن اُس کے پائلٹ کے انتخاب اور تربیت کے لیے اعلیٰ معیار مقرر کیے گئے ہیں اور اُنہیں بھار ی مراعات اور تنخواہیں دی جاتی ہیں جبکہ ریلوے کے ڈرائیورز کو نہ تو اس قسم کی تربیت دی جاتی ہے اور نہ ہی اتنی مراعات حاصل ہیں- اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال 3 نومبر کو کراچی میں حادثہ اس لیے پیش آیا کہ ڈرائیور اور اسٹنٹ ڈرائیور انجن کے اندر اپنا سامان سمیٹنے میں مصروف تھے جس کی وجہ سے وہ سگنل نہ دیکھ پائے۔ کیا کبھی کسی پائلٹ کے متعلق بھی کبھی ایسا سنا گیا ہے؟-
ٹرین ہو یا جہاز, دونوں میں انسان ہی سفر کرتے ہیں- فرق صرف مسافروں کے طبقات میں ہے۔ ٹرینوں میں غریب اور متوسط درجہ کے لوگ جبکہ ہوائی جہازوں میں تاجر، صنعتکار، جاگیردار، امراءاور اشرفیہ سفر کرتے ہیں۔ دوسرا فرق ہوائی جہاز اور ٹرین کی قیمت کا ہو سکتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ انسانی جانوں کی بجائے طبقات اور قیمت کو معیار بنا کر ٹرینوں اور جہازوں کے کپتانوں کا تقرر کیا جاتا ہے۔ سگنل کا نظام پرانا ہو چکا ہے اب اسے تبدیل ہونا چاہیے ۔جدید دور میں جدید تقاضوں کے پیشِ نظر جدید ایجادات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ریلوے سٹیشنوں پر بڑی بڑی سکرینیں لگا کر ٹرینوں کی آمدورفت کو مانیٹر کیا جائے اور کسی بھی ممکنہ حادثے سے بچنے کے لیے ڈرائیور کو بر وقت ہدایات دی جاسکتی ہیں اسی قسم کا نظام ریلوے انجن اور گارڑ روم میں بھی موجود ہو تاکہ ڈرائیور کو اگلے سٹیشن پر کھڑی گاڑیوں کے متعلق معلوما ت ملتی رہیں۔
ایک اور گزارش یہ ہے کہ ریلوے ٹرینوں اور خصوصاً انجنوں کے معائنے کو معمول کی کاروائی سمجھنے کے بجائے اس کی طرف خصوصی توجہ دی جائے ۔ انجینئرز کا ایک بورڑ قائم کیا جائے جو تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد ریل گاڑیوں کا مکمل اور جامع معائنہ کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے جس کی سفارشات کی روشنی میں ریلوے انتظامیہ مناسب اقدامات اُٹھائے ۔ اس طرح ریلوے پُلوں اور پٹڑیوں کو سول انجینئرز کی سفارشات کی روشنی میں مضبوط اور محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ ریلوے کا ایک اور اہم مسئلہ مالی خسارہ ہے جس کی نبیادی وجہ کرپشن ہے اُس کا صرف اور صرف ایک حل یہ ہے کہ ایک بار جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریلوے کو بدعنوان ملازمین سے پاک کیا جائے۔ بدعنوانی افسروں تک محدود نہیں بلکہ یہ جراثیم نچلے طبقے میں بھی سرائت کر چکے ہیں ۔یہاں تک کہ ٹکٹ چیکر حضرات بلا ٹکٹ سفر کرنے والوں کو تحفظ دیتے نظر آتے ہیں۔ مالی خسارے کو پورا کرنے کے لئے ریلوے کی زمین کو ناجائز قابضین سے واگزار کروایا جائے-
ریلوے کی آمدن بڑھانے کے لیے سفرکو آرام دہ، پرسکون اور محفوظ بنایا جائے- ٹرینوں کی آمدورفت میں باقاعدگی اور اوقات کار کی پابندی کو یقینی بنایا جائے اور تاخیر کی صورت میں ذمہ داران سے باز پرس کی جائے۔ ریلوے کے اعلیٰ افسروں کو بھاری تنخواہیں اور مراعات دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بہتر یہ ہے کہ ان کی تنخواہوں اور مراعات کو ان کی کارکردگی سے منسوب کیا جائے۔ نجی ادارے کبھی خسارے میں نہیں جاتے۔ ایک ٹرانسپورٹر ایک بس کی کمائی سے اگلے سال ایک اور بس خرید لیتا ہے۔ صرف سرکاری ادارے ہی مردِ بیمار کی طرح کام کرتے ہیں۔ سابقہ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی ناکامی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سے پہلے کہ ریلوے پر مسافروں کا اعتماد اُٹھ جائے حکومت اور ریلوے حکام مل کر بر وقت مؤثر، ٹھوس اور جرأتمندانہ اقدامات اُٹھا کر ریلوے کے سفر کو آرام دہ، پرسکون، محفوظ اور مثالی بنا سکتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں