داستانِ زیست۔۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط23

چھٹی کا آخری دن چکوال میں بہت مصروف گزرا۔ ایک فوتیدگی ہوئی تھی فاتحہ خوانی کے لیے گئے۔ ایک کزن کی منگنی کی مٹھائی کھانے اس کے گھر مبارک باد دینے گئے۔ صادق کی فیملی ہماری رشتے کی نانی کے گھر بیٹھک میں کرایہ پہ  رہتی تھی ان کو ملنے گئے، نانی کو سلام کرنے گئے تو وہاں انکی بیٹی جسے ہم خالہ مخبر کہتے تھے کہ ان کے پاس برادری کے ہر گھر کی خفیہ خبریں اور انکی تفصیل ہر وقت اپ ڈیٹ ہوتی تھی، اس کو خبر کریدنے کا فن آتا تھا۔ باتوں میں اچانک پوچھ لیا کہ میری پنڈی والی ممانی اور اسکی بیٹی عطی سے کب ملاقات ہوئی، باتوں کی روا روی میں ہم نے انکی چکوال ہمارے ساتھ آنے کی فرمائش تک سب اُگل دیا۔ کمال کی زیرک خالہ نے فوری تنبیہ جاری کرتے کہا۔۔
ان سے بچ کے رہنا۔۔ وہ آج کل اس چکر میں ہے کہ تم جیسے لڑکے کو پھانس کے عطی کا رشتہ مانگے جانے کی بات اُڑائے تاکہ اس کی بہن یہ سن کے اپنے بیٹے کا رشتہ عطی سے پکا کرے، جسے وہ دو سال سے لٹکائے بیٹھی ہے۔
لیجیے خالہ نے ہمارے ممکنہ رومانس کا ہونے سے پہلے گلا دبا دیا۔
شام کو واپسی کا سوچا لیکن دل نہیں  مانا۔ رات وہیں رُک گئے، صبح سویرے اماں جی نے غسل خانے میں گرم پانی کی دو بالٹیاں رکھنے کے بعد جگایا۔ نہا کے تیار ہو گئے تو رسوئی میں دھواں کش انگھیٹی میں چولہے کے پاس پیڑھی پہ بیٹھ کے انڈے  پراٹھے ،مکھن شہد کے ساتھ چائے سے ناشتہ کیا۔ اتنی دیر بابا جی بھی رسوئی میں بیٹھے حقہ پیتے رہے۔
اماں جی نے شہد کی بوتل شاپر میں لپیٹ کر دی کہ یہ ناشتے میں کھایا کرو، تمہارا گلہ خراب رہتا ہے !
گھر کا بنا ہوا سوہن حلوہ اور گوگیاں بھی ساتھ کر دیں ، بچے بھی جاگ گئے سب کو مل کے ہم دعاؤں کی چھاؤں میں رخصت ہوئے، بابا جی نے چلتے وقت ہدایت کی، کار آہستہ چلایا کرو۔۔
اس روز ہم پورے دو گھنٹے میں اسلام آباد ایمبیسی پہنچے،گیٹ پر شیرین خان گارڈ اتنے تپاک سے ملا جیسے ہم زیارتوں سے واپس آئے ہوں ۔ یہ حقیقت تھی ، ماں باپ سے ملنا زیارت اور بہن بھائیوں، دوستوں سے ملاقات عبادت ہی تو ہے۔
شیرین نے کہا۔۔۔صاحب آپ کو  ملنے بہت لوگ آیا، یہ ایک صاحب کارڈ دے گیا ۔ سیکرٹری صاحبہ کا میاں بھی کل آیا تھا۔ یہ فون نمبر لکھ کے دے گیا، پریشان تھا صاحب اسے ابھی فون کرنا۔
ریسپشن والی بی بی نے کال رجسٹر سامنے رکھا دس بارہ فون نمبر لکھے تھے ۔
ہم سارے سٹاف اور ڈپلومیٹس سے ملے لیکن بہت فارمل رہتے۔ لیڈی سیکرٹری نے بس اتنا پوچھا چکوال خیریت سے گئے تھے۔ ہم نے مختصر جواب دیا۔ گھر جانے کو دل کیا ۔۔تو چلے گئے۔
دس بجے کی ٹی بریک میں چوہدری کے ساتھ چائے پی، اس نے خود سے بتایا کہ ڈاکٹر بھی چار دن سے لاہور میں ہے۔
سفیر صاحب گیارہ بجے تشریف لائے، اجازت لے کے انکے دفتر میں حاضری دی۔ بہت سنجیدہ تھے، راز داری سے یہ نیوز شیئر کی کہ ان کا ٹرانسفر ہو رہا ہے، ابھی یہاں کسی کو خبر نہیں ! حکم دیا کہ شام کو سات بجے ریزیڈنس پہ حاضر ہونا ہے، لیکن اکیلے ! اجازت لی تو پہلی بار اپنے دفتر میں مجھ سے ہاتھ ملایا  ۔
ہمیں محسوس ہوا کہ چکوال کی دعائیں ہواؤں کے دوش پہ  اسلام آباد پہنچ چکی ہیں۔
اسسٹنٹ کے ساتھ بیٹھ کے پینڈنگ بلز اور دیگر کام کلیر کیے۔ چیک بکس واپس لیں ، اسے فارغ کیا، کمرہ اندر سے بند کیا۔۔آپریٹر سے ایک فون لائن اپنی ایکسٹنشن پہ  ٹرانسفر کرائی  اور سیکرٹری بی بی کے میاں کے نمبر پر کال ملائی ۔
اس سے ملاقاتیں تھیں ،بے تکلفی بھی تھی۔۔ پوچھا کدھر ہو ؟ خیریت ہے؟ وہ بیچارہ تو روہانسا  ہو گیا۔ بولا ۔۔
چھ دن سے گیسٹ ہاؤس میں پڑا ہوں اور شکایتوں کے انبار لگا دیئے۔ میں نے مداخلت کی تو کہنے لگا ، تم نہیں  جانتے وہ تمہیں نوکری سے ہی نکلوانے کے چکر میں ہے اور تم اسکی طرفداری میں صفائی دے رہے ہو ۔
تم ابھی یہاں آ جاؤ۔۔ میں نے کہا تھوڑی دیر میں دوبارہ کال کرتا ہوں ۔۔۔
بنک کی بجائے سیدھا بریگیڈئیر صاحب کے آفس کال کر دی۔ وہاں حفیظ نے فون اٹھایا ۔ تعارف کرایا،
اس نے تو حیران کر دیا۔ کہنے لگا ،صاحب آج لاہور ہیں ۔ آپ کا تو یہاں انتظار ہے! صاحب کل واپس آئیں گے آپ بھی پانچ بجے آ جائیں، میں نوٹ کر لیتا ہوں، شکریہ کے ساتھ فون بند کیا۔۔
گیسٹ ہاؤس دوبارہ کال ملائی اور چھٹی کے بعد وہاں پہنچنے کا کہہ دیا،
کارڈ نکال کے دیکھا تو ، النور ٹریولنگ ایجنسی ، ہوٹل شالیمار پنڈی صدر  نمبر ملایا تو ہارلے سٹریٹ والے مہربان شبیر صاحب تھے۔ میں نے نام ہی بتایا کہ وہ چڑھ دوڑے، ڈاکٹر سے ملنے کیوں گئے، وہ فلاں ہے اور کیا کچھ ۔۔
انہوں نے سانس لینے کا وقفہ کیا تو عرض کی ، جناب۔۔ حضور مجھے اندازہ ہو گیا تھا۔ پھر ہوٹل وزٹ ڈرامہ کا احوال بیان کیا۔ کچھ سکون میں ہو گئے، میں نے دفتر آنے کی زحمت اور محبت کا شکریہ ادا کیا، تو کہنےلگے،ل۔۔
دو تین دن میں اسلام آباد چکر لگے گا۔ فون کر کے ملنے آؤں گا۔ میں نے فون پر سیلوٹ مارا ، انہوں نے خُداحافِظ کیا!

julia rana solicitors london

چھٹی کر کے چانسری سے نکلتے سیکرٹری صاحبہ نے سرگوشی کی کہ کورڈ مارکیٹ پارکنگ میں رُکنا !
وہ بھی اپنی کار وہیں لے آئی، تھوڑی سائیڈ پہ  کھڑے ہو گئے۔ اس نے میاں سے لڑائی  کی رام کہانی جلدی جلدی بیان کر دی۔ میں نے اس پر بغیر تبصرہ کیے  پوچھا کیا وہ چاہتی ہے کہ میاں واپس گھر آ جائے؟
وہ غصے میں بولی کہ اور تمہیں کس لیے گھر بُلایا تھا اور اب کیوں روکا ہے ! میں نے جواب دیا۔ آرام سے گھر جاؤ میں کوشش کرتا ہوں ۔ وہ ہے کہاں؟ اس نے گیسٹ ہاؤس کا بتایا ! میں نے کہا۔ ابھی جاتا ہوں، کوشش کر کے اسے لے آؤں گا لیکن پھر میرے سامنے کوئی بحث نہیں  ہوگی، اس نے ،ٹھیک ہے ، کہا ۔ ہم دونوں روانہ ہو گئے۔۔
گیسٹ ہاؤس میں میاں جی کے ساتھ کھانا تو کم ہی کھایا لیکن اس کے مصائب زیادہ سُنے۔ سسرال کے ساتھ جوائنٹ فیملی میں رہنے والے داماد والی داستان تھی۔ اسے مشورہ دیا کہ فی الحال گھر چلو۔ نوکری ڈھونڈو اور رہائش علیحدہ کر لینا۔
اس نے کہا کہ گھر تو سسرال کے ہیں سب نے مل کے بنائے ایک حصہ قرض اتارنے کے لیے کرایہ پر ہے ۔ نوکری اسے کراچی مل سکتی ہے جہاں شادی سے پہلے وہ ملازم تھا لیکن بیگم دوبارہ کراچی نہیں جائے گی۔
فون پر میرے بارے جو اس نے بات کی تھی نہ اس نے دہرائی  نہ میں نے پوچھی کہ مجھے ویسے ہی اندازہ تھا۔
اس نے بیک سمیٹا، گیسٹ ہاؤس سے نکلے ،راستے میں اپنے گھر رُکے، حلوہ گوگیاں شہد بشیر کے حوالے کیا، اسے دھوبی سے لانڈری لانے کو کہا۔ موچی بابا کو سلام کیا، میاں جی کے لیے دعا کو کہا۔ بابا نے حسب معمول رمز میں بات کی، اس کا تھان ٹھیک نہیں  بدلے گا۔ چھوڑ جائے گا ۔۔
ہم بی بی کے گھر پہنچے ، بیٹی باپ سے لپٹ کے رونے لگی، میاں نے بیٹے کو بھی گودی لیا۔ ہم نے چائے کی فرمائش کی۔ لاؤنج میں بیٹھے دیگر اہل خانہ سے سلام دعا ہوئی ، انکے تاثرات زیادہ خوشگوار نہیں تھے۔ دو تین بار لڑائی کی وجہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہم نے راجپوت سٹائل میں اسے روک دیا، دو تین لطیفے سنائے، چائے پی ۔ فرض ادا کی نوید دیتے بزرگ بن کے کہا۔ جب سب پرسکون ہو جاؤ تو دعوت کرنا۔ مدھو بالا کی فلم وی سی آر پہ  دیکھیں گے ۔
اور وہاں سے کھسک آئے، گھر پہنچے چار بج چکے تھے، بشیر سے چھ بجے اٹھانے کا کہہ کے سو گئے ۔۔۔
بدن کی تھکن اور ذہنی سکون۔ ۔ بہت گہری نیند سوئے۔
بشیر نے چھ بجے کندھا  ہِلا کے جگایا۔ اسے آدھا سوہن حلوہ اور آدھی گوگیاں ڈونگے میں اور باقی آدھی ڈبے میں گفٹ پیک کر کے ۔ ربن باندھ کے رکھنے کا کہہ کے ہم واش روم گھس گئے، آدھا گھنٹہ شاور لیا۔ جب میل اور تھکن اتر گئی تو چنٹوں والا قمیض شلوار سوٹ پہنا۔ گانٹھ والی تلے دار چپل پاؤں میں لی۔ پرفیوم سپرے کیا، بشیر نے زبردست پیکنگ کر کے حلوہ اور گوگیاں تھما دیں۔ ٹھیک سات بجے ہم سفیر صاحب کے گھر میں تھے۔ گیٹ سے داخل ہوئے تو وہ مارگلہ روڈ کی طرف وسیع لان میں فیملی کے ساتھ بیٹھے تھے، ہم نے کار بیک یارڈ کی طرف پارک کی، لان کی طرف آئے ۔ سب کو سلام کیا اور میڈم کو گفٹ پیش کرتے بتایا کہ سپیشل اسکے لیے ہمارے گاؤں سے اماں جی نے بھیجا ہے، وہ سب اندر چلے گئے تو سفیر صاحب اور میں لان میں ہی بیٹھ گئے۔ انہوں نے ہنس کے کہا تم ابھی کچھ نہیں پیو گے۔ چائے نہ کافی اور نہ کولڈ ڈرنک !
ہم نے مسکرا کے کہا ، Excellency it is bit too early to drink
سفیر صاحب نے سنجیدہ سوال پوچھا۔۔خان آپ ایک اچھے اور مددگار  انسان ہو لیکن تمہارے سارے کولیگ مخالف کیوں ہیں ؟
پل بھر سوچ کے عرض کیا کہ سر میں بہت خوش قسمت ہوں سب حسد کرتے ہیں !
انہوں نے اگلا سوال کیا یہ کسی ڈاکٹر کے پاس ہمارے ویزوں کا کیا چکر ہے ؟
ہم نے الف سے یے تک بلا کم و کاست ڈاکٹر سے ملاقات کا احوال سنا دیا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ کیس ایف آئی  اے کے پاس جائے گا۔ یہ تسلی بھی دے دی کہ ہمارے سفارت خانے یا کسی ملازم کا نام بھی نہیں  آئے گا۔
استفہامیہ انداز میں انہوں نے کہا۔۔ چوہدری بھی ؟ اور تمہیں  یہ کیسے معلوم ہے ؟
ہم سمجھ گئے کہ یہ انٹرویو کسی خاص مقصد سے ہے،جواب دیا ۔ ۔جناب عالی میں نے یونیورسیٹی تک یہاں ہی پڑھا ہے۔اور فوجی خاندان سے ہوں۔ فوجی ادارے میں آٹھ سال سروس کی ہے ہر محکمے اور ایجنسی میں دوست ،رشتہ دار ہیں۔۔فرمایا ، تمہاری پرسنل فائل میں کچھ آبزرویشن ہیں۔ گرل فرینڈز اور گورنمنٹ آفیشل سے تعلقات بارے !
عرض کی ۔۔ میری کوئی  خفیہ سہیلی نہ تھی، نہ ہے نہ ہو گی۔ اسلام آباد ایڈمنسٹریشن میں آدھا درجن سینئر حکام میرے علاقے کے ہیں ۔ کچھ کزن ہیں باقی سے خاندانی مراسم ہیں ۔
سفیر صاحب نے بات کاٹ دی اور میری آنکھوں میں دیکھتے کہا۔ ،ایمبیسی میں جو خواتین ہیں ان سے ۔۔
اب میں نے فقرہ اُچک لیا۔ سر جہاں رہنا ہے وہاں افیئر نہیں چلاتے۔ ویسے ایک بی بی کے روٹھے خاوند کو واپس گھر پہنچایا ہے ۔
وہ قہقہہ مار کے ہنسے۔ کہا آئی نو ، آئی نو دیٹ ۔۔
میں نے بات چلائی،سر آپ نے فرمایا کہ آپ کی یہاں سے ٹُرانسفر ہو رہی ہے !
کہنے لگے فارن آفس میں بات چل رہی ہے، میں اپنے شہر میں اپنا ولا بنانا چاہتا ہوں ۔
اب میری باری تھی سرپرائز دینے کی میں نے کہا، سر جی آپ ابھی چھ ماہ تک تو نہیں  جا رہے ۔۔
چونک گئے ۔ کہا How do you say that with certainty
اب میں ہنس پڑا۔۔ عرض کی، حضور کچھ قیافہ ہے کچھ تجربہ ۔ آپکی جگہ موجودہ یہاں کے حالات میں نئے سفیر کو آنےاور سمجھنے میں وقت لگے گا۔ سب کچھ فائل میں لکھا نہیں ہوتا۔ آپ کی یہاں لائن بہت کلیر ہے۔
بولے ، تم واقعی خطرناک آدمی ہو ۔ اچھا سنا ہے کہیں اور جاب کی تمہاری بات چل رہی ہے ۔
میں نے سنبھل کے جواب دیا۔ سر میرا پروفیشن فنانشل مینجمنٹ ہے، یہاں ایسا کوئی  کام نہیں۔۔ جاب نہیں کرنی،
مشاورت شروع کرنی ہے ۔ آپ کی اجازت سے وہ بھی شام کے اوقات میں،اب بات ہو رہی ہے تو آپ مجھے ٹیکس ایڈوائزر کا یہاں کے بورڈ آف ریوینیوسے لائسنس لینے کی اجازت دیں گے۔
فرمانے لگے۔ ڈن۔ ۔ اور کوئی  سہولت چاہیے وہ بھی مل جائے گی،
اندھیرا ہونے لگا۔ اٹھ کے اندر آئے تو بار میں بیٹھ گئے ۔ ملازم نے ڈرنک ٹرالی سامنے رکھی، میں نے کہا باقی کام میں کر لوں گا۔ اس نے صاحب کی طرف دیکھا، انہوں نے اسے بھیج دیا۔
ادھر اُدھر کی گپ ہوتی رہی پھر وہ مطلب کی بات پہ  آئے۔۔۔۔جب دو ڈرنکس کے بعد یہ ارشاد فرمایا ۔۔
خان ! یہ حکم نہیں  میری خواہش ہے کہ تم میرے ساتھ میرے ملک چلو، میرے کاروبار سنبھالو، فیملی رہائش اور تمام سہولتیں ہیں۔ ۔
مجھے تو چُپ لگ گئی۔ آدھا گلاس ڈرنک حلق میں انڈیل لی ۔ وہ دیکھتے رہے۔۔
فرمانے لگے، تم سوچ لو۔ یہ بڑے بھائی کی آفر ہے، آج کی میٹنگ ہم دونوں میں رہے گی۔
اتنی دیر میں بیگم صاحبہ نے اپنے ملک کی سوغات ، کھجور کے حلوے کے ڈبے گفٹ پیک میں بھجوا دیئے۔
ساتھ ہی کھانے کی ٹرالی بھی آ گئی۔ شکر ہے کُک پاکستانی تھا، عربی ڈِش دو تھیں، میں نے پلاؤ اور روسٹ مٹن لیا۔
سفیر صاحب نے سلاد اور عربی ڈِش سے پلیٹ بھر لی۔ عربی قہوہ پہ ڈنر تمام ہوا۔
ہم نے سراپا تشکر بنے ہوئے  اجازت لی، سفیر صاحب نے عربی تکلف سے وداع کیا ۔ ہم واقعی انکے خلوص اور پیار کے نشے میں جھومتے ۔ مارگلہ روڈ پہ  ڈرائیو کا مزہ لیتے گھر واپس پہنچ گئے،
چکوال کی دعائیں ضرور اثر رکھتی ہیں ۔
جاری ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply