رات ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا،میں اپنے گھر میں بیٹھا لکھ رہا تھاکہ بیرونی دروازے کی گھنٹی بجی،میں نے گھر کے کپڑے پہنے ہوئے تھے،میرے گھر میں کوئی چوکیدار یا گارڈ نہیں ہے،گھنٹی کی آواز سن کر میں باہر نکلا،میرے ہاتھ میں قلم تھا،باہر آکر دروازہ کھولنے پر میں نے دیکھا کہ پولیس کی گاڑیوں نے پوری گلی کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے،میرے استفسار پر پولیس افسر نے کہا کہ آپ کو لینے آئے ہیں،میں نے ان سے اس حوالے سے قانونی دستاویز ات کا پوچھا،میری بیٹی کو دھکا دے کر مجھے ہانکتے ہوئے انہوں نے مجھے پولیس وین میں ڈالا،اور ہتھکڑی لگا کر تھانے لے آئے،جس جرم میں مجھے گرفتار کیا گیا،اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ مکان میری ملکیت ہے ہی نہیں،بلکہ میرے بیٹے کے نام ہے اور کرایہ دار کو منتقل ہوئے تین دن ہوئے تھے،اگر کرایہ دار کے متعلق معلومات درکار تھیں تو نوٹس دے کر پوچھا جاسکتا تھا،یا تھانے میں میرے بیٹے کو بلا کرکوائف جمع کروانے کی ہدایت کی جاسکتی تھیں،جہاں تک میری گرفتاری کی مجھے سمجھ آتی ہے،وہ نواز شریف سے تعلق ہو سکتا ہے،جس خاتون مجسٹریٹ کے سامنے مجھے پیش کیا گیامیں نے ان سے اپنا جرم پوچھا تو وہ خاموش رہیں،مجھے تھانے سے اڈیالہ جیل 30قیدیوں کی ایک بس میں لے جایا گیا۔۔۔
یہ الفاظ ہیں عمر رسیدہ78سالہ عرفان الحق صدیقی کے،جن کی ساری عمرکا غذ و قلم کے ساتھ عبارت ہے،جن کے بلا شبہ سینکڑو ں شاگرد اس وقت دنیا رنگ وبو میں مختلف شعبوں میں اپنے عظیم استادکا نام روشن کررہے ہیں،جن میں سرفہرست اس وقت موجودہ سپہ سالارافواج پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت جنرل زبیر حیات،اعجاز الحق،سابق وزیر اعلی سرحد مہتاب عباسی شامل ہیں،عرفان صدیقی صاحب کی عظمت اور غیر جانبداری کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب سابق دور حکومت میں انھیں قومی تاریخ اور ادبی ورثہ کا مشیر لگایا گیا تو اخبار میں کالم لکھنا ترک کردیا،بطور مشیر ادب کیلئے گراں قدرخدمات سرا نجام دیں،جب ضمانت پر رہائی کے بعد عرفان صدیقی میڈیا سے گفتگو کررہے تھے تومجھ سمیت ہر وہ شخص جو ان کا شاگرد رہا ہویا جو علم وادب سے لگاؤ رکھتا ہو،یقیناً ایک ماہر تعلیم،ایک استاد،ایک مصنف،ایک شاعر اور ایک صاحب طرز کالم نگار کے دکھ پر افسردہ ضرور ہو ا ہوگا،موجودہ حکومت اپنے کارناموں کی وجہ سے پہلے ہی کون سی بہت نیک نام تھی جو ایک 78سالہ بے ضرر علم دوست شخصیت کو دہشت گردوں کی طرح ناکردہ گناہ کی سزا میں گرفتار کرکے عمران خان نے اپنے نامہ اعمال میں ایک اور سیاہ تر کارنامے کا اضافہ کر لیا ہے۔
سیاسی مخالفین کو اس طرح کے گھٹیا قسم کے مقدمات میں گرفتار کر کے ان کی تضحیک کرنا ہماری سیاست کا پرانا چلن ہے،لیکن پہلے یہ عمل صرف سیاست دانوں تک ہی محدود تھا جیسا کہ چوہدری ظہور الہی کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ بہت شہرت رکھتا ہے،لیکن اس بارتو نشانہ کوئی سیاستدان نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت بنی جس کا تعلق موجود ہ حکمران جماعت کی بدترین سیاسی مخالف جماعت مسلم لیگ (ن)اور اس کے قائدمیاں محمد نوازشریف سے ہے،وزیر اعظم کا سارا زور اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانااوران کی تضحیک کرنا ہے،ایک سال گزر گیا ابھی تک ماسوائے نواز شریف یا آصف علی زرداری کے خلاف بیانات اور کارروائیوں کے عملاً حکومت کی کارکردگی صفر ہے،جس کا ثبوت منہ زور ریکارڈ مہنگائی ہے۔
یہاں سوال اُٹھتا ہے اس مجسٹریٹ پر بھی جس نے حقائق جانتے ہوئے بھی عرفان صدیقی صاحب کو جوڈیشل کیا،اور بقول عرفان صدیقی صاحب میرے سوال کرنے پر مجسٹریٹ صاحبہ خاموش رہیں،سوال اُٹھتا ہے اس سے پہلے تھانہ رمنا پولیس کی کارکردگی پر،جو محض تین دن میں عرفان صدیقی صاحب کے بیٹے عمران خاور صدیقی صاحب کی جانب سے کرائے داری معاہد ہ تھانے میں جمع نہ کروانے پر یکدم کیسے اتنا چست ہو گئی کہ بیٹے کی غلطی پر اس کے باپ کو دہشت گردوں کی طرح آدھی رات کو گھسیٹتے ہو ئے گرفتار کر لائی،درحالانکہ کرائے داری ایکٹ میں اس طرح گرفتاری کا کوئی جواز نہیں بنتا،زیادہ سے زیادہ اگرعمران خاور صدیقی نے کرائے نامے کا معاہد ہ جمع نہیں کروایا تھا تو متعلقہ تھانے والوں کو اسے تھانے بلا کر اس بارے پوچھنا چاہیے تھا،اور نوٹس دے کر کہا جاتا کہ معاہد ہ جمع کروایا جائے،اس کیس میں تو تھانے سے ہی مالک مکان کی شخصی ضمانت ہو جاتی ہے،پھر ایسی کون سی افتاد آن پڑی تھی جو بھاری بھر کم پولیس فور س کو یہ سب کرناپڑا؟
یہ ہے اس سارے کیس کا بنیادی محور اور بنیادی سوال،جس کے گرد ساری کہانی گھومتی ہے،بات پھر وہیں جا کر اٹکتی ہے کہ کرائے داری ایکٹ کے نام پر مسلم لیگ(ن) اور نواز شریف سے تعلق کی بنیاد پر عرفان صدیقی کوجان بوجھ کر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تضحیک کا نشانہ بنایا ہے،جس سے حکمران طبقے کی انانیت،فسطائیت اورکم ظرفی ظاہر ہورہی ہے،کہ وہ سیاسی حریفوں کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کی بجائے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی ہے کہ ایک عمر رسیدہ اُستاد بھی ان کی دست برد سے نہ بچ سکا،کیا پیغام دیا جارہا ہے،عقل مندوں کے لئے اشارہ کافی ہے،جو کوئی بھی اس حکومت کی نااہلیت پر سوال اُٹھائے یا جس کا تعلق سابق حکمراں جماعت سے ہے خواہ وہ کوئی بھی ہے کسی بھی عمر یا پیشے سے وابستہ ہو،کسی نہ کسی ناکردہ گناہ میں ذلیل ہونے کے لئے تیار رہے،لیکن سدا نام رہے اللہ کا،بقول شاعر
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں