زندگی کا گِدھ۔۔۔۔رمشا تبسم

سخت گرمی اور حَبس کی وجہ سے راشد کا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ٹوٹی جوتی گھسیٹ کر چلتا ہوا وہ  اُس وقت رُکا جب برگر اور شوارما کی دکان  سے ایک لفافہ  اسکے قدموں میں گرا۔ راشد نے لفافہ  اٹھایا اور اُِدھر اُدھر گُھورنے لگا۔۔۔لفافہ سینے  سے لگا کر  وہ آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
کہ اچانک ایک آواز آئی۔
“چھوٹے ایک لفافہ  کم ہے گوشت کا۔۔۔کہاں گیا؟”
دس گیارہ سالہ بچہ بوتلیں رکھ کر بھاگا آیا۔
 “استاد یہاں ہی تھا۔پورے نو لفافے  تھے”
راشد تذبذب کا شکار ہوا۔اس نے نظریں چرائیں ، یہاں وہاں دیکھ کر اس نے لفافہ  آگے سٹال کی طرف کیا ہی تھا, کہ آدمی نے اس کو کندھے سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔۔ راشد کے پاؤں لڑکھڑائے تھے مگر  اس آدمی نے گرفت مضبوط کی اور  راشد کو گریباں سے کھینچ کر دکان کے  سامنے لے آیا۔۔
راشد کچھ کہنے ہی والا تھا کے دکاندار نے ایک جھٹکے سے لفافہ  کھینچا اور گالی دے کر راشد کے منہ پر تھپڑ مارا۔راشد  سنبھل نہیں سکا تھا اور زمین پر گر گیا۔راشد نے اٹھ کر کچھ کہنا چاہا مگر دکاندار اس وقت چورچور  کا شور مچانے میں  مصروف تھا۔
راشد نے دکان دار کے سامنے آ کر اس سے بات کرنی چاہی۔جب پیچھے سے دو آدمیوں نے راشد کو دھکا دیا اور اس پر  تھپڑوں, جوتوں کی بوچھاڑ کردی۔ہر طرف  چور چور کا شور مچ گیا۔
ہر کوئی چور پر ہاتھ صاف کرنے آگے بڑھ رہا تھا۔ کسی نے راشد کے ہونٹوں  پر اس وقت جوتا مارا جب راشد نے صرف اتنا کہنا چاہا
  “میں نے چوری نہیں کی”۔
چند نوجوان ڈنڈے لے کر بھاگ کر آئے اور راشد پر حملہ کر دیا،کوئی سر پر مار رہا تھا۔ کوئی ٹانگوں پر ۔۔کوئی اسکے پہلے سے پھٹے اور گندے کپڑے، جو اب خون آلود تھے،  کھینچ کر مزید پھاڑ رہا تھا۔راشد  انسانوں کے ہجوم   کے ہاتھوں کئی ضربیں  اپنے وجود پر کھا رہا تھا۔
راشد بار بار کہہ رہا تھا “بھائیوں میری بات سنو۔۔۔ میں چور نہیں”
لوگ گالیاں دیتےہوئے راشد کو پیٹ رہے تھے۔
ہجوم بڑھ چکا تھا۔کوئی راشد کو گولی مارنے کا مشورہ دے رہا تھا۔۔۔کوئی ٹانگیں توڑنے کا۔۔۔ کوئی پولیس کو اطلاع کرنےکا  کہہ  رہا تھا۔۔
راشد ہر ایک کی طرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھ کر التجا کر رہا تھا کہ “میں چور نہیں” میری مدد کرو”۔
 ایک لڑکے نے بڑا سا پتھر راشد کی کمر میں دے مارا اور راشد منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔اب اسکا خون آلود جسم نیم مردہ حالت میں پڑا تھا۔
سب لوگ بُڑ بُڑا رہے تھے۔سرگوشیوں کا شور بڑھ رہا تھا۔ہر کان میں کچھ نہ کچھ کہا جا رہا تھا۔۔۔کوئی خوش تھا۔کوئی جنون میں اندھا ہو چکا تھا۔
اُسی وقت ایک شخص نے آگے بڑھ کر ہجوم سے نظریں چرا کر راشد کی جیب جو کہ اب مکمل پھٹ کر لٹک چکی تھی۔۔۔ اسکو ٹٹولا۔۔۔جس میں سے صرف بیس روپے نکلے اور اس شخص نے غصے میں  پاس پڑا  ڈنڈا اٹھایا اور راشد کی کمر پر وار کرنے شروع کر دیئے۔۔۔
سر تا پاء لہو لہان وجود اب مزید مزاہمت نہیں کر پا رہا تھا۔اب ضرب لگتی تو راشد کا جسم جنبش کھاتا مگر اب اسکے خون آلود زخمی ہونٹوں اور حلق سے آواز بھی نکلنا ممکن نہیں رہا تھا۔
سفید سوٹ میں ملبوس ادھیڑ عمر شخص جو غالباًمغرب کی نماز پڑھ  کر اس طرف ہجوم دیکھ کر آرہا تھا۔ اور لوگوں کے قہقہوں اور فاتحانہ مسکراہٹیں, تجزیے اور باتیں سن  کر آگے بڑھ رہا تھا۔
 ہر کوئی چور کو پکڑنے پر خوشی اور فخر محسوس کر رہا تھا۔
بزرگ نے راشد کے لہو  لہان وجود کے سامنے جا کر قدم روکے اور مخاطب ہوا ۔۔
بھائیوں! کیا ہوا ہے؟۔نظریں راشد کے بے سدھ جسم کو دیکھ رہی تھیں۔۔
تمام لوگ کُھسر پُھسر میں مصروف تھے۔
“اکرم تو بتا کیا معاملہ ہےکیوں تیری دکان کے آگے ہجوم ہے؟” ۔
اکرم سینہ تان کر بولا۔”حاجی صاحب  میرا دھیان ذرا سا دکان سے اِدھر ہوا اس  حرامی کی اولاد  نے میری دکان سے سارا گوشت اور دراز سے پیسے نکال لیے  اور بھاگ پڑا۔بڑی مشکل سے پکڑا ہے”۔
حاجی نے راشد کو پاؤں سے تھوڑی ٹھوکر ماری اور ساتھ ہی ایک اور آواز بلند ہوئی۔۔
“تین دن پہلے پچھلی گلی میں بھی ایک دکان پر چوری ہوئی ہے یہی کمینہ ہو گا”
اور ساتھ ہی راشد پر ایک بار پھر   ڈنڈے برسانا شروع کر دیئے جسکا وجود اب مزاحمت تو دور ضرب  پر تڑپ بھی نہیں رہا تھا۔۔
” حاجی صاحب گزشتہ چند دنوں سے ہمارے علاقے میں چوریاں ہو رہی ہیں۔۔آج چور ہاتھ لگا ہے اسکو چھوڑیں گے نہیں”
یہ کہہ کر سب پھر  سے پاؤں, ڈنڈوں اور گالیوں سے حملہ آور ہوئے۔
حاجی صاحب نے بمشکل ہجوم کو روکا۔۔اور کہا “بھائیوں تمہیں یقین ہے یہی چور ہے؟”۔
سب  ایک آواز میں بولے “ہاں ہاں حاجی صاحب”۔
کوئی بولا “میں نے خود اسکو ایک دن چوری کرتے دیکھا”
کسی نے اسکو پیشہ ور  چور  قرار دیا  اور سب نے اسکی تصدیق بھی کی۔۔۔
حاجی صاحب آگے بڑھے اور پانی کی بوتل پکڑ کر راشد کے منہ پر ڈالنا شروع کی، راشد تھوڑا ہوش میں آیا مگر  وہ کسی کا چہرہ دیکھنے اور کسی کی آواز سننے سے قاصر تھا۔اسکا خون پانی کے ساتھ لوگوں کے قدموں میں بہہ رہا تھا۔مٹی اور خون نے اسکا چہرہ پہچان کے قابل نہ چھوڑاتھا۔
حاجی صاحب نے راشد کو پاؤں کی ٹھوکر سے سیدھا کیا۔۔نفرت بھری نگاہ راشد پر ڈالی۔ اور لوگوں سے مخاطب ہوئے۔
“اس ملک میں کوئی قانون نہیں،نہ انصاف ہو گا ،یہ روز چوری کرتے ہیں۔ لوگوں کو جان سے مارتے ہیں۔۔ پولیس ان کو چھوڑ دیتی ہے۔۔یہ ناسور ہیں دنیا میں ۔یہ ناسور مزید بڑھے ہمیں خود اسکا خاتمہ کرنا ہوگا۔جو اپنی مدد نہیں کرتا اللہ اسکی مدد نہیں کرتا”۔
راشد بس دھندلا سا منظر دیکھ رہا تھا۔ اسکو گماں ہوا کہ کوئی نیک سفید سوٹ میں ملبوس فرشتہ کھڑا ہے۔۔ جو اسکی مدد کو پہنچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ڈاکٹر صاحب میری بچی بے ہوش ہو گئی ہے۔اسکا بخار کم نہیں ہو رہا”۔۔ثمینہ نے پانچ سالہ فجر کوڈاکٹر کی طرف بڑھایا۔۔۔
ڈاکٹر نے کاغذ پر لکھتے ہوئے سرسری  سی نظریں ثمینہ اور اس کے ہاتھ میں بے ہوش فجر پر ڈالی۔۔
“دیکھو بی بی تمہیں کل بھی کہا تھا بچی کی حالت ٹھیک نہیں اسکو انجیکشن  اور گلوکوز لگے گا۔مگرتم پیسے کے رونے رو کر چلی گئی تھی۔آج پیسے لائی ہو تو بتاؤ ورنہ وقت ضائع نہ کرو”.
ڈاکٹر اب ثمینہ کی طرف دیکھ کر ہاں کے انتظار میں تھا۔۔
“ڈاکٹر صاحب میری بچی مر جائے گی۔اس کاباپ آ رہا ہو گا پیسے لے کر۔آپ دوائی دے دو” ۔ثمینہ نے فجر کو سینے سے لگاتے ہوئے رو کر التجا کی۔
“اوئے وسیم اس بی بی کو باہر نکالو کام کے وقت آ جاتے ہیں کنگلے بھکاری ۔پیسے ہوتے نہیں مہنگے ڈاکٹروں کا شوق ہوتا ہے۔جا بی بی پیسے ہوئے آ جانا”ڈاکٹر نے حقارت سے کہا۔۔
ثمینہ زارو قطار رونے لگی۔”ڈاکٹر جی میری بچی آنکھیں نہیں کھول رہی۔ ایک بار دیکھ لو” ۔
ثمینہ ایک ہاری ہوئی ماں کی طرح بچی کی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی۔
وسیم میں ذرا گھر جا رہا ہوں۔میرے بچوں نے ریسٹورانٹ کا پلان بنایا ہوا ہے۔میں تھوڑی دیر تک آجاؤ گا۔اس وقت تک کلینک سے کچرا نکال دو۔۔
 ڈاکٹر نے ایک  تمسخر اڑاتی نظر  گندے لباس میں بچی ہاتھ میں اٹھائے  کھڑی ماں پر ڈالتے  ہوئے کہا۔
“بی بی جاؤ ڈاکٹر بھی گیا۔پیسے لے کر آ جانا” وسیم مخاطب ہوا۔۔
“میری بچی ۔۔ ایک بار”۔۔ثمینہ نے اپنی  بات مکمل نہیں کی تھی کہ وسیم دروازہ کھول چکا تھا۔
ثمینہ  بجھے دل اور روتی آنکھوں سے لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ گھر آ گئی۔
اما ں پانی۔۔۔ دو دن سے سخت بخار میں مبتلا فجر نے ماں کو پکارا۔
“ہاں۔ پانی، میں لاتی ہو ں پانی میری بچی کے لیے”…
ثمینہ نے پانی فجر کے ہونٹوں سے لگایا جو بمشکل ایک ہی گھونٹ پی کر دوبارہ بے ہوش ہو گئی۔ثمینہ زارو قطار رو رہی تھی اندھیرا پھیل رہا تھا۔
“فجر کے ابا کہاں ہے تو۔۔آ جا تیری لاڈلی  کی زندگی خطرے میں ہے”ثمینہ بے بسی سے  تڑپ رہی تھی۔
اچانک ثمینہ اٹھ کر کمرے کی طرف بھاگی ،ہر جگہ تلاش کرنے گی کوشش کی۔ کوئی پیسے، کوئی قیمتی چیز،کچھ بھی جو وہ بیچ سکے۔۔
اس بوسیدہ کمرے میں ٹوٹی ہوئی دو چارپائیوں، پرانے صندوق کے سوا کچھ نہ تھا۔
ثمینہ زمین پر بیٹھی ماتم کر رہی رہی ۔”فجر کے ابا آ جا” آنسو ثمینہ کا چہرہ بھگو چکے  تھے۔باہر آتے اچانک ثمینہ کے قدم کسی چیز پر پڑے۔
اس نے جھک کر اٹھایا۔پرانے  کپڑے کی فجر کی گڑیا  تھی۔
“فجر یہ دیکھ تیری گڑیا”ثمینہ نے گود میں اٹھا کر فجر کو گڑیا تھمانا چاہی۔
فجر کی گردن لٹک رہی تھی۔
ثمینہ نے فجر کے چہرے پر ہاتھ رکھے “فجر۔۔ میری بچی۔۔ اٹھ فجر۔۔ فجر”
فجر کی سانسیں ٹوٹ رہی تھی۔یا شاید سانس تھی ہی نہیں۔۔
ثمینہ روتی ہوئی اِدھر اُدھر بھاگتی گھر کے صحن سے باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“فجر کے ابا آج ذرا جلدی آ جانا۔ کوشش کرنا جیسے بھی کچھ رقم کا بندوبست ہو جائے۔تیری بیٹی کو دوا کی ضرورت ہے “
“ہاں۔تو پریشان نہ ہو مجھے رب پر بھروسہ ہے یہ چند روپے ہیں ان سے ضرور آج  زیادہ روپے کما لاؤں گا”
“دیکھ فجر کے ابا۔۔میں نے کبھی تجھ سے اپنے لئے کچھ نہیں مانگا۔مگر میری بچی کو کچھ ہوا نا تو میں اپنی جان لے لو ں گی”آنسو قطار در قطار بہہ رہے تھے۔
“فجر کی ماں کیوں میرا کلیجہ جلا رہی ہے۔یہ میری بھی گڑیا ہے۔۔ تو بس دعا کر گھبرا مت۔میں شام ہوتے آ جاؤں گا۔اگر طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ڈاکٹر کے پاس چلی جانا۔میں ادھر ہی آ جاؤں گا۔”
آخری نظر سوئی ہوئی فجر پر ڈال کر دروازے سے باہر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“صدقے کا گوشت لفافہ  صرف دس روپے صاحب جی اپنے بچوں کا صدقہ کرو “
چلچلاتی دوپہر سخت دھوپ میں نہر کنارے کھڑا راشد  آنے جانے والوں کی منتیں کر رہا تھا۔۔سورج سوا نیزے پر تھا۔ دھوپ راشد کا چہرہ جھلسا رہی تھی۔گرم زمین راشد کے پاؤں جلا رہی تھی۔۔راشد ادھر ادھر بھاگتا آوازیں لگا رہا تھا۔
“بھائی صدقے والے  کتنے کا لفافہ ہے “
“صاحب جی دس روپے کا صرف”
“ٹھیک ہے دو لفافے  دے دو”
راشد نے آدمی کے سر سے لفافے  وار کر کوے اور چیلوں کے آگے پھینک دیئے۔جو نہر کنارے ہواؤں میں گدھ بن کر نوچنے کو تیار تھیں۔۔
راشد نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔پیسے نکالے ۔۔
” صرف سو روپیہ”راشد ہلکا سا زیر لب بڑبڑایا۔
اور ایک بار پھر ڈنڈے پر لٹکائے ہوئے لفافے لئے گاہکوں کو آوازیں دینے لگا۔۔
جب گاہک آتا راشد کا دل تھوڑا سکون میں آتا۔وہ آج اس سورج کو اتنی جلدی غروب  ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
آج پہلی بار وہ دھوپ میں زیادہ دیر جلنا چاہتا  تھا۔وہ سورج کی تپش زیادہ دیر برداشت کرنا چاہتا تھا۔مگر سورج کا غروب ہونا سوچ کر ہی راشد کا دل ڈوب رہا تھا۔وہ ابھی تک ڈاکٹر کی فیس جتنے پیسے جمع نہیں کر پایا تھا۔
سورج کی طرف لگاتار منہ کیے کھڑا راشد آج سورج کو مات دینے کا حوصلہ رکھتا تھا۔کسی گہری سوچ میں مبتلا راشد اس وقت ہوش میں آیا جب کسی نے راشد کو آواز دی۔
“راشدمُڑا، جی صاحب جی”۔ اور کچھ قدم اس کے پیچھے کو ڈر سے خود بخود مڑ گئے۔
“تم لوگ باز نہیں آتے نا۔پھر ہم کچھ کہتے ہیں تو چیختے ہو کہ  پولیس ظالم ہے۔تم لوگوں کو دس دن پہلے بھی سمجھایا تھا حکومت نے منع کیا ہے یہ گوشت سڑک کنارے بیچنے سے۔۔ مگر تم کمی کمین لوگ بھوکے ننگے کہاں سنتے ہو” دو پولیس والے اپنی طرف آتے دیکھ کر راشد کا دل ڈر گیا۔
“صاحب جی میں بس آج آیا ہوں۔میرے گھر فاقے ہیں ۔بچی بیمار ہے ۔بس آج پیسے چاہیے اس لیے آ گیا۔” “میں چلا جاتا ہوں، معاف کرنا صاحب جی”یہ کہہ کر راشد پیچھے مڑ کر جلدی سے جانے لگا۔
“ابے رُک کہاں بھاگ رہا ہے” پولیس والے نے جلدی سے راشد کو گردن سے پکڑ کر اپنی طرف موڑا۔
“قانون توڑتے ہو پھر بھاگتے ہو۔اب تھانے چلو پرچہ ہو گا۔غیر قانونی کام کر رہے تھے تم ۔ ہم ٹھہرے قانون کے محافط۔ قانون ٹوٹتا ہم سے برداشت نہیں ہوتا” یہ کہہ کر دونوں پولیس والوں نے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر قہقہہ لگایا۔
“صاحب جی  مجھے  جانے دیں غریب آدمی ہوں۔آگے کچھ نہیں میرے گھر کھانے کو اور اب بچی بیمار ہے میں آئندہ نہیں آؤں گا آج معاف کردو”۔ راشد ڈوبتی آواز سےالتجا کر رہا تھا۔
“چل ٹھیک ہے جا۔مگر چائے پانی دیتا جا”پولیس والے نے سنجیدگی سے کہا۔
چائے پانی؟راشد نے  سوچا۔ پھر بولا۔
“صاحب جی پیسے نہیں ہیں۔مجھ غریب پر رحم کرو”
“بے غیرت جھوٹ بولتا ہے” پولیس والے نےراشد کو گریبان سے پکڑکر اسکی جیب میں ہاتھ ڈالا۔
تین سو پچاس۔چل جا اب۔۔ دفع ہو ورنہ تھانے گیا تو تین سو پچاس دن باہر نہیں آئے گا۔چرس کا مقدمہ بنائیں گے تجھ پر “۔یہ کہہ کر پولیس والوں نے ہنسنا شروع کیا۔
“صاحب یہ مجھے دے دو میری بچی کی دوا کے پیسے ہیں”۔راشد بھیک مانگ رہا تھا۔اب تو یہ گوشت بھی ختم ہو گیا میں کیا بیچوں گا ؟ایک لفافہ  ہے ۔شام ہونے والی ہے،مجھ پر رحم کرو۔”
“کتنے کا لفافہ ہے یہ پولیس والے نے ہنس کر پوچھا۔”
راشد کی آواز حلق میں اٹک گئی۔
“اوئے انور کتنے کا ہے تو بتا؟ “پولیس والے نے ساتھی سے پوچھا۔
“دس روپے کا شاید۔ “
“ٹھیک ہے صدقے والے یہ لفافے دے ادھر میں اپنا صدقہ دوں۔جان خطرے میں ڈال کر تم جیسوں کی خفاظت کرتے ہیں”یہ کہہ کر اس نے لفافہ  چھین کر اپنے سر سے وارکر پھینک دیا۔
“یہ لے دس کا لفافہ،میں تجھے بیس روپے دیتا ہوں،تو بھی کیا یاد کرے گا۔بھکاری خوش ہو جا”
یہ کہہ کر ہنستے ہوئے دونوں پولیس  افسر راشد کی نظروں سے اوجھل ہونا شروع ہو گئے۔راشد ہاتھ میں بیس روپے تھامے رو رہا تھا۔۔
“کاش ہم جیسے کیڑے مکوڑے پیدا ہی نہ ہوں۔کاش میں کسی گاڑی کے نیچے آ کر مر چکا ہوتا۔ہماری حیثیت ہی کیا ہے ۔سوائے دنیا پر بوجھ کے”
راشد روتا جا رہا تھا اور بولتا جا رہا تھا۔ایک دم اسکی آنکھوں میں بیمار فجر کی تصویر نظر آئی۔اس کو یاد آیا اسکو جینا ہے۔۔
“نہیں راشد تو ہار نہیں مان سکتا۔یہ سورج ساری عمر جھلسا کر مجھے مار نہیں سکا۔زندگی کا گدھ غربت بن کر مجھے نوچتا رہا۔کبھی بھوک نے میرا ماس کھایا۔ کبھی گالیوں نے میری عزت نفس کھا لی۔کبھی لوگوں کے طعنوں نے میری سفید پوشی کو نگل لیا۔زندگی کسی گدھ کی مانند ہمیشہ پَر پھیلائے مجھے نوچنے کو تیار بیٹھی رہی۔  مگر میں زندہ رہا۔لڑتا رہا۔۔آج بھی مجھے زندہ رہنا ہے۔ میری فجر کی خاطر”۔۔ راشد خود سے مخاطب تھا۔ ۔
بیس روپے۔ راشد نے مٹھی میں بند بیس روپے تھامے ۔
“بیس روپے کا گوشت لے کر ابھی بھی بیچ سکتا ہوں۔۔مہنگا بیچ لوں  گا۔صدقہ کرنے والے ویسے بھی صدقہ ہی کرتے ہیں۔مہنگا بھی لے لیں گے۔”
راشد اٹھا اور سورج پر ایک نظر ڈال رہا تھا شاید التجا کر رہا تھا کہ  ابھی تپش بڑھائے رکھنا۔ یہ سوچ کر راشد تیزی سے چلنے لگا۔سورج کی تپش اب کافی کم ہو چکی   تھی۔۔
“بیس کا صدقے کا گوشت دے دو۔۔بلکہ گوشت,چھچھڑے جو بھی ہے بس دے دو۔” راشد تیزی سے بول رہا تھا۔
“بیس کا گوشت کہاں آتا ہے۔ اور دیکھ دکان میں ہے گوشت؟ ختم ہو گیا میں دکان بند ہی کر رہا تھا۔کچھ دیر پہلے آتا چھیچھڑے مل جاتے اب وہ بھی صفائی والا لے گیا۔”دکان دار بولا۔
“بھائی کچھ بھی ہے دے دو۔خدا کا واسطہ۔”
سنائی نہیں دے رہا ختم ہو گیا باہر جاؤ مجھے دکان بند کرنی ہے۔دکاندار غصے سے بولا۔
“یہاں اور کہاں گوشت کی دکان ہے اتنا بتا دو” راشد نے التجا کی۔
“یہاں آگے بازار میں ہے۔شام ہو رہی ہے۔جا کر دیکھ لو کھلی ہے کہ  نہیں” ۔دکان دار یہ کہہ کر چل دیا۔
راشد تیزی سے بازار کی طرف بھاگا۔دکانیں بند تھیں۔
راشد بیس روپے تھامے اپنا وجود گھسیٹ رہا تھا۔جب وہ برگر اور شوارما کی دکان پر پہنچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب۔ ڈاکٹر صاحب میری بچی” ثمینہ چیختی ہوئی کلینک میں بھاگی”۔۔
ڈاکٹر مریض چیک کرتا ہوا غصے سے اٹھا,
“جا بی بی کام کر پیسے ہیں تو  ٹھیک ورنہ جا ادھر سے” ۔ڈاکٹر کے چہرے اور آواز نے ثمینہ کے قدم لڑکھڑا دیئے۔
“پیسے وہ۔۔پیسے ۔ اس کا باپ آتا ہو گا۔آپ ایک بار دیکھ لو اب تو سانس بھی نہیں لے رہی۔ “کانپتی آواز نے بمشکل ہی جملہ ادا کیا۔
ڈاکٹر نے آگے ہو کر ایک نظر فجر پر ڈالی۔جس کا چہرہ اس کی موت کی تصدیق کر رہا تھا ۔نبض دیکھی اور پیچھے  ہو کر بولا ۔
“دیکھو۔جو اللہ کی مرضی ہوتی ہے وہی ہوتا ہے۔میں ڈاکٹر ہوں خدا تو نہیں ہوں “۔ڈاکٹر نے کلینک میں موجود مریضوں کی طرف تصدیق کے لیے نظر دوڑائی لوگوں نے بھی سر ہلا کر ہاں میں ہاں ملائی۔
“میں علاج کر سکتا ہوں۔مگر  جن کی زندگی ہی اتنی ہو انکا علاج ناممکن ہے۔بچی وفات پا چکی ہے۔میں اب کیا کر سکتا ہوں، حوصلہ کرو۔اللہ کی مرضی ہم سب نے مر نا ہے ایک دن”۔
ڈاکٹر نے  اتنا کہہ کر مریضوں کی طرف افسردہ نظر ڈالی۔ہر چہرہ بس ڈاکٹر کی بات سے رضامند تھا۔
“وفات۔۔فجر۔۔نہیں”۔۔ ثمینہ زاروقطار چیخنے لگی۔
ڈاکٹر کرسی پر واپس بیٹھ گیا۔
“فجر آنکھیں کھول”۔ثمینہ نے  فجر کو ہلایا ۔فجر کا جسم اب  مکمل مردہ ہو چکا تھا۔
ثمینہ روتی چیختی کلینک سے باہر بھاگی۔
“راشد تو نے ساری  ندگیز مجھے کوئی خوشی نہیں دی سوائے فجر کے اور آج تو میری یہ خوشی بھی بچا نہ سکا۔تو نہیں آیا تیری گڑیا بھی روٹھ گئی تجھ سے۔۔اب میں بھی تجھ سے روٹھ جاؤں گی،یہ کیڑوں والی  زندگی اب جی نہیں جاتی۔ ۔زندگی کے غم ہمارے جسم کی بوٹی بوٹی کھا گئے آخر میں بس ہمارا دل تھا ہماری بچی۔۔وہ بھی کھا گئی  یہ زندگی کے گدھ ۔۔اب اور نہیں ۔”
یہ کہہ کر ثمینہ نے فجر کا منہ چوما۔اور دریا میں چھلانگ لگا دی۔
پانی میں  ایک چھناکے کی آواز آئی۔کچھ لوگ جمع تھے۔
کچھ لمحے ہاتھ پانی میں ہلچل کرتے نظر آئے پھر صرف ایک دوپٹہ پانی پر تیرتا رہا۔جو آنسووں سے سارا دن بھیگتا رہا اور دریا کے پانی میں دھل کر ہلکا ہو کر تیرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“دیکھو اب جو گا۔ہم سب گواہ ہیں۔مگر ہم میں سے کوئی گواہی نہیں دے گا۔ہم ظلم دیکھ کر چپ رہے تو ہماری کمزوری ہے۔ہم کب تک ان چوروں کے ہاتھوں ظلم سہیں،اب بہت ہو گیا۔ہم سب چور نہ سہی ایک چور کو سزا دے کر نشانِ  عبرت بنا سکتے ہیں۔تاکہ چور نصیحت پکڑیں “۔۔حاجی صاحب نے  لوگوں سے مزید کہا۔۔
“کیا تم سب وعدہ کرتے ہو ۔جو اب ہو گا سب ایک دوسرے کے ساتھ ہیں کوئی پولیس کو گواہی نہیں دے گا؟”
“ہاں۔ ہاں حاجی صاحب جو آپ کہیں”۔ہر طرف سے ہاں کی آواز بلند ہوئی۔
حاجی صاحب نے ایک لڑکے کو کچھ لینے بھیجا۔
راشد کو کھمبے سے باندھ دیا۔جس میں صرف کچھ بے ترتیب سانسیں باقی تھیں۔
 ایک  لڑکے نے مٹی کا تیل ڈال کر حاجی صاحب کو دیکھا۔جو ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔سب نے کچھ لمحے اِدھر اُدھر دیکھا اور ماچس جلا کر  راشد کی طرف پھینکی ۔آگ ایک دم بھڑک اٹھی۔راشد  کی کچھ چیخوں سے فضا میں شور برپا ہوا۔آگ کے شعلوں نے جلد ہی راشد کی چیخیوں کا گلا گھونٹ دیا۔ اب فضا میں صرف جلتے گوشت کی بدبو تھی۔زندگی کا  گدھ راشد کو نوچ چکا تھی۔اب صرف بدبو باقی تھی۔۔۔
پولیس جب  پہنچی،راشد جھلس چکا تھا۔۔
“حاجی صاحب آپ بتائیں  کیا معاملہ ہوا ہے یہاں” پولیس آفسر نے پوچھا۔
“بیٹا معلوم نہیں چور تھا۔اس کے ساتھ کچھ اور لوگ تھے۔ڈاکہ  ڈال کر بھاگ رہے تھے لوگوں کے ہاتھ لگ گیا،ہم  جب پہنچے تو یہ سب ہو چکا تھا ہم کسی کا چہرہ تو نہیں پہچانتے بس افسوس ہو رہا تھا۔قانون ہاتھ میں لیا کچھ انجان لوگوں نے۔ہم نے روکا مگر ہم غریب لوگ کیا کرتے انکے پاس ہتھیار تھے”۔ ۔حاجی صاحب نے افسردگی سے کہا
” ٹھیک ہے اگر ضرورت ہوئی  کاروائی میں تو آپ سب کی گواہی ہو گی،آ جانا”۔ پولیس افسر نے کہا۔
“ہاں ہم آ جائیں گے”۔ سب نے ایک زبان ہو کر کہا۔
“اچھا لاش توایمبولینس میں جا چکی ۔اور اب رات ہو گئی ہے۔عشاء کو دیر ہو رہی ہے، میرا خیال ہے ہمیں اب جانا چاہیے”۔حاجی صاحب نے دھیمے لہجے میں کہا۔
سب نے ہاں میں ہاں ملائی۔
اور تمام لوگ کاروبار دنیا میں  مصروف ہو گئے۔۔
“تو نے واقعی اس کو  ڈاکہ  ڈالتے دیکھا تھا”
نہیں دیکھا نہیں تھا۔سنا تھا کل دوست بتا رہا تھا ڈاکہ  ڈالا کسی نے “خیر چھوڑ  چل کچھ کھاتے ہیں کتنا وقت ضائع ہو گیا۔میں مٹی کا تیل لینے آیا تھا نا تو  بابا تکے پر تکے کی خوشبو آ رہی تھی چل وہ کھاتےہیں “
زمین اب بھی جھلس رہی تھی۔بدبو فضا سے اب شاید کبھی ختم نہ ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سلیم کنٹرول دینا۔کیا خبر ہے یہ”
ڈاکٹر صاحب کسی نے بڑی مارکیٹ میں ڈاکو کو پکڑ کر آگ لگا دی۔آگ لگانے والوں کا معلوم نہیں ہوا۔”سلیم کنٹرول دیتے ہوا بولا۔
“اچھا ہی ہوا آج کہیں ڈاکہ ، کل کہیں۔ہم جیسے شریف اور حلال روزی کمانے والوں پر ہمیشہ ان کا خوف رہتا ہے”ڈاکٹر چینل بدلتے ہوا بولا۔ ۔ ۔
“لو اب یہ خبر کیا ہے۔ایک عورت نے بچی سمیت دریا میں چھلانگ دی۔عورت کی لاش مل گئی  اور بچی کی تلاش جاری”جہاں دیکھو اداس خبر۔بس غربت نے برا حال کیا ہوا ہے۔ڈاکٹر انتہائی افسردگی میں خبریں سنتے ہوئے بولا۔۔
“اللہ کے نام پر کچھ دے دو” فقیر کی آواز بلند ہوئی۔ سلیم نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔
“سلیم  اسکو جھڑکنا مت۔غریب ہے،بد دعا لگتی ہے ان کی۔ انکی مدد کرنی چاہیے۔اللہ راضی ہوتا ہے،یہ لو دس روپے اسکو دو۔ خدا انکے وسیلے سے ہی تو ہمیں نوازتا ہے”
سلیم دس روپے لے کر فقیر کی طرف روانہ ہوا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply