سڑک پر کاروں ، موٹر سائیکلوں اور رکشوں کا ہجوم تھا – ایسے لگ رہا تھا کہ ہر ایک کو بہت جلدی ہے – میں نے کہیں پڑھا تھا کہ پاکستانیوں کو سڑک کے علاوہ کہیں بھی جلدی نہیں ہوتی – اور اس بات کا مشاہدہ ہم تقریباً ہر جگہ ہر روز کرتے ہیں – خیر ، اس شام بھی سڑک پر ایسی ہی تیز رفتار ٹریفک تھی – اچانک پیچھے کافی دور کہیں سے ایمبولینس کے سائرن کی آواز سنائی دی – میں نے بیک مرر میں سے دیکھنا چاہا لیکن مجھے ایمبولینس نظر نہ آئی – تاہم احتیاطاً میں نے گاڑی کی رفتار کم کر دی اور اسے سڑک کے مزید بائیں طرف کرنے لگا – اس دوران سائرن نزدیک سے سنائی دینے لگا – اب ایمبولینس بیک مرر میں نظر بھی آ رہی تھی – میں نے فوراً سڑک سے مکمل بائیں طرف ہو کر گاڑی روک لی – مجھے اچھا لگا کہ میرے آگے اور پیچھے بھی زیادہ تر گاڑیاں اسی طرح بائیں طرف ہو ہو کر سست رفتار ہو رہی تھیں یا رُک رہی تھیں – لیکن اِکا دُکا گاڑیاں اب بھی ایسی تھیں جو ایمبولینس کو راستہ دینے میں سست نظر آ رہی تھیں – سائرن بہت تیز بج رہا تھا – میں انتظار کر رہا تھا کہ ابھی چند سیکنڈز میں ایمبولینس ہمارے دائیں طرف سے تیزی کے ساتھ گزر جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا – بلکہ سائرن کی آواز اب بہت قریب سے اور بہت بلند سنائی دے رہی تھی – میں نے باہر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک موٹر سائیکل رکشہ ، جسے عوامی زبان میں “چنگ چی رکشہ” کہا جاتا ہے ، سڑک کے تقریباً درمیان میں چل رہا تھا اور ایمبولینس کا ڈرائیور بہت جنجھلاہٹ کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا کہ وہ راستہ چھوڑے – رکشہ ڈرائیور شکل سے اَن پڑھ اور بالکل نوجوان لگ رہا تھا،جس کی ابھی ڈاڑھی مونچھ بھی نہیں آئی تھی – رکشے میں چند مرد وخواتین مسافر بھی سوار تھے لیکن وہ ڈرائیور کو راستہ چھوڑنے کے لیے نہیں کہہ رہے تھے – مجھے بہت دکھ اور غصہ محسوس ہوا – میں نے زور سے تقریباً چیختے ہوئے اس رکشہ والے کو پکار کر کہا کہ مہربانی کر کے راستہ چھوڑے – اس نے اپنی غلطی کااحساس کرنے کی بجائے بیزاری اور غصے سے میری طرف دیکھا –

اتنے میں کچھ اور لوگوں نے بھی چیخ چیخ کر اسے راستہ چھوڑنے کو کہا – پھر دو تین آدمی دوڑے اور انہوں نے رکشہ کو دھکیل کر راستے سے ہٹانے کی کوشش کی – تب اس رکشہ ڈرائیور کو بھی شاید ہوش آیا اور اس نے رکشہ ایک طرف ہٹا کر روک لیا – ایمبولینس تیزی سے گزر گئی – اس کی کھڑکی میں سے ایک عورت کا کرب زدہ اور آنسوؤں سے بھرا چہرہ نظر آیا جس کے قریب سٹریچر پر ایک اور بے ہوش عورت بھی نظر آ رہی تھی –
میں راستے بھر یہی سوچتا ہوا گھر پہنچا کہ اس بے ہوش عورت کو کیا تکلیف تھی ؟ اور وہ جو عورت ساتھ بیٹھی تھی اور نم ناک آنکھوں اور کرب زدہ چہرے سے باہر دیکھ رہی تھی ، وہ کیا سوچ رہی تھی ؟ اور وہ رکشہ ڈرائیور اس ایمبولینس کو راستہ دینے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کر رہا تھا ؟
اس طرح کے واقعات ہمارے ملک کی سڑکوں پر اکثر سامنے آتے رہتے ہیں اور ہم سب ان پر غور کیے بناء بے حسی کے ساتھ اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں –
ہم اگر ایک انسانی معاشرے کا حصہ ہیں تو ہم میں سے ہر ایک کو دوسرے کی عزت ، جان اور مال کا احترام سیکھنا ہو گا – ورنہ اس قدر بے حسی تو شاید جانوروں میں بھی نہ ہوتی ہو – کیا ہم ایک ایمبولینس کو راستہ دینا تک بھی نہیں جانتے ؟ کیا ہم ایک بے بس عورت کے آنسوؤں کے پیچھے چھپے کرب کو بھی محسوس نہیں کر سکتے ؟
مجھے یاد ہے کہ دو سال قبل فیصل آباد میں ایک احتجاجی جلوس نے ایمبولینس کو راستہ نہ دیا اور مریض ایمبولینس کے اندر تڑپتے رہے –
سڑک پر آنے سے پہلے ہم سب کو چند باتوں کا لازماً خیال رکھنا ہو گا – سڑک پر جتنا حق ہمارا ہے ، اتنا ہی حق دوسروں کا بھی ہے – جتنا حق ایک لینڈ کروزر والے کا ہے – کم عمر بچوں کو سڑک پر ڈرائیونگ کی اجازت قطعاً نہیں ہونی چاہیے – ملک بھر کی سڑکوں پر بے شمار کم عمر لڑکے ڈرائیونگ کرتے نظر آتے ہیں – اگر یہ لڑکے موٹر سائیکل یا کار چلا رہے ہوں تو اس وقت جیسے ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ سڑک پر یا فضا میں ان سے زیادہ تیز رفتار کوئی اور چیز نہ ہو – اگر یہ لڑکے رکشہ جیسی کوئی چیز چلا رہے ہوں تو بھی انہیں ٹریفک رولز کا علم یا دوسرے لوگوں کی موجودگی کا احساس نہیں ہوتا –
میرے ایک دوست کے والد صاحب کی وفات اس طرح ہوئی کہ وہ پیدل سڑک کے کنارے کنارے چل رہے تھے – ایک کم عمر لڑکا موٹر سائیکل کو انتہائی رفتار سے دوڑاتا ہوا گزر رہا تھا کہ موٹر سائیکل پھسل گئی – اللّٰہ کا کرنا یوں ہوا کہ وہ لڑکا تو اچھل کر سڑک کے دوسرے کنارے اُگی گھاس پر گرا اور بالکل محفوظ رہا ،لیکن اس کی موٹر سائیکل اسی رفتار سے دوڑتی ہوئی ان بزرگوار سے جا ٹکرائی – وہ بزرگ اس ناگہانی مصیبت کو سمجھ ہی نہ پائے اور بہت بری طرح سڑک کے کنارے پختہ فٹ پاتھ پر سر کے بل گرے – اس اثناء میں لڑکا اٹھا ، اپنے کپڑے جھاڑے ، اپنی موٹر سائیکل اٹھائی اور موقع واردات سے فوری طور پر غائب ہو گیا – بزرگ وفات پا گئے – اس لڑکے کو ، یا اس کو موٹر سائیکل چلانے کی اجازت دینے والے اس کے والد کو شاید کبھی معلوم ہی نہ ہوا ہو کہ ان کی اس لاپراہی نے ایک گھر کو ایک سائبان سے محروم کر دیا –

والدین سے لے کر ٹریفک سارجنٹ تک ، سب اس معاملے میں قصوروار ہوتے ہیں – والدین کا جرم ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لاڈ پیار میں انہیں ڈرائیونگ کی اجازت دے دیتے ہیں اور ٹریفک سارجنٹ کا قصور یہ ہے کہ وہ بھی ان لڑکوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں – ورنہ ان کی ڈیوٹی ہے کہ ان کو پکڑ کر لاک اپ میں بند کریں یا ان کے والدین کو تھانے بلوا کر بھاری جرمانہ عائد کریں اور آئندہ کے لیے معافی نامہ لکھوائیں –
اپنے پیاروں کو یاد دلاتے رہیے کہ راستوں پر سب کا حق برابر ہوتا ہے – اور بیماروں ، لاچاروں کا حق تو بہت برتر ہے –
اس حق کو تسلیم کیجیے – اسی میں آپ کا بھی بھلا ہے اور آنے والی نسلوں کا بھی !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں