بھارت کی طرف سے کشمیر پر اٹھایا جانے والا حالیہ غیر معمولی اقدام میرے لئے حیران کُن نہیں تھا۔جو لوگ بھارتی وزیر اعظم کے پس منظر اور اس کی فسطائی ذہنیت سے پوری طرح واقف تھے ان کے لیے مودی کا یہ قدم ایک متوقع ایڈونچر تھا۔ مگر یہ سب کچھ امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش کے بعد اتنی آسانی اور تیزی کے ساتھ ہو جائے گا یہ حیران کن ضرور تھا۔ مودی نے اپنی حالیہ الیکشن مہم میں اس امر کا برملا اظہار کیا تھا کہ وہ الیکشن جیتنے کے فوری بعد بھارتی آئین میں موجود آرٹیکل 370 کو معطل کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرے گا جس کے بعد آرٹیکل 35اے خود بخود ختم ہوجائے گا۔ مودی نے اپنا انتخابی وعدہ من و عن پورا کر دیا۔ کشمیر اور لداخ اب متنازعہ علاقہ اور ایک عملی ریاست نہیں رہا بلکہ انڈین یونین کا حصہ اور وفاق کے زیر انتظام چلنے والا ایک ایسا خطہ بن گیا ہے جہاں کوئی بھی غیر کشمیری اور عام ہندوستانی آسانی کے ساتھ جائیداد خرید سکے گا وہاں پر ہندو بستیاں بسانے کی راہ ہموار ہوگی اور وفاق کے تمام قوانین کا وہاں پر اطلاق ہوگا۔ لائین آف کنٹرول کو ایک بین الاقوامی سرحد کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ کشمیر یوں پہ یہ افتاد گرانے سے پہلے بھارت نے ریاست کو ایک فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرکے رکھ دیا گیا۔ غیر ملکی سیلانیوں کو کشمیر سے نکل جانے کا حکم دیا گیا۔۔امرناتھ یاترا کو منسوخ کرکے ہندو زائرین کو وہاں سے فوری واپس آنے کا کہا گیا۔ 28 ہزار اضافی نفری کو کشمیر میں تعینات کر دیا گیا۔ یہ تمام غیر معمولی اقدامات تھے جن کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ بھارت وہاں کوئی نیا کھیل کھیلنے جا رہا ہے۔۔امریکی صدر ٹرمپ کی ثالثی کی غیر متوقع پیشکش کے بعد جہاں پاکستان میں خوشیوں اور کامیابیوں کے شادیانے بجائے گئے وہاں بھارت میں صف ماتم سی بچھی نظر آئی، بھارتی میڈیا ہیجان میں مبتلا نظر آیا۔ مودی کی جانب انگلیاں اٹھنے لگیں کہ آخر ایسی کونسی مصلحت تھی جس کے پیش نظر اس نے صدر ٹرمپ کو کشمیر پر ثالثی کروانے کا کہا۔۔ حکومتی سطح پر جہاں ٹرمپ کے بیان کو رد کا گیا وہاں مودی پُر اسرار طور پر خاموش نظر آئے۔ بہت سارے مبصرین ٹرمپ کارڈ کو ٹریپ کارڈ سے تشبیہ دے رہے ہیں جس میں ہمیشہ کی طرح پاکستان اپنی کمزوری کی بدولت پھنسا۔میرے خیال میں بھارت کی طرف سے ٹرمپ کو ثالثی کی نہیں سازش کی پیشکش کی گئی، بھارت نے امریکہ کو اپنےممکنہ مکروہ منصوبے سے آگاہ کیا اور پھر اس پر ان سے تائید و حمایت کی درخواست کی جس کو اس نے بلا تردد قبول کر لیا۔ بھارت کے لیے امریکہ کی حمایت کے بغیر اتنا بڑا قدم اٹھانا آسان کام نہیں تھا۔ امریکی صدر نے وزیراعظم پاکستان کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ہونے والی پریس کانفرنس میں بغیر کسی پاکستانی درخواست کے یکطرفہ طور پرخود سے ثالثی کی پیشکش کرکے وزیر اعظم سمیت پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ اس پیشکش کے پیچھے کیا عناصر کار فرما تھے، اس حوالے سے لوگ اندازے لگا رہے ہیں۔ بطور ایک عام آدمی کے میرے نزدیک ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ ایک ڈبل گیم کھیلنے کی کوشش کی۔۔ اس نے پاکستان کو ثالثی میں الجھا کر دوسری طرف انڈیا کو ہری جھنڈی دکھائی کہ وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہے۔ پاکستانی حکومت امریکی صدر سے ہونے والی ملاقات کی خوشی سے بھنگڑے ڈالنے میں مصروف تھی، دوسری طرف انڈیا نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔انڈیا کے اس اقدام کے بعد ریاست پاکستان سکتے کی سی کیفیت میں نظر آئی۔ اپوزیشن کو للکارنے اور دیوار سے لگانے والے وزیر اعظم اور ان کا ٹویٹر ہینڈل خاموش نظر آئے وزارت خارجہ نے بھی چپ سادھے رکھی۔قومی اسمبلی کا جوائنٹ سیشن بھی ہمارے اندرونی اختلافات کا شکار نظر آیا،رہی سہی کسر وزیر اعظم کے تاخیر سے اجلاس میں آنے اور انتہائی سطحی تقریر نے پوری کردی,جس میں کہیں بھی کوئی واضح موقف نظر نہیں آیا اور انتہائی معذرت خواہانہ رویہ اپنایا گیا جس میں جگہ جگہ اپنی کمزوری کا رونا نظر آیا۔ مظلوم کشمیریوں کے دکھوں اور تکلیفوں کا مداوا کہیں ہوتا نظر نہ آیا، جس کی توقع پوری شد و مد کے ساتھ کی جا رہی تھی۔ میری ذاتی رائےمیں انڈیا کے لیے ایسا اقدام اٹھانے کی اسٹیج ہم نے خود مہیا کی۔ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی دوسرے دن ہندوستان کو واپسی,بار بار امن کی خواہش کا اظہار,مودی کو تواتر سے یکطرفہ فون کالز اور لکھے جانے والے خطوط, کرتار پور راہداری کا تحفہ, سلامتی کونسل میں ہندوستانی کی رکنیت پر غیر مشروط حمایت,افغانستان کے ساتھ ہندوستانی تجارت پر ان کو راہداری دینے کا اشارہ, حافظ سعید کی گرفتاری, کالعدم تنظیموں اور مدارس پر کڑی پابندیاں,یہ سب وہ واضح اشارے تھے جس کو دیکھ کر بھارت کو ایسا قدم اٹھانے کی وہ ہمت ہوئی جو اس کو ستر سال سے نہیں ہو رہی تھی۔ بہت سارے مبصرین وزیراعظم پاکستان کے حالیہ امریکی دورے کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک وزیر اعظم نے 2016 میں اپنے ایک انٹرویو میں کشمیر کی تقسیم کا جو فارمولہ بتایا تھا انڈیا نے اسی پر عمل کرنے کی ہی سعی کی ہے۔ اپوزیشن وزیر اعظم پر کشمیر کو امریکہ میں بیچ ڈالنے کا الزام لگا رہی ہے۔ کیونکہ ان کی وطن واپسی پر انڈیا نے کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ انتہائی تیزی کے ساتھ اور غیر معمولی انداز میں وقوع پذیر ہوا اور اس کے اوپر بحیثیت قوم اب تک ہمارا مجموعی ردعمل مایوس کن اور بذدلانہ ہے۔
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کوئی آپشن نہیں ہے مگر انڈیا کا جارحانہ رویہ دیکھتے ہوئےروایتی جنگ کے آپشن کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ حالیہ دنوں میں وادی نیلم میں بھارت کی طرف سے کلسٹر بموں کا استعمال ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ ضرورت اب اس امر کی ہے کہ ہم تمام دستیاب آپشنز پر غور کریں۔ قریبی دوست ممالک کو کشمیر کی سلگتی صورت حال پر آگاہ کریں۔اقوام متحدہ کو ان کی کشمیر پر پیش کردہ قراردادوں کے حوالے سے جھنجھوڑا جائے۔ پوری دنیا سے جانے والا ایک مضبوط ردعمل ہی بھارت کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے,بھارت کی موجودہ قیادت اور سوئے ہوئے عالمی ضمیر کے پیش نظر کسی بھی پیش رفت کا تاحال کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ حالات جیسے بھی ہوں ہر دور میں کشمیریوں کی نظریں پاکستان کی جانب لگی رہی ہیں۔وہ اب بھی پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں اپنی کم مائیگی کے احساس کے باوجود کشمیری قوم کو اکیلا نہیں چھوڑنا اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہیے۔ کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی حمایت میں ہماری اپنی سلامتی کے راز مضمر ہیں۔ کیونکہ انڈیا کا اگلا قدم ممکنہ طور پر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی جانب بڑھ سکتا ہے۔۔ دنیا ہمیشہ طاقتور کا ساتھ دیتی ہے۔ طاقت ایک عالمگیر حقیقت ہے اس لیے دنیا کا جھکاؤ کس جانب ہوگا یا ہونا چاہیے،یہ اندازہ لگانا کسی کے لیے مشکل نہیں ہونا چاہیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں