اے دنیا کے منصفوں۔۔۔۔ہما

اے دنیا کے منصفوں ،سلامتی کے ضامنوں

کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے ہوئے خون کا شور سنو!

اے دنیا کے منصفوں!

اپنے بچپن میں ہر شام پی ٹی وی پر کشمیری بلیٹن کے بعد یہ آواز سننا میرا معمول تھا، اس وقت روز پابندی سے سنتے ہوئے محسوس ہوتا تھا کہ جتنا کرب اس نغمے میں سمودیا گیا ہے اور جس قدر پرجوش نعرے اس میں گونج رہے ہیں۔۔۔دنیا کے جو بھی منصف ہیں وہ اس کرب کو ضرور محسوس کریں گے اور کشمیر کو جلد ہی آزادی مل جائے گی۔

لیکن وقت شعور کی پرورش کرتا گیا اور پتہ چلا کہ کشمیر کی جلتی وادی کو، کشمیر میں بہتے خون کو، ماؤں کے سامنے تڑپ تڑپ کر مرتے بیٹوں کو،بھائیوں کے سامنے بہنوں کی عصمت دری کو  ان                   آہوں اور فریادوں کو تو مجھ سے پہلے کی نسلیں بھی سنتی آرہی ہیں اور بعد والی بھی سن رہی ہیں۔لیکن آخر دنیا کے منصفوں کے کانوں میں وہ کونسا سیسہ ہے جس کی وجہ سے یہ آہ وبکا ،یہ مظلومیت کا شور ان تک نہیں پہنچ پارہا؟؟

پاکستانی مؤقف کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے تو بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا آیا ہے،مسئلہ کشمیر کی جڑ کی شجرکاری برصغیر کی تقسیم اصولوں کے خلاف کرکے کی گئی، جب مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے باوجود کشمیر کو بھارت کا حصہ بناکر کشمیر میں بھارتی فوجیں اتاری گئیں۔

کشمیری عوام کی امنگوں کی خاطر پاکستان نے مزاحمت کرتے ہوئے ایک حصہ آزاد کروایا تو بھارت بلبلا اٹھا اور اقوام متحدہ کو ثالث بنانے جاپہنچا۔جہاں اقوام متحدہ نے متفقہ قرارداد منظور کی کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دیا جائے اور وہ جس ریاست سے چاہیں الحاق کرلیں لیکن بھارت نے ممکنہ نتیجہ بھانپتے ہوئے وہاں سے راہ فرار اختیار کی اور اقوام متحدہ کی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے کشمیر میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کردیا اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو کچلتے ہوئے ان پر ناجائز غاصبانہ حکمرانی شروع کردی۔۔

آج پاکستان کا 72 واں یوم آزای ہے لیکن پاکستان کی آزادی کشمیر کے بغیر نامکمل ہے۔۔۔گزشتہ سات دہائیوں میں پاکستان ،بھارت سے بڑی اور چھوٹی جنگوں میں برسر پیکار رہا، کبھی اپنی جنگیں لڑیں کبھی اغیار نے ہم پر جنگیں مسلط کیں۔پاکستان اندرونی اور بیرونی خطرات کا مقابلہ کرتا رہا۔لیکن کیامسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اقدامات اس قدر غیر مؤثر تھے کہ وہ دنیا کے منصفوں کے سامنے مقدمہ کشمیر اس انداز میں نہ پیش کرسکا کہ وہ کسی حاکمانہ فیصلے پر پہنچ کر بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتے؟

یقیناً  پاکستانی سفارتکاری نے مسئلہ کشمیر پر وہ ولولہ اور ہنگامی صورت حال کبھی نہیں رکھی کہ حل کرواکر ہی دم لیں گے،کچھ غلط فیصلوں کی وجہ سے کشمیر کو ایک عالمی مسئلہ بنانے کے بجائے دو طرفہ مسئلہ بنایا گیا۔جس کا نتیجہ بھارت نے اس ہٹ دھرمی کے ساتھ دیا کہ واحدانی طور پر کشمیر کو اپنے آئین سے   آرٹیکل 370 کو منہا کرکے اپنے ملک کا حصہ قرار دے دیا۔کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے کشمیریوں کو ہمیشہ کیلئے اپنا غلام بنانے کا بگل بجادیا۔

پاکستانی اقدامات میں یقیناً کوتاہی برتی گئی ہے،پاکستان کو اندرونی سیاسی انتشار نے اس نہج پر پہنچادیا کہ اس اہم مسئلہ انڈین آرٹیکل سے شق نمبر370 کے منہا کئے جانے پر بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت اپوزیشن سے، اپوزیشن حکومت سے، ایک جماعت دوسری جماعت سے اور دوسری جماعت تیسری جماعت سے دست و گریباں نظر آئی۔قومی یکجہتی کیلئے دکھاوے کا مظاہرہ بھی نہیں کیا گیا اور دنیا کو ایک مشترکہ اعلامیہ دینے کے بجائے اپنی ہی نوجوان نسل کو بدظن کیا گیا،لیکن سلام ہے معروف اینکر اور چئیرمین یوتھ پارلیمنٹ رضوان جعفر کی ہمت و استقامت اور معاملہ فہمی کو کہ انہوں نے اس کڑے وقت میں نوجوان نسل کو یوتھ پارلیمنٹ کے فورم کے ذریعے متحد کیا۔

اور قومی سیاست کے شوروغل سے باہر ملک بھر کے نوجوان کو نکال کر کشمیر سے اظہار یکجہتی کے لئے ملک بھر میں ریلیوں کا انعقاد کیا

کراچی مظاہرے کی سربراہی چئیرمین یوتھ پارلیمنٹ خود سنبھالے ہوئے تھے لیکن ایک اینکر کے طور پر اپنے فرائض نبھاتے رہے جبکہ قومی اسمبلی سے تمام سیاسی جماعتوں کے منتخب نمائندوں کو بھی اس ریلی میں شامل کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ بحیثیت قوم ہمارے نمائندے اور ہماری نوجوان نسل متحد ہے

اس منظم احتجاج میں سیاسی نمائندوں، حکمران جماعت تحریک انصاف کے جام فاروق علی، پیپلز پارٹی سے سردار نزاکت علی، سنی تحریک کے ثروت اعجاز قادری پی ایس پی سے آصف حسنین جبکہ متحدہ قومی موومنٹ سے محفوظ یار خان اور ڈاکٹر فاروق ستار نے شرکت کی اور نوجوانوں کے جوش وجذبہ کو سراہتے ہوئے اپنے عزائم پختہ رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا

نوجوان نمائندگان کا جوش وجذبہ دیدنی تھا اور انکے لفظ انکے بلند حوصلے بتارہے تھے۔ڈاکٹر فاروق ستار نے مسئلہ کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ اندرونی اکائیوں کے  احساس محرومی کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ہر پاکستانی کے دکھ درد کو سمجھتے ہوئے انہیں قومی لڑی میں پرو کر متحد ہونا ہے۔کیونکہ ہمارا اتحاد ہی ہمیں مضبوط کرے گا،چئیرمین یوتھ پارلیمنٹ رضوان جعفر نے مسئلہ کشمیر پر عالمی انسانی حقوق کی تنظمیوں سے ایک بار پھر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ دنیا میں چھوٹی سی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوجائے تو آپ کے ادارے حرکت میں آجاتے ہیں۔جبکہ کشمیر کی ایک کروڑ چالیس لاکھ کی آبادی پر نو لاکھ بھارتی فوج مسلط کرکے خطہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنادیا گیا،جیلوں میں بھی انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے،ضروریات زندگی تو جیل انتظامیہ بھی فراہم کرتی ہے پھر کشمیریوں کو بنیادی ضروریات زندگی کیلئے کیوں ترسایا جارہا ہے، انٹرنیٹ اور جدید سہولیات تو دور ان کے لئے تو راشن کا حصول بھی مشکل کردیا گیا ہے۔آخرمقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی ادارے کیوں چپ ہیں؟؟؟؟

کیوں دنیا کے منصف اپنی آنکھیں اور کان بند کئے ہوئے ہیں ؟اے دنیا کے منصفوں سنو کشمیر اپنا حق خودارادیت لینے  کے لیے  اس  بار پہلے سے زیادہ چیخ رہا ہے،اے دنیا کے منصفوں سنو تمام سنو،سلامتی کے ضامنوں سنو

julia rana solicitors

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply