دو امریکی میاں بیوی روس کے لیے جاسوسی میں پکڑے گئے ۔دونوں کو سزائے موت ہوئی دنیا بھر میں کہرام مچ گیا کتابیں لکھی گئی۔ آج تک اس موضوع پر بات ہوتی ہے عظیم فیض نے ان میاں بیوی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے شہرہ آفاق نظم
۔وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے لکھی۔
دینا بھر کے بائیں بازوں کے پیروکاروں نے اپنے اپنے طریقے سے احتجاج کیا۔تاریک راہوں کے استعارے کو جب پڑھا ہمیشہ تاریک گٹروں میں ڈوبنے والے نظروں کے سامنے آجاتے ہیںِ۔ نیلے جسم غلاظت میں لتھڑے ہوئے ایسے بدبودار کہ اگر زندگی کی کوئی رمق ہو بھی تو کوئی مسیحا سانس نہ دے۔بس چند ہم مذہب لوگوں کے کندھوں پر قبرستان اور تدفین ،پھر تھوڑا سا شور شرابہ۔کئیوں کی سالوں کی روٹیاں اور پھر وہی تاریک بدبودار شہر بھر کی غلاظتوں کے خزانے، گٹروں کے لئے نئے شکار حاضر ۔ذمہ دار کون ڈاکٹر علوی جو ریاست کا سربراہ اور سینٹ کیتھرین کے کلیسا کی مثالیں دیتے نہیں تھکتا۔یا عمران خان جس نے کبھی مجھے کہاں تھا۔۔معاشرے میں انصاف ہو گا،تو انھیں بھی مل جائے گا۔ لیکن اب لگتا ہے،سب کو انصاف مل جائے گا، سوائے انکے۔یا پھر اس غیر انسانی ماحول میں کام والوں کے نیشنل اسمبلی،صوبائی اسمبلی کے نمائندے انکی ان ذلت آمیز اموات کے ذمہ دار ہیں۔یا پھر وہ انسان نما درندے انکے قتلوں کے ذمہ دار ہیں۔جن کی نگرانی میں یہ ان غلاظت بھرے دوزخ سے بدتر بد بودار اندھے کنوؤں میں اترتے ہیں۔اور پھر غلاظت بھرے مردہ جسموں کی شکل میں باہر آتے ہیں۔ یا پھر وہ بے شرم جو سترہ اٹھارہ انکی شناخت پر سینٹ قومی صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہیںِ۔اور انکی بدبودار سانسوں سے سرکتی زندگی انکے اور انکے گھرانوں کے لئے تازہ آکسیجن ہیں۔یا انکے نام پر دنیا بھر سے چندے سمیٹتے انکے سماجی اور مذہبی دلال جو انکے نام پر چندے جمع کرتے ہیں۔اور انھیں صرف شعبدوں والے معجزوں پر ذلتوں میں زندہ رکھے ہوئے ہیںِ۔ اور انکی زندگیوں میں کوئی معجزہ بھی نہیں ہوتا۔۔ہاں انکی زندگیوں میں جو معجزے تعلیم کی بدولت ہوتے تھے ڈبہ پیر پادریوں نے انھیں اس سے بھی دور کر دیا ہے ،لیکن یہ رفیق مسیح یہ عرفان مسیح یا آج ڈیرہ اسماعیل خان میں تین باپ بیٹے جو گٹر میں ڈوب مرے۔ یہ ہیںِ وہ لوگ جو واقعی تاریک راہوں میں مارے گئے۔ اور ایسی تاریک راہوں میں مارے گئے جہاں سے گزرتے ہوئے بھی منافقت بھرے معاشروں کے افراد اپنے چہروں کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ یہ پراسرار گٹروں کا رزق لوگ پتہ نہیں کہاں سے آتے ہیں ۔بس گٹر میں گھستے ہیں اور پھر مر کر باہر نکلتے ہیں۔کیا انکی موت کے ذمہ داروں کی بخشش ہوگی۔ معاشرے کی بے حسی کہتی ہے ایسی تاریک راہیں کبھی روشن نہیں ہوں گی لیکن لگتا ہے اگر یہ راہیں روشن نہ ہوئیں تو اس وطن کی روشنیاں بجھ جائیں گی۔ ان تاریک راہوں میں جانوروں سے بدتر حالات میں مرتے انسانوں کے ذمہ دار انسان نما وحشی جانوروں سوچو۔۔ ذرا سوچو۔ یہ اکیسویں صدی میں بطورِ قوم ایسے جیا جا سکتا ہے۔ اور وہ عالمی ٹھیکیدار جو بالکل غیر متعلقہ مسائل کو بنیاد بنا کر غریب ملکوں کو محکوم بناتے ہیں۔وہ یہ کیسے برداشت کر لیتے ہیں کہ انسان پتھر کے دور بلکہ اس سے بدتر حالات میں روزی روٹی کمانے کے لیے غیر انسانی کام کرنے پر مجبور ہو۔ اور انھی کے سیفٹی آلات کے پیسوں سے ذمہ داروں کے بچے آ کسفورڈ کیمبرج میں پڑھیںِ۔اور عالمی دلالوں کو پتہ نہ ہو، بلکہ وہ انھیں سیاسی پناہیں دیں۔اور یہ ذلت آمیز اموات کو کوئی گلوریفائی بھی نہیں کرتا ان پر کوئی نظم نغمہنہیں لکھا گیا۔برصغیر کے ذات پات چھوت اور طبقاتی سماج کی چھاپ آج بھی ہمارے معاشرے پر اتنی گہری ہے کہ ان غلاظت بھری اموات پر کوئی قومی سطح کا ادیب شاعر صحافی اینکر آواز بھی نہیں اٹھاتا۔ واقعی یہ ہیںِ وہ دھرتی کے کیڑے مکوڑوں سے بدتر بچے جن کے لئے یہ بھی نہیں کہا جاسکتایہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔کیونکہ اس طرح تو انکی اموات بھی قابل تحسین ہونگی۔ جب کہ انکی تو زندگیاں اور اموات کچھ ایسے ہیں۔

زندگانی تو تھی ہی ذلت آمیز۔
موت اس سے بھی بدتر ٹھہری
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں