ماں تجھ سا کوئی کہاں۔۔فوزیہ قریشی/دوسری ,آخری قسط

علی اور سارہ دونوں کے لئے یہ بات کسی شاکڈ سے کم نہیں تھی۔ اب اکثرعلی پوچھتا کہ آٹسٹک کیا ہے؟
کیا میں مینٹلی ڈس ایبل ہوں؟
ماما کیا میں پاگل ہوں ؟
یہ سوال کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں عجیب سی حیرت ہوتی۔
سارہ کہتی نہیں میرے بچے تم بالکل نارمل ہو۔ آٹسٹک بچے پاگل نہیں ہوتے یہ تو بہت خاص ہوتے ہیں۔ بہت ذہین۔۔ ان کے چیزوں کو سمجھنے پرکھنے کے زاویے حیرت انگیز حد تک مختلف ہوتے ہیں ۔ یہ اس دنیا کے سب سے ذہین لوگ ہوتے ہیں جن کو اللہ کسی خاص مقصد کے لئے چنتا ہے اور وہ کچھ ایسا کر دکھاتے ہیں جو تمہارے دوست ،کزنز اور تمہاری ماما بھی نہیں کر سکتی۔ پھر وہ اپنے بیٹے کو ان ذہین لوگوں کی مثال دیتی جنہوں نے دنیا کو ایک الگ زاویے سے دیکھا اور اپنا نام رہتی دنیا تک امر کر گئے۔ اس نے بیٹے کو آئن سٹائن ،ہاکنگ،نیوٹن اور بل گیٹس کی مثالیں دیں اور اس کے معالج سے بھی کہا کہ بچے کو اس کے مرض سے ایک منفرد طریقے سے روشناس کروایا جائے تاکہ وہ خود کو کسی سے کم تر نہ سمجھے ۔ مثبت انداز میں سوچے اور خود کو اس معاشرے کا ایک اہم رکن سمجھے۔

اگرچہ وہ اس کے آٹسٹک ہونے پر بھی فکر مند تھی لیکن پھر بھی وہ اس مرض کو بہترین طریقے سے ہینڈل کر رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بر وقت سائیکوسز جیسے مرض پر دھیان نہ دے پائی۔ وقت گزرتا گیا تکلیف بڑھتی گئی، دوا کی ڈوز میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ بچے کی حالت میں بھی کوئی زیادہ فرق نہ آیا۔ ادویات کے سائیڈ افیکٹس سے وزن بڑھنے لگا۔ علاج اتنا سُست تھا کہ اس کی پریشانی کم ہونے کے بجائے بڑھنے لگی۔

اس لئے اُس نے سوچا کہ پہلے سرچ کیا جائے کہ سائیکوسز کیا ہے؟
پھر اسے معلوم ہوا کہ سائیکوسز یا شیزوفرینیا وہ اعصابی بیماری ہے۔ جس میں دماغ اور جسم کا رابطہ دیگر حصوں سے ٹوٹنے لگتا ہے یا یوں کہنا درست ہوگا کہ دماغ دیگر اعضا کو غلط پیغام دینے لگتا ہے ۔

شیزوفرینیا کےمریض کو حقیقت اور وہم میں فرق کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ جس کے باعث انسان کے رویے میں تبدیلی آنا شروع ہوجاتی ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر علامات میں ذہن کا ہر وقت کسی الجھن کا شکار ہونا،چڑچڑاپن، کسی بھی کام میں دھیان نہ دے پانا، تنہائی پسندی اور گھبراہٹ رہنا شامل ہیں ۔

شیزوفرینیا سے متاثرہ افراد کو آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں ۔ کچھ کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ دوسرے لوگ انکے خیالات پڑھ سکتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی اسکیم تیار کر رہے ہیں ۔ ایسے مریض شروع شروع میں لوگوں سے ملنا اور بات چیت کرنا چھوڑ دیتے ہیں البتہ آہستہ آہستہ وہ جارحانہ رویہ اپنانے لگتے ہیں ۔ عام طو ر پر تو یہ بیماری سولہ سے تیس سال کی عمر میں حملہ آور ہوتی ہے لیکن یہ مرض عمر کے کسی بھی حصے میں اثر انداز ہو سکتا ہے ۔

شیزوفرینیا کے اثرات نہ صرف مریض پر بلکہ اس کے آس پاس کے لوگوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں کیونکہ ان مریضوں کو اپنی روز مرہ کے کام کرنے کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ شیزوفرینیا کے مریض کبھی تو بالکل ٹھیک ہوتے ہیں اور کبھی اچانک سے ان کا رویہ تبدیل ہونے لگتا ہے ۔

ادی

علامات
ایسا کوئی ٹیسٹ نہیں جس سے یقینی طور پر شیزوفرینیا کی تشخیص کی جاسکے ۔ ایک اعصابی ماہر کو مریض کی ظاہری علامات اور مریض کے رویے کو دیکھتے ہوئے ہی مرض کی تشخیص کرنی ہوتی ہے ۔ مختلف مریضوں میں اس مرض کی مختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں ۔ ان علامات کی درجہ بندی اس انداز میں کی جاتی ہے :
*مثبت علامات : انہیں نفسیاتی علامات بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ علامات ہوتی ہیں جو عام لوگوں میں نہیں ہوتیں ۔ شیزوفرینیا سے متاثرہ افراد کو ایسی چیزیں نظر آتی ہیں یا ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو حقیقت میں نہیں ہوتیں ۔
*منفی علامات: یہ وہ عنصر ہیں جو اس مرض میں مبتلا افراد میں نظر آنا بند ہوجاتے ہیں ۔ جیسے کہ عام لوگوں کی طرح برتاؤ کرنا یا ان کی طرح اپنی روز مرہ کی سرگرمیوں میں حصہ لینا ۔
*ادراکی علامات: یہ علامات انسان کے سوچنے کے طریقے میں ظاہر ہوتی ہیں ۔ یہ علامات مثبت بھی ہوسکتی ہیں اور منفی بھی ۔ مثال کے طور پر کہیں دھیان نہ لگا پانا ایک منفی علامت ہے ۔
*جذباتی علامات: یہ علامات انسان کے احساسات میں رونما ہوتی ہیں ۔ یہ عام طور پر منفی ہوتی ہیں جیسے کسی جذباتی موقعے پر کسی بھی قسم کے احساس یا جذبات کا اظہار نہ کرنا ۔
شیزوفرینیا کے مریض ایک طرح کے احساس جرم میں مبتلا رہتے ہیں ۔ اکثر ایسے لوگ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے اصل احساسات دوسروں کے سامنے ظاہر نہیں کرتے ۔ ایسے لوگوں کو سمجھنا اکثر مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ایک موضوع پر بات کرتے کرتے اچانک موضوع تبدیل کر دیتے ہیں۔انہیں لوگ اور باتیں یاد نہیں رہتیں ۔
وجوہات
دیگر کئی اعصابی امراض کی طرح شیزوفرینیا کی بھی وجوہات پوری طرح واضح نہیں ہوپائی ہیں ۔ اس لیے یہ یقینی طور پر کہنا اکثر مشکل ہوجاتا ہے کہ مریض اس بیماری میں کیوں مبتلا ہوا۔ ماہرین کا ایسا مانناہے کہ یہ مرض محض کسی ایک وجہ کے باعث نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے مختلف وجوہات کا ایک مجموعہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ دماغ میں کیمیکل ردوّبدل اور بناوٹ کے اعتبار سے آنے والی تبدیلی ہوتی ہے جو دماغ کے کام کرنے کے انداز کو متاثر کردیتی ہے ۔
علاج
ماہرین کا ماننا ہے کہ شیزوفرینیا کی تشخیص جتنی جلدی ہوجائے اس سے بچنے کے امکانات اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں ۔ اس مرض کے علاج کے لیے کئی اقسام کی ادویات کا کورس کرایا جاتاہے ۔ جس میں معالج کی جانب سے کاؤنسلنگ بھی کی جاتی ہے ۔ اینٹی سائیکوسس ادویات کی ایجاد نے شیزوفرینیا کے علاج کو ممکن بنا دیا ہے ۔
شیزوفرینیا کے مریضوں کے لیے ادویات کے انتخاب سے زیادہ انہیں وہ دوائیں وقت پر کھلانا مشکل کام ہوتا ہے۔ چونکہ اس مرض میں مبتلا افراد اکثر خود کو بیمار تصور نہیں کرتے اس لیے وہ دوائیں بھی پابندی سے نہیں لیتے ۔اس سے مکمل نجات حاصل کرنے کے لیے علاج کو ایک لمبے عرصے تک جاری رکھنا ضروری ہے ۔
دواؤں کے ساتھ ساتھ اس مرض سے متاثرہ افراد کو اپنے عزیز واقارب کی مدد درکار ہوتی ہے۔ اگر مریض کے دوست احباب اس کا ساتھ دیں تو اس مرض سے نمٹنے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔
اب سارہ اپنے بیٹے کی بدلتی صورتحال کو سمجھ سکتی تھی کیونکہ سبھی علامات اس کے بیٹے میں پائی جاتی تھیں اور وہ کچھ ماہ سے اسی طرح سے بی ہیو BEHAVE کر رہا تھا۔ وہ کبھی کبھی سوچتی اگر اس کا بیٹا شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا تھا تو وہ آہٹ و سرسراہٹ کیوں تھی؟ جسے اس نے بھی بارہا محسوس کیا تھا۔۔ کسی کا  یکدم سے پاس سے گزر جانا ، کبھی کبھی لگنا کوئی پاس بیٹھا ہے اور اُس مردار کی بدبو کا احساس۔۔۔۔
سب کیا تھا؟
کبھی کبھی وہ سوچتی شاید یہ اس کا وہم ہو لیکن احساس اتنا شدید تھا کہ آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ تھا ۔ پھر وہ سوچتی شاید دم درود ، وظائف، صدقے اور آیات قرآنی نے اُن اثرات کو کم کر دیا ہے۔
اس کے لئے بچے کا دوبارہ زندگی کی طرف لوٹنا اہم تھا۔ اس لئے اس نے روحانی اور جسمانی دونوں علاج کو اپنے بچے کی بہتر صحت کے لئے جاری رکھے۔ ایک طرف سارہ روحانی ٹوٹکے ،دم درود ،صدقے اور وظائف کر رہی تھی تو دوسری طرف اس نے اپنے بچے کے سائیکاٹرسٹ سے مزید تھیریپیز کرنے کو کہا کیونکہ صرف ادویات اس صورتحال میں کافی نہیں تھیں اور بچے کو مکمل کونسلنگ اور کاگنیٹو بی ہیویر تھراپی کی بھی ضرورت تھی۔ علاج کیونکہ slow تھا لیکن ماں نے ہمت نہ ہاری اور اپنے بچے کو اس مشکل سے نکالنے کے لئے ہر طرح کے جتن کرنے میں جُت گئی۔ بہت بار ایسا ہوا کہ بچے نے اپنے حواس کھودیے اور ماں کو تشدد کا نشانہ بنایا ۔ بدن پر لگے نشان تو وقت کے ساتھ کم ہوگئے لیکن روح پر لگے نشان اسے کئی بار توڑتے اور پھر سے کھڑے ہونے کی ہمت دیتے رہے۔ صرف یہ سوچ کر کہ اس بیماری میں مریض کو سب سے زیادہ ضرورت اپنوں کے تعاون کی ہوتی ہے اور علی کے پاس اس دنیا میں صرف ایک ہی اپنا تھا جس پر وہ کئی بار حملہ کرتا اور ہوش آنے پر معافیاں مانگتا۔ بچے کی خاطر ماں کتنی تکلیف برداشت کرتی ہے؟
اگر اولاد کو اس بات کا احساس ہوجائے تو کوئی ماں کبھی اولاد کی وجہ سے تکلیف نہ اٹھائے۔ سارہ  ایک مضبوط اعصاب کی ما لک تھی لیکن چند ماہ ہی میں وہ دل کی مریضہ بن گئی تھی ۔ بلڈ پریشر ہائی رہنے لگا ۔ چہرے کی رنگت ماند پڑ گئی ، دن میں کئی بار روتی آنکھیں اب دُکھتی بھی تھیں۔ ان سب تکالیف کے باوجود بھی اس وقت اُس کے لئے خود سے زیادہ اس کا بیٹا اہم تھا۔
ختم شد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply